• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

18اکتوبر 2007… یہ دن پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ دن، جب کراچی کی سڑکوں پر سمندر کی طرح انسانوں کا ہجوم تھا۔ برسوں بعد کسی عظیم الشّان سیاسی استقبال کے لیے سجایا گیا روشنیوں کا شہر، خوشیوں اور اُمیدوں کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ ہر طرف جھنڈے، بینرز، نعروں کی گونج اور لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں تھیں۔ 

ان مسکراہٹوں میں ایک ہی خواب جھلکتا تھا…جمہوریت کی واپسی اور آمریت کے اندھیروں کے خلاف ایک نئی صبح کا آغاز۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دو دہائیوں کی جلاوطنی کے بعد اپنی دھرتی پر قدم رکھنے آ رہی تھیں۔ لوگ جانتے تھے کہ یہ صرف ایک سیاسی رہنما کی واپسی نہیں، بلکہ ایک خواب کی تعبیر ہے۔ وہ خواب، جو ذوالفقار علی بھٹو کے خون سے سینچا گیا اور قربانیوں سے پروان چڑھا۔ 

کراچی ایئرپورٹ سے کارساز تک کا سفر دراصل اُمید اور خوشی کا قافلہ تھا۔ لاکھوں لوگ اپنی محبوب قائد کے قافلے کو خوش آمدید کہنے کے لیے سڑکوں پر موجود تھے۔ عورتیں اپنے بچّوں کو اُٹھائے کھڑی تھیں، نوجوانوں کے ہاتھوں میں جھنڈے تھے، بزرگ آنکھوں میں آنسو لیے دُعائیں کر رہے تھے۔ مگر پھر وہ قیامت خیز لمحہ آیا، جس نے جشن کو ماتم میں بدل دیا۔

رات تقریباً گیارہ بجے کا وقت تھا۔ کارساز کے مقام پر اچانک ایک زوردار دھماکا ہوا۔ ابھی لوگ سنبھلے بھی نہ تھے کہ دوسرا دھماکا ہوا، پہلے سے بھی زیادہ خوف ناک۔ لمحوں میں منظر بدل گیا۔ خون، کٹے ہوئے اعضا، زخمیوں کی چیخیں، لاشوں کے انبار اور آنکھوں میں ایک ہی سوال’’یہ کیا ہو گیا؟‘‘ اس سانحے میں تقریباً180 افراد جاں بحق اور500 سے زائد زخمی ہوئے۔ 

 یقیناً یہ دہشت گردی کا ایک ایسا وار تھا، جس کا مقصد صرف ایک شخصیت کو نشانہ بنانا نہیں، بلکہ پوری قوم کی اُمیدیں کچل دینا تھا۔ دشمن جانتا تھا کہ اگر بے نظیر بھٹو عوام کے درمیان واپس آئیں گی، تو جمہوریت کو ایک نئی طاقت ملے گی۔ 

اسی طاقت کو کم زور کرنے کے لیے یہ خونی کھیل رچایا گیا، لیکن ان شہداء کی قربانی نے پیپلز پارٹی کو مزید مضبوط کیا۔ وہ خاندان بھی، جنہوں نے اپنے پیارے اس واقعے میں کھوئے، پارٹی کا حصّہ بن گئے۔ گویا خون کا ہر قطرہ ایک نئے عزم میں ڈھل گیا۔ بے نظیر بھٹو نے اگلے ہی دن شہداء کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی، زخمیوں کی عیادت کی، بچّوں کے سروں پر ہاتھ رکھا اور کہا۔’’یہ قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی، یہ خون پاکستان کو بچائے گا۔‘‘اُن کے یہ الفاظ آج بھی گونجتے ہیں۔

شہداء کی فیملیز اور پیپلز پارٹی کا وعدہ

سانحۂ کارساز کے زخم ہزاروں خاندانوں کی رگوں میں آج بھی تازہ ہیں۔ وہ عورتیں، جو اپنے شوہروں کے ساتھ بے نظیر بھٹّو کا استقبال کرنے آئی تھیں، اگلی صبح اپنے پیاروں کے جنازے اُٹھا رہی تھیں۔ کچھ خواتین ایسی بھی تھیں، جن کے شوہر مزدوری کرکے شام کو چند روپے لے کر گھر آتے اور اسی سے بچّوں کا پیٹ پالتے تھے۔ ایک ماں نے کہا تھا’’مَیں اپنے بیٹے کو اس خوشی کے جلوس میں بھیج رہی تھی، یہ سوچ کر کہ وہ بی بی کا استقبال کرے گا، مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرا بیٹا وطن کے لیے اپنی جان قربان کر دے گا۔‘‘

یہ وہ درد ہے، جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کارساز کے شہداء میں کئی ایسے بھی تھے، جن کے بچّے ابھی چھوٹے تھے۔ کچھ بمشکل اسکول جا رہے تھے، کچھ گود میں تھے۔ ان ننّھی مُنّی آنکھوں نے ایک دن میں سب کچھ کھو دیا۔ باپ کی مسکراہٹ، گھنیرا سایہ اور مستقبل کی وہ اُمید، جس پر زندگی کھڑی ہوتی ہے۔ ان یتیم بچّوں کی آنکھوں میں آج بھی سوال ہے کہ ان کے والد کیوں مارے گئے؟ وہ تو صرف اپنی محبوب رہنما کے استقبال کے لیے گئے تھے۔ اُس رات کئی ایسے لوگ بھی جاں بحق ہوئے، جو پیپلز پارٹی کے کارکن نہیں تھے۔ وہ محض راہ گیر تھے۔ 

کوئی اپنی دُکان بند کر کے گھر جا رہا تھا، کوئی کسی بیمار کی دوا لینے نکلا تھا، کوئی رکشہ چلا رہا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے، جنہوں نے سیاسی وابستگی کے بغیر اپنی جان دی، مگر سانحے کے بعد ان کی فیملیز نے خود کو پیپلز پارٹی کا حصّہ سمجھا، کیوں کہ وہ جان گئے کہ یہ قربانی صرف ایک پارٹی کے لیے نہیں، بلکہ ایک بڑی جمہوری جنگ کا حصّہ تھی۔

اِس واقعے کے بعد بے نظیر بھٹو نے جو طرزِ عمل اختیار کیا، وہ اُن کی قیادت کی عظمت کا ثبوت تھا۔ وہ اگلے ہی دن زخمیوں کی عیادت کے لیے اسپتال پہنچیں، شہداء کے گھروں پر گئیں، بچّوں کے سَروں پر ہاتھ رکھا اور بیواؤں کو تسلّی دی۔ اُن کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے، مگر ساتھ ہی ایک مضبوط عزم تھا۔اُنہوں نے کہا۔’’یہ قربانیاں پاکستان کے مستقبل کی ضمانت ہیں۔ یہ شہداء، جمہوریت کی شمع ہیں۔ ان کا خون ہمیں طاقت دے گا۔‘‘

یہ الفاظ صرف تسلّی نہیں تھے، بلکہ ایک عہد تھا کہ پیپلز پارٹی اپنے شہداء کو کبھی نہیں بھولے گی۔ پیپلز پارٹی نے اس سانحے کے بعد بار بار اِس عزم کا اظہار کیا کہ شہداء کی فیملیز کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ صوبائی سطح پر مالی امداد، تعلیم اور علاج معالجے کی سہولتوں کے وعدے کیے گئے۔ کئی شہداء کے بچّوں کو اسکالرشپس دی گئیں، کچھ فیملیز کو سرکاری ملازمتیں دی گئیں اور ان کے گھروں تک مالی معاونت پہنچائی گئی۔ 

اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ ہر خاندان کو مکمل انصاف یا سہولتیں نہیں مل سکیں، لیکن پارٹی نے مجموعی طور پر تسلیم کیا کہ یہ لوگ صرف کارکن نہیں، بلکہ ’’قومی شہداء‘‘ ہیں۔ اِس ضمن میں پیپلز پارٹی نے سالانہ تقریبات کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر سال 18اکتوبر کو قرآن خوانی، فاتحہ اور شہداء کی قبروں پر حاضری دی جاتی ہے۔ 

جلسوں میں اُن کے نام لیے جاتے ہیں، ان کی قربانیاں عوام کے سامنے پیش کی جاتی ہیں تاکہ نئی نسل جان سکے کہ جمہوریت کا راستہ کتنی قربانیوں سے ہم وار ہوا۔ بہت سے خاندان، جو پہلے پیپلز پارٹی سے وابستہ نہیں تھے، اس واقعے کے بعد پارٹی کے قریب آ گئے۔ یہ ایک ایسی وابستگی تھی، جو خون کے رشتے سے بنی تھی اور اس رشتے کو کوئی کم زور نہیں کر سکتا۔

انصاف کی جستجو

سانحۂ کارساز نہ صرف ایک انسانی المیہ تھا بلکہ ایک ایسا سوال بھی تھا، جو آج تک جواب طلب ہے’’آخر یہ سب کس نے کیا؟؟‘‘حادثے کے فوراً بعد تحقیقات شروع کرنے کا اعلان ہوا۔ پولیس، ایف آئی اے اور دیگر ادارے حرکت میں آئے۔ شواہد جمع کرنے کی بات ہوئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ شواہد فوری طور پر ضائع کر دیئے گئے۔ جائے حادثہ صاف کر دی گئی، لاشوں اور زخمیوں کے ساتھ زمین پر پڑے نشان، بم کے ٹکڑے اور اہم ثبوت ختم کر دیئے گئے۔ اگر ریاست واقعی سنجیدہ ہوتی، تو جائے وقوع سیل کی جاتی، ایک ایک کرکے تمام شواہد محفوظ کیے جاتے، مگر ایسا نہ ہوا۔ 

تحقیقات کے دَوران کئی پہلو سامنے آئے۔ کچھ لوگوں نے الزام لگایا کہ یہ حملہ دہشت گرد تنظیموں نے کیا۔ کچھ کا کہنا تھا کہ اس میں مُلکی اداروں کی غفلت یا شمولیت بھی شامل تھی۔ یہاں تک کہ خود محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے خطوط میں کہا تھا کہ اُن کی جان کو خطرات لاحق ہیں اور یہ خدشات نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ ان شکوک نے زخم مزید گہرے کر دیئے، کیوں کہ جب انصاف کا راستہ دھندلا ہو جائے، تو غم گین خاندانوں کے لیے درد دُگنا ہو جاتا ہے۔ 

شہداء کے خاندان آج بھی انصاف کے طلب گار ہیں۔ سال ہا سال گزر گئے، مگر اصل مجرم سامنے نہ آسکے۔ کبھی ایک رپورٹ آئی، کبھی دوسری، کبھی نیا کمیشن بنا، مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر شہداء کے ورثا کہتے ہیں کہ ہمیں مالی امداد چاہیے، سہولتیں بھی چاہئیں، لیکن سب سے بڑھ کر انصاف چاہیے۔

پیپلز پارٹی نے متعدّد بار اس سانحے کی شفّاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ عدالتوں میں درخواستیں دائر ہوئیں۔ وقتاً فوقتاً مقدمات کُھلتے اور بند ہوتے رہے، مگر کوئی بھی فیصلہ شہداء کے لواحقین کے زخموں پر مرہم نہ رکھ سکا۔یہی وہ خلا ہے، جو آج بھی کارساز کے شہداء کی یاد میں ایک کڑواہٹ پیدا کرتا ہے۔

پیپلز پارٹی نے یہ یقینی بنایا کہ شہداء کی قربانی کبھی فراموش نہ کی جائے اور اِس مقصد کے لیے کارساز کے مقام پر شہداء کی یادگار قائم کی گئی۔ ہر سال وہاں قرآن خوانی اور فاتحہ کا سلسلہ ہوتا ہے۔ پارٹی کے رہنما، کارکنان اور عوام وہاں جمع ہو کر یہ پیغام دیتے ہیں کہ یہ قربانی ہماری رگوں میں ہے۔یہ یادگار صرف ایک علامتی مقام نہیں، بلکہ تاریخ کا ایک زندہ نشان ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جمہوریت کا راستہ آسان نہیں۔

سانحۂ کارساز پیپلز پارٹی کے لیے ایک کڑا امتحان تھا۔ اس کے باوجود کارکنان نے حوصلہ نہیں ہارا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے انتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی کو کامیابی دلائی۔ نیز،یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس سانحے کے بعد خواتین نے غیر معمولی کردار ادا کیا۔ شہداء کی بیوائیں، مائیں اور بہنیں صرف صبر ہی کا پیکر نہیں بنیں، بلکہ سیاسی تحریک کا بھی حصّہ بنیں۔ 

کئی بیواؤں نے کہا۔’’ہمارے شوہر چلے گئے ہیں، مگر ہم اُن کا مشن جاری رکھیں گے۔‘‘ آج شہداء کے بچّے جوان ہو چُکے ہیں، کچھ تعلیم مکمل کر کے عملی زندگی میں داخل ہوگئے ہیں، مگر ہر موقعے پر، چاہے شادی ہو یا کوئی غمی، پیپلز پارٹی نے ان خاندانوں کو ہمیشہ یاد رکھا۔ مالی امداد، روزگار کے مواقع اور سیاسی و سماجی سطح پر ان کی عزت افزائی کی گئی۔ یہ رویّہ اِس بات کا اعلان ہے کہ پارٹی اپنے کارکنان کو محض سیاسی ورکر نہیں، بلکہ اپنے خاندان کا حصّہ سمجھتی ہے۔

سانحۂ کارساز صرف پیپلز پارٹی یا کراچی تک محدود نہیں تھا، یہ پورے پاکستان کی جمہوری جدوجہد کا حصّہ ہے۔ اگر یہ قربانیاں نہ ہوتیں، تو آج پاکستان میں جمہوریت کا سفر کہیں زیادہ مشکل ہوتا۔ یہ سانحہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جمہوریت کے دشمن صرف باہر سے نہیں، اندر سے بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کا مقصد عوام کی آواز کو دبانا، سیاست کو مفلوج کرنا اور عوامی قیادت کو ختم کرنا تھا، مگر یہ مقصد ناکام ہوا۔ 

سانحۂ کارساز کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ قربانی کے بغیر منزل نہیں ملتی۔ اگر ہم پاکستان کو ایک جمہوری، خوش حال اور پُرامن مُلک بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں ان شہداء کی طرح حوصلہ دِکھانا ہوگا۔ یہ قربانی ہمیں یہ بھی سِکھاتی ہے کہ عورت ہو یا مرد، نوجوان ہوں یا بزرگ، سب کا کردار اہم ہے۔ قومیں تب ہی کام یاب ہوتی ہیں، جب لوگ اپنی ذاتی خواہشات سے بڑھ کر اجتماعی بھلائی کے لیے سوچتے ہیں۔ 

نئی نسل کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کارساز واقعہ صرف ایک سانحہ نہیں، بلکہ ایک عہد ہے، جو ہمیں یاد دِلاتا ہے کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا پاکستان بنانا ہے، جہاں کسی شہری کو جمہوریت کے سفر کی قیمت اپنی جان سے نہ دینی پڑے۔ کارساز کے شہداء کی قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 

یہ خون پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ آج جب ہم کارساز کے شہداء کو یاد کرتے ہیں، تو یہ عہد بھی کرتے ہیں کہ ان کا مشن جاری رکھیں گے۔ پاکستان کو اُس مقام تک لے کر جائیں گے، جہاں جمہوریت اور عوامی حُکم رانی مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو۔ (مضمون نگار، حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید