کراچی کے علاقے ناظم آباد میں دو محلے بالکل جڑے ہوئے ہیں۔ ایک عثمانیہ سوسائٹی دوسرا رضویہ سوسائٹی۔جس نے نوے تک کا عثمانیہ دیکھا ہے اس نے مراد آباد اور بنارس کی تہذیب دیکھ لی ہے۔ جس نے رضویہ دیکھا ہے اس نے لکھنؤاور امروہہ کی تہذیب جی لی ہے۔ میں عثمانیہ میں ہوا ہوں اور رضویہ میں جیا ہوں۔پھر سے عثمانیہ میں ہونا چاہتا ہوں پھر سے رضویہ میں جینا چاہتا ہوں۔ شاید اسی خواہش میں ہر بار عاشورہ اور میلاد کے تہذیبی رنگ دیکھنا چاہتا ہوں۔مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں۔
محرم میں رضویہ کے شیعہ عزاداری کرتے تھے اور عثمانیہ کے سنی انتظامات سنبھالتے تھے۔وی سی آر بند ہوجاتے تھے اور ندیم سرور کی مولائی آواز میں نوحے گونجنے لگتے تھے۔سیاہ پوش عزا دار ننگے پائوں چلتے تھے۔سینے میں کربلا محسوس کرتے تھے۔گلی گلی سبیل لگاتے تھے۔ پیسے دو پیسے اکٹھے کرکے عاشور کی رات گلی میں دیگ چڑھاتے تھے۔ صبح حلیم کی نیاز ایک ایک گھر پہنچاتے تھے۔اسپتال کا مسیحی ملازم بھی نذر اللہ نیاز حسین کا ورد کرتے ہوئے شربت بانٹتا تھا۔ عاشورہ والے دن رضویہ میں بے چینی کا عالم ہوتا تھا۔جیسے علاقے میں کوئی بڑی افواہ پھیل گئی ہو۔ شام تک محلے کی خاموشی بہت پراسرار ہوجاتی تھی۔جیسے لوگوں کو اندازہ ہونے لگا ہو کہ کربلا میں واقعی کچھ غلط ہونے جا رہا ہے۔ اندھیری شام میں رضویہ کے گھروں سے اچانک گریہ سنائی دینے لگتا تھا۔ جیسے کربلا سے آنیوالی خبروں کی تصدیق ہوگئی ہو۔ماحول بیحد سوگوار ہوجاتا تھا۔ اس غم کے احترام میں عثمانیہ والے کھیل کود اور کیف و سرود سے اجتناب کرتے تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب پڑوس میں غم ہوتا تو لوگ شادی بیاہ کی تاریخ بدل دیتے تھے۔
میلاد کا مہینہ آتا تو عثمانیہ میں جشن کا سماں ہوتا تھا۔عثمانیہ والے ہرا جھنڈا اٹھاتے تھے رضویہ والے ہاتھ بٹاتے تھے۔ حلوائیوں کے بھید بھائو یکم سے شروع ہو جاتے تھے۔ بچے ہرے کالے مارکر سے گنبد خضری کی تصویر بناتے تھے۔ کعبے کی شبیہ بناتے تھے۔ رستے صاف کرتے تھے، گھر سجاتے تھے اور جھنڈیاں لگاتے تھے۔ کام والی مائی نے بھی دو تاریں جوڑ کر جھونپڑی پر چراغاں کیا ہوتا تھا۔ بچے بچیاں برتن اٹھائے نذر نیاز یہاں وہاں پہنچارہے ہوتے تھے۔کہیں صابری برادران نے کیفیت طاری کی ہوتی تھی تو کہیں فصیح الدین سہروردی نے سماں باندھا ہوتا تھا۔ یہ وہی زمانہ تھاجب بچوں کو اسکول لیجانے والی ویگنوں میں وحید ظفر قاسمی کی نعت چلتی تھی۔دکان کا شٹر اٹھتا تو سب سے پہلے اگر بتی جلتی تھی۔ پھر شاکر قاسمی کی آواز میں سورہ رحمن چلتی تھی۔سیاہ پوش ملنگ کٹوری میں ایک چٹکی سفوف چھڑک کر دکان کو دھونی دیتا تھا۔ پرانا ہارمونیم گلے میں لٹکاکر فقیر کبھی شاہ مدینہ اور کبھی تاجدارحرم گاتا تھا۔ تب بھکاری نہیں ہوتے تھے،ہر محلے کا ایک سُریلا فقیر ہوتا تھا۔ رضویہ اور عثمانیہ کو دراصل گنگا جمنی تہذیب نے ایک دوسرے کیساتھ باندھا ہوا تھا۔نماز کا طریقہ الگ الگ تھا مگر سروتے سے چھالیہ کاٹنے کا طریقہ اور پان کی گلوری خاص دان میں رکھ کرمہمان کو پیش کرنے کا انداز ایک ہی تھا۔میلاد اور عاشورہ اس تہذیب کے دو بھرپور حوالے تھے۔ مذہبی روایت پر کسی کے کاپی رائٹ نہ ہوں تو تہذیب کا حصہ بن جاتی ہے۔ پھر چھنو لال دلگیر زینب کا نوحہ لکھتے ہیں اور جگن ناتھ آزاد پیغمبر کی نعت کہتے ہیں۔ نوروز کے گرد زرتشتوں نے دائرہ نہیں کھینچا، آج وہ سات براعظموں کا تہوار ہے۔ رنگ و رامش پنڈت کے ہاتھ میں تھے تو ہولی اور دیوالی ہندوئوں کے تہوار تھے۔ تہذیب کے ہاتھ میں گئے تو برصغیر کے تہوار بن گئے۔پاکستان میں میٹھی عید اسی لیے پھیکی پڑگئی کہ روزہ داروں نے اس کے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کر لیے ہیں۔ بھارت کے مسلمان اس غلطی کے ارتکاب سے کافی حد تک بچے ہوئے ہیں۔ وہاں عیدگاہوں پر ہندو آج بھی گیندے کے پھول برساتے ہیں۔ یہاں میلاد جب تک تہذیب کا حوالہ تھا تب تک ہر علاقہ اپنے حساب سے جشن منارہا تھا۔کوئی جل بجھ لائٹیں لگا رہا تھا کوئی چراغ طور جلا رہا تھا۔ کوئی قوالی پہ خوش تھا کوئی نعت پہ راضی تھا۔ مولوی کے سر پہ پگڑی تھی فقیر کے پائوں میں گھنگھرو تھے۔ ایک بایزید طرح سجدے میں تھا دوسرا بھلے شاہ کی طرح رقص میں تھا۔کوئی نبی کے نام پر موتی چور کے لڈو بانٹ رہا تھا کوئی چاکلیٹ کیک کاٹ رہا تھا۔ رنگ اور خوشبو کی بات دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی۔پھر دھنستے دھنستے یہ ملک مکمل طور پر پیشوائیت کے دلدل میں دھنس گیا۔تہذیب کی دیوار پر فتووں کے بلڈوزر چل گئے۔غم اور خوشی شیعہ سنی ہو گئے۔ رسموں پر کاپی رائٹ کے دعوے ہو گئے۔ استعارے پر گستاخی کے پرچے کٹ گئے۔ نعتیہ کلام میں بھی ہجویہ اشعار کی آمیزش ہوگئی۔ جلوس راہگیروں اور بیماروں کیلئے زحمت بن گئے۔مسجد مذہبی جماعت کا دفتر بن گئی اور میلاد سیاسی قوت کا اظہار بن گیا۔سب چھوڑیں دل کتنے سخت ہوگئے۔تہذیب کی دیوار گرنے سے تو روشن فکر بھی سخت گیر بن گئی۔ تہذیبی جمالیات ہی ہاتھ سے نکل گئیں۔الفاظ کے تہذیبی ذخیرے میں دعا دینا اور دعا لینا مشکل ہوگیا۔ زبان سبحان اللہ ماشااللہ کی ادائیگی پر شرمندہ ہوگئی۔ مسئلہ الفاظ کا نہیں ہے، مسئلہ ایکسپریشن کا ہے۔ایکسپریشن نکل جائے تو کہانی کی موت ہوجاتی ہے۔غمی خوشی کی رسم ہو، تعزیت و عیادت ہو یا پھر مصرع ہو، یہ سب ایکسپریشن ہی تو ہیں۔جسے ماشااللہ کہنے پر شرمندہ کر دیا جائے وہ نورجہاں کی آواز میں امام احمد رضا خان بریلوی کی چار زبانوں میں لکھی نعت کا لطف کیسے لے سکتا ہے۔مہدی حسن کی آواز میں امیر مینائی کی نعت کیسے سن سکتا ہے۔وہ میرانیس اور مرزا دبیر کو بھی نہیں سن سکتا۔ وہ تو سچل سرمست، رحمان بابا اور میاں محمد بخش کو بھی نہیں سکتا۔مذہب اور مذہبیت کے بیچ تہذیب کی دیوار حائل ہوتی ہے۔یہ دیوار گر جائے تو مذہب رخصت ہوجاتا ہے، نری مذہبیت باقی رہ جاتی ہے۔دو علاقوں کے بیچ بندھا ہوا تہذیب کا پل گرجاتا ہے۔عثمانیہ اور رضویہ نقشے پر وہیں موجود رہتے ہیں مگر رابطے ٹوٹ جاتے ہیں۔تہوار روٹھ جاتے ہیں!!!