• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت محمد ﷺ کا اسلوبِ تدریس، اساتذہ کے لیے مینارہ نور

آج دُنیا میں اَن گنت تعلیمی نظریات، نصاب اور تدریسی طریقۂ کار رائج ہیں، لیکن اس تمام تر تنوّع کے باوجود اساتذہ کی اہمیت اور طلبہ کی کردارسازی میں اُن کی بنیادی حیثیت ناقابلِ تردید ہے۔ ایک معلّم کا کردار صرف کمرۂ جماعت تک محدود نہیں ہوتا، بلکہ وہ طلبہ کی کردار سازی کرتے ہوئے اُن کی زندگی کا رُخ بھی متعین کرتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اساتذہ کو ’’انسانی تہذیب کا معمار‘‘ کہا جاتا ہے اور اُن کی قابلِ قدر خدمات اُجاگر کرنے کے لیے ہی ہر سال 5 اکتوبر کو ’’عالمی یومِ اساتذہ‘‘ منایا جاتا ہے۔

نبیٔ آخرالزماں،رحمت اللعالمین، حضرت محمدﷺ نے زندگی کے دیگر پہلوئوں کی طرح تعلیم و تربیت کےمیدان میں بھی ہماری بہترین رہنمائی فرمائی۔ معلّمِ انسانیت ﷺ نے جہالت میں ڈُوبی دُنیا کو نورِعلم و آگہی سے منوّر کیا۔ نیز، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’مُجھے معلّم بنا کربھیجا گیا ہے۔‘‘ اِس ضمن میں قرآنِ کریم میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’بےشک، اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بڑا احسان فرمایاکہ اُن میں اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا، جو اُن پراللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے، ان کو پاکیزہ کرتا ہے اور کتاب وحکمت سکھاتا ہے، حالاں کہ وہ لوگ پہلےکُھلی گُم راہی میں تھے۔‘‘ (آلِ عمران 164:)

آپ ﷺ، صحابہؓ کو اولاد کی طرح سمجھاتے اور اُن کی تربیت فرماتے۔ اِس ضمن میں آپﷺ کا ارشادِ پاک ہے کہ ’’مَیں تمہارے لیے ایسا ہوں، جیسے والد اپنی اولاد کے لیے ہوتا ہے، مَیں تمہاری تربیت کرتا ہوں۔‘‘ (ابنِ ماجہ)۔ آپ ﷺ کا ہرعمل اور ہر قول ہی تعلیم و تربیت کا منبع تھا۔ حضرت عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ ’’آپ ﷺ کبھی کسی بھلائی کا حُکم نہ دیتے، جب تک کہ خُود اُس پرعمل نہ کرلیتے۔‘‘ 

حضرت صفوان بن عسالؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’علم حاصل کرنے والوں کو خوش آمدید، بےشک فرشتے طالبِ علم کو گھیر لیتے ہیں، اُس پراپنے پَروں سے سایہ کرتے ہیں اور محبّت کی وجہ سے اُس کے لیے آسمان تک ڈھیر ہوجاتے ہیں۔‘‘ آپ ﷺ کے زیرِ تربیت جماعتِ صحابہؓ دُنیا کی سب سے عظیم جماعت ثابت ہوئی، جس نے دِین و دُنیا کے ہر میدان میں بے مثال کام یابیاں حاصل کیں۔

نبیٔ اکرم ﷺ کے بہ طور معلّم کردار سے اساتذہ بےشمار اصول اخذ کرسکتے ہیں، جن میں خلوصِ نیّت، طلبہ سے شفقت اور اُن کی حوصلہ افزائی، سبق کو قابلِ فہم انداز میں پیش کرنا، سوال کرنے کی ترغیب دینا، نصیحت سے پہلے عملی مظاہرہ کرنا اور طلبہ کے دِلوں میں محبّت و اعتماد پیدا کرنا قابلِ ذکر ہیں اور اگر آج کے معلّمین ان اصولوں کو اپنالیں، تو ہمارے تعلیمی ادارے محض ڈگریز دینے کے مراکز نہیں رہیں گے، بلکہ کردار سازی، اخلاق پروری اور انسانیت نوازی کے گہوارے بن جائیں گے۔ نبیٔ کریم ﷺ کا بہ طور معلّم کردار تا قیامت انسانیت کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے اور آپ ﷺ کی تعلیمات کی بنیاد ہی پر ایک صالح، مہذّب اور خوش حال معاشرہ قائم کیا جاسکتا ہے۔

نبیٔ کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا جائزہ لیا جائے، تو یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ معلّم کا کردارصرف نصاب پڑھانے تک محدود نہیں، بلکہ وہ طلبہ کی تربیت اور کردار سازی بھی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں اساتذہ کو رول ماڈل سمجھا جاتا تھا، جس کی شخصیت طلبہ کے لیے ایمان داری، شجاعت، مہربانی اور نظم وضبط کی مثال ہوتی تھی، مگر بدقسمتی سے آج تعلیم کا مقصد محض ڈگری اور روزگار کا حصول بن کر رہ گیا ہے۔ 

بہ ظاہر تعلیمی ادارے ترقّی کررہے ہیں، داخلے بڑھ رہے ہیں اور ٹیکنالوجی نے تدریسی طریقے جدید بنا دیے ہیں، لیکن دوسری جانب اخلاقی و تہذیبی اقدار میں نمایاں گراوٹ آتی جا رہی ہے۔ معاشرے میں اسناد یافتہ نوجوانوں کی تعداد ضرور بڑھ رہی ہے، لیکن پُختہ کردار، تخلیقی ذہن اور معاشرتی ذمّےداریوں کا شعور رکھنے والے نوجوانوں کی تعداد میں کمی واقع ہورہی ہے۔ یہ تضاد اُس وقت مزید سنگین ہوجاتا ہے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جامعات اور کالجز کے بیش ترطلبہ ہم دردی اوردیانت داری جیسی اخلاقی صفات سے عاری ہیں۔ 

ایسے میں اساتذہ کو خود کو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنے قول و فعل میں مطابقت پیدا کرنی چاہیے۔ یاد رہے، ایک استاد جب اپنے عمل سے طلبہ کو راستہ دکھاتا ہے، تو تعلیم ایک ایسی طاقت میں بدل جاتی ہےکہ جو صرف علم ہی نہیں بلکہ حکمت، بصیرت اور اخلاقی قوّت بھی فراہم کرتی ہے۔ 

دُنیا آج ایک ایسے موڑ پر پہنچ چُکی ہے کہ جہاں سائنس، ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقّی نے انسان کی مادّی سہولتوں میں بے پناہ اضافہ دیا ہے، مگر اس کا باطنی خلا دن بہ دن گہرا ہوتا جا رہا ہے اور یہ خلا صرف وہی پُرکرسکتا ہے کہ جو تعلیم کو محض روزگار یا معیشت کا ذریعہ نہیں، بلکہ انسانی شرف و وقار کی بنیاد سمجھتا ہو اور وہ شخصیت ہے استاد۔ استاد وہ ہستی ہے کہ جو نسلِ نو کو صرف کتابی علم فراہم نہیں کرتی، بلکہ اُنہیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ علم کو کیسے شعور، کردار اور انسانیت کی خدمت کے لیے بروئے کار لایا جائے۔ یہی وہ نقطۂ عروج ہے، جس پر تعلیم صنعت نہیں، فنِ تعمیرِ انسانیت بن جاتی ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ دُنیا بَھر کے تعلیمی ماہرین، پالیسی ساز اور حکومتیں اساتذہ کے مقام کو رسمی تقاریر تک محدود نہ رکھیں بلکہ عملاً یہ تسلیم کریں کہ اقوام کے عروج و زوال کا راز استاد کے وقار، آزادی اور صلاحیتوں سے مشروط ہے اور اساتذۂ کرام بھی اپنے اندر وہی اوصاف پیدا کریں، جو نبی کریم ﷺ نے بہ طور معلّمِ انسانیت پیش کیے۔ 

یعنی خلوص، عدل، حلم، شفقت، صبر اورعملی کردار۔ اس کے ساتھ ہی استاد کی یہ ذمّے داری بھی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی کرے،ان میں تحقیق و جستجو کا ذوق پیدا کرے اور اُنہیں نصاب تک محدود رکھنے کی بہ جائے ترقّی کی راہ پر گام زن کرے۔ 

ایک حقیقی استاد وہ ہے، جو اپنے طلبہ کو محض علاقائی سطح تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اُن میں قومی و بین الاقوامی قیادت کی صلاحیتیں اجاگر کرتا ہے اور جب استاد اپنی ذات میں یہ اصول وضوابط سموکر طلبہ کو علم، کردار اور رہنمائی فراہم کرتا ہے، تو وہ نسلوں کے لیے نہ صرف معلّم بلکہ رہبراورحقیقی معمارِ مِلّت بن جاتا ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید