• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو خواتین سمیت سات آٹھ نہتے بے گناہ انسانوں کے وحشیانہ قتل اور بارہ تیرہ گھنٹے تک پولیس کی درندگی کا دفاع صرف وہی سنگدل، سفاک اور ہوش وخرد سے عاری شخص کر سکتا ہے جس کا ضمیر زندہ ہے نہ روز قیامت جوابدہی کا احساس باقی، میرے جیسا کمزور دل شخص توکل سے افسردہ، غمزدہ اور شرمندہ ہے ۔ لاشیں گرانے ،لاٹھیاں برسانے اور مگرمچھ کے آنسو بہانے کی سیاست سے ہم نجانے کب چھٹکارا پائیں گے۔
ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ قاتلوں کےبجائے مقدمہ بھی مقتولوں اور ان کے لواحقین کے خلاف درج ہوا، وحشیانہ پولیس کارروائی کا جواز بھی عوامی تحریک کے کارکنوں کی مزاحمت کی صورت میں ڈھونڈا گیا اور رانا ثنااللہ سے لیکر مریم نواز شریف تک، آئی جی مشتاق سکھیرا سے لیکر سابق سی سی پی او شفیق گجر تک اس بات پر مصر ہیں کہ پولیس نے تو وہاں کچھ نہیں کیا اسلحہ کے انبار منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے برآمد ہوئے۔ کارروائی غیر ملکی شرپسندوں نے کی اور اشتعال ڈاکٹر القادری کی تقریر سے پھیلا ؎
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
غیرقانونی تجاوزات پورے شہر میں ہیں۔ حکمرانوں، ان کے چہیتے ایم پی ایز، ایم این ایز کے ڈیروں، سرکاری افسروں کے دفاتر اور گھروں کے سامنے، ہر بڑی مارکیٹ اور مصروف شاہراہوں پر مگر لاہور انتظامیہ اور پولیس کو عین اس وقت تجاوزات ختم کرنے کا دورہ پڑا جب پاک فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن حزب عضب کو نکلی اور اسے ملک میں سیاسی استحکام، قوم کی پشت پناہی اور سیاسی و مذہبی قوتوں کا اتفاق رائے درکار ہے ؟
ہماری پولیس اور انتظامیہ کو دن میں بھی فرائض کی انجام دہی کے لئے کہا جائے تو ہزار بہانے بناتی ہے مگر 17جون کی رات دو بجے یہ فرض شناسی کا تیسراباب رقم کرنے پر تل گئی ہے ، حیرت کی بات کیا زمانہ جنگ میں پولیس انتظامیہ عام شہریوں کی حفاظت ،غیر ملکی ایجنٹوں کی نگرانی اور دہشت گردوں کی سراغرسانی، افراد اور اداروں پر مامور ہوتی ہے یا دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے اہم ترین ٹارگٹ کے حفاظتی انتظامات درہم برہم کرنے کے جذبہ سے سرشار، کیا سیاسی دشمنی اور حکمرانوں کی بے جا خوشنودی میں کوئی اس قدر اندھا اور پاگل بھی ہوتا ہے ؟
سوال یہ ہے کہ اگر منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں اس قدر اسلحہ تھا، کارکن مزاحمت کے لئے تیار تھے تو یہ اسلحہ حملہ آوروں کے خلاف استعمال کیوں نہیں ہوا ، مزاحمت کے لئے تیار فورس دو خواتین سمیت سات افراد جاں بحق اور ساٹھ سے زائد گولیوں سے چھلنی کیسے ہوئے اور وہ پولیس کے ٹائوٹ مسلم لیگ (ن) کے شیر لاہور ’’ گلو بٹ ‘‘ کو توڑ پھوڑ سے روک کیوں نہیں سکے ۔پولیس کی وحشیانہ کارروائی تو کیمرے کی آنکھ اور ٹی وی سکرین نے صبح سے دوپہر تک دکھائی، زخمی باریش بزرگوں، باپردہ خواتین اور نہتے نوجوانوں پر لاٹھیاں برستاتے شیر جوانوں کی فاتحانہ پیش قدمی بھی کسی کارکن کے ہاتھ میں بندوق، ریوالور اور دوسرا اسلحہ کیمرے کی گرفت میں کیوں نہ آ سکا ؟اس سفید جھوٹ پر آخر کوئی اس لئے تو یقین نہیں کر سکتا کہ یہ رانا ثنا اللہ نے بولا ہے جو سچ کے سوا کبھی کچھ نہیں کہتے یا مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے گلزار گجر کے بھائی شفیق گجر نے جو ہمیشہ سچ بولتے ہیں ۔
گزشتہ چودہ سال کے دوران درندگی اور وحشت کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ 1999ء میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی آمد پر میاں شہباز شریف کے دور حکمرانی میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو لٹن روڈ کے دفتر میں اسی طرح پولیس گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں یتیم اور بے آسرا حافظ قرآن بچیوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا ۔ دونوں وقتی طور پر اپنی حکمرانی کی دھاک بٹھانے میں کامیاب رہے مگر بالاخر مکافات عمل کا شکار ہوئے ؎
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
ریاستی دہشت گردی کا یہ بھونڈا مظاہرہ بظاہر ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے کارکنوں اور حامیوں کو یہ باور کرانے کے لئے ہوا ہے کہ وہ کسی احتجاجی تحریک کے لئے سڑکوں پر نکلے تو پنجاب پولیس انہیں چھٹی کا دودھ یاد کرا دے گی۔ اب آصف علی زرداری کی حکومت نہیں کہ تین روزہ دھرنے سے تعرض نہ کرے اور نہ چودھری پرویز الٰہی کی عملداری کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری شہر شہر جلوس لئے پھرتے رہیں۔ وکلا اور سول سوسائٹی کے افراد احتجاجی مظاہروں سے حکومت کا ناک میں دم کر دیں مگر پنجاب حکومت اور پولیس ان سے تعرض ہی نہ کرے ۔
17جون کو ماڈل ٹائون لاہور میں جو کچھ ہوا وہ کسی اذیت پسند آئی جی کی کارروائی تھی نہ حکمرانوں کے ہر غلط، خلاف قانون، غیر جمہوری حکم کے پابند ڈی آئی جی آپریشنز اور سی سی پی او لاہور کے خلل دماغ کا نتیجہ اور نہ کوئی انصاف پسند شخص اسے طاہر القادری کے متوالوں کی مزاحمت کا ردعمل قرار دے سکتا ہے۔ میاں شہباز شریف کی بے خبری قابل داد تو ہے قابل قبول نہیں کہ یہ ڈرامہ دس پندرہ منٹ نہیں پورے بارہ تیرہ گھنٹے چلا اور ان کے بالکل پڑوس میں پہلی گولی چلنے پر وہ آپریشن روک دیتے تو سات بے گناہ افراد کا خون ناحق ہوتا نہ انہیں وضاحتیں پیش کرنے کی ضرورت لاحق اور نہ عدالتی کمیشن کے قیام کی مجبوری ۔
مگر کیا یہ قتل عام عدم تشدد کی علمبردار اور عسکریت پسندی کی مخالف سیاسی و مذہبی تنظیم کو اپنے ارادوں سے باز رکھنے پر مجبور کر سکتا ہے جس کے سربراہ کو اپنے کارکنوں، بہی خواہوں اور حامیوں کے سامنے سات شہادتوں کی لاج رکھنی ہے اور اپنے کارکنوں کے ساتھ دلیرانہ انداز میں کھڑے ہو کر ریاستی قوت و طاقت کا استقامت سے مقابلہ کرنا ہے ؟کیا رمضان المبارک کے بعد متوقع احتجاجی تحریک کو روکنے میں یہ سانحہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور شریف حکومت کے لئے سودمند؟ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے کسی شخص کا جواب ’’ہاں‘‘ میں نہیں ۔ البتہ حکومتی مشیروں کی رائے یہ ہو سکتی ہے کہ گوئبلزکے نقش قدم پر چل کر ہم کامیابی و کامرانی کے پھریرے لہرا سکتے ہیں ۔ عوامی تحریک کے کارکنوں کے خلاف اندراج مقدمہ اور عدالتی کمیشن کا قیام اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔
شمالی وزیرستان میں آپریشن سے سیاسی درجہ حرارت میں کمی آئی ۔حکومت کو ریلیف ملا اور اپوزیشن فوج کے علاوہ حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی پر مجبور تھی کیونکہ فوجی آپریشن کے دوران انتخابی دھاندلی ،انتخابی اصلاحات اور بدترین خاندانی حکمرانی کے علاوہ تبدیلی کے نعرے پر عوام کو سڑکوں پر لانا اور کسی احتجاجی تحریک کا جواز پیش کرنا مشکل تھا مگر اب اپنے کارکنوں کے قتل، ریاستی ظلم و درندگی اور قاتل حکمرانوں سے نجات کے مطالبہ پر کوئی احتجاجی تحریک کھڑی کرنا مشکل نہیں ۔ حکمرانوں کا اندرونی خوف طشت ازبام ہو گیا ہے اور دوبارہ پولیس تشدد کا راستہ اختیار کرنا مشکل، کیونکہ اگر خدانخواستہ ایک بار پھر گولی چلی تو معاملات پولیس اور حکومت کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور طرف چل پڑیں گے۔ عوامی نفرت میں اضافہ حکمرانی کا سیاسی ، قانونی اور اخلاقی جواز ختم کر دیتا ہے ۔
طاہر القادری کے خلاف منفی پروپیگنڈے کا ہتھیار حکومت نے خود کند کر دیا ہے۔ اپنے حامی تجزیہ کاروں، کالم نویسوں اور دانشوروں کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ حکومتی اقدام کا دفاع کر سکیں۔ طاہر القادری کے مذہبی و سیاسی مخالفین بھی اس وحشت و درندگی پر عوامی تحریک سے اظہار ہمدردی کے سوا کچھ کر سکتے ہیں نہ کہنے کے قابل۔ سیاسی ناقدین کو یہ کہنے کا برملا موقع فراہم کیا ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین سے ریاستی و سرکاری طاقت کے سوا نمٹنے کا ان حکمرانوں کو ہنر آتا ہے نہ موقع کی مناسبت سے کوئی دانشمندانہ حکمت عملی اختیار کرنے کا سلیقہ۔
جنرل پرویز مشرف کے ٹیک اوور کو روکنے کے لئے یہ ایئر پورٹ بند کرکے سمجھتے ہیں کہ خطرہ ٹل گیا ۔آٹھ افراد موت کے گھاٹ اتار کر طاہر القادری کو واپسی سے باز رکھنا چاہتے ہیں اور کسی گرینڈ الائنس، احتجاجی تحریک کا راستہ روکنے کے درپے عمران خان کے لئے حکومت نے خاصی مشکل پیدا کر دی ہے۔ اسے اب نیمے دروں، نیمے بروں پالیسی کو خیرباد کہنا پڑے گا۔
تازہ ترین