اُن کے ایک ہاتھ میں خون آلود شمشیرِ برہنہ اور دوسرے میں خاک و خون میں لتھڑا، کٹا ہوا سر تھا، جسے لیے خیمۂ رسالتؐ میں داخل ہوئے اور وہ مکروہ سر، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے قدموں میں رکھتے ہوئے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہﷺ! یہ رہا اللہ اور اُس کے نبی ؐ کے دشمن، ابوجہل کا سر۔‘‘ یہ تھے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ۔
آنحضرتؐ نے خاک آلود سر کی جانب ایک نظر ڈالی اور فرمایا۔ ’’یہ اِس اُمت کا فرعون تھا۔‘‘ پھر صحابہؓ کی جانب متلاشی نظروں سے دیکھتے ہوئے فرمایا۔ ’’عمّارؓ کہاں ہیں؟ اُنھیں بلاؤ۔‘‘ حضرت عمّارؓ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے تو اللہ کے نبیؐ نے فرمایا۔ ’’اے عمّار! یہ ہے تمہاری ماں سمیّہؓ کا قاتل، جسے اللہ نے رسوائی کی موت دی۔‘‘ حضرت عمّارؓ نے ابوجہل کے بدنُما چہرے کی جانب دیکھا، تو ماں کی شہادت سمیت مظلومیت و بے بسی اور جبر وقہر کے ہول ناک مناظر ذہن کے پردے پر نمودار ہونا شروع ہوگئے، ماں کا خون میں تڑپتا لاشہ، باپ کی دردناک شہادت، بھائی کے پیار سے محرومی۔ اپنے جسم کے ہر حصّے پر ظلم وستم کی الَم ناک داستان۔
اپنے چھوٹے سے خُوب صُورت آشیانے کی تباہی و بربادی اور پھر ابوجہل کے تحقیر و نفرت سے بھرے قہقہے۔ حضرت عمّارؓ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ ’’اے عمّار! اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہارے اور امّتِ مسلمہ کے بدترین دشمن کو دو بچّوں کے ہاتھوں ذلّت آمیز موت سے ہم کنار کرکے جہنّم رسید کیا اور ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشان بنادیا۔
حضرت عمّار بن یاسرؓ کا نسب اور کنیت: عمّار بن یاسر بن عامر بن مالک بن کنانہ بن قیس آپ کا نام، جب کہ کنیت ابو یقظان تھی۔ قحطانی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، اُن کے والد، یاسر بن عامرؓ اور والدہ سمیہؓ تھیں۔ والد، یمن کے قبیلے عبس کے رہنے والے تھے۔ ملکۂ سبا کے دارالحکومت مآرب کی تباہی کے بعد وہاں کے حالات خراب ہوئے تو حضرت یاسرؓکے ایک جواں سال بھائی خاموشی سے گھر چھوڑ کر کہیں چلے گئے۔ والدین کے اصرار پر حضرت یاسرؓ اپنے دو بھائیوں، حارث اور مالک کے ساتھ بھائی کی کھوج میں مکّہ مکرّمہ جاپہنچے۔
کافی تلاش کے بعد بھی جب وہاں بھائی کا کوئی سراغ نہ ملا، تو اُن کے ساتھ آنے والے دونوں بھائی مایوس ہوکر واپس یمن چلے گئے۔ لیکن حضرت یاسرؓکو مکّے کی سرزمین نے اپنا اسیر کرلیا۔ یہاں اُن کی ملاقات ابوجہل کے چچا، مہشم بن مغیرہ مخزومی سے ہوگئی۔ مہشم کی کنیت، ابو حذیفہ تھی۔
ابوحذیفہ نے انہیں اپنے پاس رکھ لیا۔ اور اپنی ایک باندی سمیہؓ بنتِ خباط سے یاسرؓ کی شادی کردی۔ 571ء میں حضرت یاسرؓ کے گھر حضرت عمّارؓ کی پیدائش ہوئی۔ اسی سال اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی تھی۔
ابو حذیفہ نے عمّارؓ کی پیدائش کے بعد اس خاندان کو آزاد کردیا تھا، لیکن یہ خاندان آخر تک ابو حذیفہ کے ساتھ ہی مقیم رہا۔ ابو حذیفہ کے انتقال کے بعد قبیلہ بنو مخزوم کی سربراہی عمرو بن ہشام، المعروف ابوجہل کے پاس آگئی۔ یہ اپنے چچا ابو حذیفہ کےبالکل برعکس، نہایت ظالم و جابر شخص تھا۔ اس نے یاسرؓ کے پورے خاندان کو دوبارہ اپنی غلامی میں لے لیا، حالاں کہ ابو حذیفہ انہیں بہت پہلے آزاد کرچکا تھا۔
قبولِ اسلام میں سبقت: یہ وہ وقت تھا کہ جب اللہ کے رسولﷺ نے اپنی بعثت کا اعلان فرمایا۔ آپؐ کے قریبی ساتھی مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے، جن میں حضرت بلال حبشیؓ بھی شامل تھے۔ حضرت بلالؓ کے حضرت عمّارؓ کے خاندان سے قریبی تعلقات تھے۔ حضرت بلالؓ نے حضرت عمّارؓ کو اسلام سے روشناس کروایا اور آنحضرت ؐ سے ملاقات کے لیے دارِ ارقم لے گئے۔
محمد بن عمّار بن یاسرؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عمّار بن یاسرؓ نے کہا کہ ’’میری اور صہیب بن سنانؓ کی ملاقات دارِ ارقم کے دروازے پر ہوئی اور ہم نے ایک ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔‘‘ حضرت ہمام سے روایت ہےکہ ’’مَیں نے حضرت عمّارؓ سے سنا تھا کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو اُس وقت دیکھا، جب کہ آپؐ کے ساتھ پانچ غلاموں، دوخواتین اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔‘‘(صحیح بخاری، حدیث نمبر3660) ۔
دشتِ ظلمان میں غضب کی تمازت: ابو جہل کو جب حضرت عمّار بن یاسرؓ اور اُن کے اہلِ خانہ کے قبولِ اسلام کا عِلم ہوا، تو وہ غصّے سے پاگل ہوگیا۔ ابوجہل اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی دشمنی میں تمام حدود پار کرچکا تھا، اسے کس طرح گوارا تھا کہ اس کا غلام خاندان اسلام قبول کرلے، دوسری طرف حضرت عمّار بن یاسرؓ اور اُن کا خاندان اُن لوگوں میں سے تھے، جن کا مکّہ میں کوئی یارومددگار نہ تھا اور نہ ہی قبیلے کے لوگ تھے، جوابو جہل کا ہاتھ روک سکیں۔ اس کے علاوہ مسلمان بھی بہت قلیل تعداد میں تھے۔
چناں چہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ابوجہل کی درندگی اور غضب کی تمازت بڑھتی جارہی تھی۔ تقریباً روزانہ عین دوپہر کے وقت، جب سورج کی تپش عروج پر ہوتی، ضعیف اور بوڑھے والدین سمیت ان کے پورے خاندان کو مکّے کی تپتی ریت پر بچھے سرخ دہکتے انگاروں پر لیٹنے پر مجبور کیا جاتا۔ لوہے کی بھاری بھرکم زِرہ پہناکر اور کبھی گلے میں بھاری طوق ڈال کر قریش کے آوارہ لڑکوں کے حوالے کردیا جاتا، جو ان پر بے پناہ تشدد کرتے۔ والدین کے سامنے بچّوں اور بچّوں کے سامنے ماں باپ پر تشدد کے پہاڑ توڑے جاتے۔
دُور بیٹھا ابوجہل اس جذباتی کیفیت کو دیکھ کر قہقہے بلند کرتا اور مغلّظات کے ساتھ کفریہ جملے بکتا، لیکن آفرین ہے، اسلام کے اُن جاں نثاروں پر کہ جن کے پائے استقلال میں کوئی جنبش نہ آتی۔ اللہ کے رسولﷺ اس مظلوم اور بے آسرا خاندان پر کیے جانے والے بے پناہ مظالم دیکھتے، تو دُعا فرماتے۔ ’’اے آلِ یاسرؓ! صبر کرو، تمہارے لیے جنّت کا وعدہ ہے۔‘‘ (مستدرک حاکم 5646) ۔محمد بن کعب قرظی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمّار بن یاسرؓ کی زخمی پیٹھ دیکھی، تو پوچھا۔ ’’یہ کیسے نشانات ہیں؟‘‘
ارشاد فرمایا۔’’کفارِ قریش مجھے مکّے کی تپتی ہوئی پتھریلی زمین پر پیٹھ کے بَل لٹاتے اور سخت اذیتیں اور تکالیف پہنچاتے تھے، یہ اُن زخموں کے نشانات ہیں۔‘‘حضرت عثمانؓ بن عفّانؓ فرماتے ہیں کہ’’ ایک مرتبہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ آرہا تھا، میرا ہاتھ آپؐ کے ہاتھ میں تھا۔ ہم سنگریزے والی زمین پر چل رہے تھے۔ یہاں تک کہ ہم عمّارؓ اور ان کی والدہ کے پاس پہنچے، انھیں سخت ترین اذیّت دی جارہی تھی، آپؐ نے ان کیے لیے دعا فرمائی۔ ’’اے آلِ عمّارؓ! تمہارے لیے خوش خبری ہے۔ تمہارے وعدے کی جگہ جنّت ہے۔‘‘ حضرت یاسرؓ نے فرمایا۔ ’’اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہم یوں ہی تکلیف میں رہیں گے؟‘‘
آپ ؐ نے جواب دیا کہ ’’صبر کرو۔‘‘ اور پھر دُعا فرمائی۔ ’’اے اللہ! آلِ یاسرؓ کی مغفرت فرما۔ میں بھی اب صبر کررہا ہوں۔‘‘ (مسندِ احمد 439)۔ حضرت عمروبن میمون سے مروی ہے کہ مشرکینِ مکّہ عمّار بن یاسرؓ کو آگ پر جُھلساتے تھے۔ رسول اللہﷺ کا جب وہاں سے گزر ہوتا، تو اُن کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دُعا فرماتے۔ ’’اے آگ! عمّار پر ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی والی بن جا، جیسے کہ ابراہیم علیہ السلام کے لیے بنی تھی۔‘‘ (طبقاتِ ابنِ سعد، حصّہ سوم صفحہ، 81)۔ایک موقعے پر آنحضرتؐ نے فرمایا کہ ’’جنّت عمّارؓ کی مشتاق ہے۔‘‘
اُمِّ عمّارؓ، اسلام کی پہلی شہید: حضرت عمّارؓ بن یاسر کے بوڑھے والدین بنو مغیرہ کے طاقت وَر سردار اور اپنے وقت کےفرعون، ابوجہل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند مضبوطی سے کھڑے تھے۔ آخر ایک دوپہر اپنے وقت کا جلّاد ابوجہل تیز دھار نیزہ ہاتھ میں لیے، زخموں سے نڈھال اُمِّ عمّارؓ کے پاس جاپہنچا اور اور گرجتے ہوئے بولا۔ ’’اے بوڑھی کنیز! آج تجھے فیصلہ کرنا ہے کہ تُو محمدؐ کے دین کو چھوڑتی ہے یا موت کو گلے لگاتی ہے۔‘‘ صبر و استقامت کی پیکر، جلیل القدر صحابیہؓ نے اپنی بوڑھی بوجھل پلکیں اوپر اٹھائیں تو اُن کی پُرنور آنکھوں سے نکلنے والی ایمان افروز کرنوں نے ابوجہل کو ہلاکر رکھ دیا۔
وہ مضبوط و توانا لہجے میں گویا ہوئیں۔ ’’اے عمرو بن ہشام! اس وقت مکّے میں تیرا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، لیکن یاد رکھ، بہت جلد وہ دن آنے والا ہے کہ جب تُو بے یارو مددگار جہنّم کی آگ کا ایندھن بن چکا ہوگا۔‘‘ حضرت سمیّہؓ کے ان الفاظ نے ابوجہل کو آگ بگولا کردیا۔ اور پھر اس کا نیزہ ضعیف العمر صحابیہؓ کے جسم کے آر پار ہوگیا۔ یہ تھیں اسلام کی پہلی شہیدہ۔ ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ اس بدبخت نے حضرت عمّارؓکے والد حضرت یاسرؓ کو بھی شہید کردیا۔ والدین کی شہادت کے بعد حضرت عمّارؓ حضورؐ کی خدمت میں پہنچے اور انتقام کی اجازت چاہی، لیکن رحمۃ لّلعالمینؐ نے انہیں صبر کی تلقین فرمائی۔
حضرت عمّار بن یاسرؓ کے فضائل و مناقب: محمد بن عمّار بن یاسرؓ، حضرت عبید ابنِ عمیر ؓ اور حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ جب حضرت عمّار بن یاسرؓ کو اللہ کی راہ میں ستایا گیا، تو ان کی شان میں اللہ کے نبیؐ پر قرآنی آیات کا نزول ہوا۔ محدّثین فرماتے ہیں کہ حضرت عمّار بن یاسرؓ نے ملکِ حبشہ کی جانب ہجرتِ ثانیہ کی تھی۔ حضرت عمر بن عثمانؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمّار بن یاسرؓ نے مکّے سے مدینے کی جانب ہجرت کی، تو حضرت مبشّر بن عبدالمنذرؓ کے گھر قیام فرمایا، رسول اللہﷺ نے حضرت عمّار بن یاسرؓ اور حذیفہ بن الیمانؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا۔
حضرت عبداللہ بن عتبہؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمّار بن یاسرؓ نے تمام غزوات میں شرکت فرمائی اور رسول اللہﷺ کے ہم رکاب رہے۔ جنگِ یمامہ میں ایک موقعے پر مجاہدین افراتفری کا شکار ہوئے، تو آپؓ ایک چٹان پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے کہا۔ ’’اے مجاہدینِ اسلام! جنّت تو امن والی جگہ ہے، بھاگتے کہاں ہو؟ میری طرف آؤ! میں عمّار بن یاسر ہوں۔‘‘ اس دوران ایک کافر نے آپؓ پر حملہ کردیا،جس سے آپؓ کا ایک کان کٹ کر زمین پر گرگیا اور اس جگہ سے خون بہنے لگا، لیکن اس کے باوجود آپؓ قتال میں پورے جوش و جذبے سے مصروفِ عمل رہے۔
بنی تمیم کے ایک شخص نے حضرت عمّارؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ’’اے اجدع‘‘ (کان کٹے ہوئے) تو حضرت عمّار بن یاسرؓ نے اسے جواب دیا کہ ’’تُونے میرے بہترین کانوں کو بُرا کہا ہے، حالاں کہ یہ کان تو جہاد کے دوران شہید ہوا ہے۔‘‘ قاسم بن عبدالرحمٰن سے مروی ہے کہ ’’سب سے پہلے جس شخص نے مسجد تعمیر کی تاکہ اس میں نماز ادا کرسکیں، وہ عمّار بن یاسرؓ ہیں۔‘‘ (طبقاتِ ابنِ سعد، جِلد سوم، صفحہ 80،82)
جنّات اور انسانوں سے قتال کرنا: حضرت عمّار بن یاسرؓ سے مروی ہے کہ ’’مَیں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ مل کر انسانوں اور جِنوں سے قتال کیا ہے۔‘‘ سوال کیا گیا کہ ’’یہ کس طرح ممکن ہوا؟‘‘ فرمایا۔ ’’ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک مقام پر قیام فرمایا۔ مَیں اپنے پانی کے برتن اور ڈول لے کر پانی بھرنے نکلا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ ’’ایک شخص تمہارے پاس آکر تمہیں پانی بھرنے سے روکے گا۔‘‘ جب مَیں کنویں پر پہنچا، تو وہاں ایک سیاہ رنگت کا طاقت وَر بھوت نُما شخص موجود تھا۔ اس نے کہا کہ آج میں تجھے ایک ڈول پانی بھی نہیں لینے دوں گا۔
مَیں نے اُسے پکڑ لیا۔ اس نے مجھے قابو کرنا چاہا، لیکن مَیں نے اُسے پچھاڑ دیا اور ایک پتّھر لے کر اُس کا چہرہ اور ناک کچل ڈالا۔ پھر مَیں نے اپنا مشکیزہ لیا اور پانی سے بھر کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ آپؐنےفرمایا۔ ’’کنویں پر تمہارے پاس کوئی آیا تھا؟‘‘ میں نے کہا۔ ’’ایک سیاہ رنگ کا غلام تھا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’تم نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟‘‘ مَیں نے سارا قصّہ سنادیا۔ پھر آپؐ نے پوچھا۔ ’’تم جانتے ہو وہ کون شخص تھا؟ وہ شیطان (جِن) تھا،تمہیں پانی سے روکنے کے لیے آیا تھا۔‘‘ (طبقات ابن سعد 3/82) ۔
کوفے کے گورنر: عبداللہ بن ابی ہزیلؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن مَیں نے حضرت عمّار بن یاسرؓ کو ایک درہم کے بدلے راشن خریدتے ہوئے دیکھا، پھر انہوں نے راشن کا تھیلا کمر پر الادا اور چل دیے۔ حالاں کہ سیّدنا عمر فاروقؓ نے آپؓ کو کوفے کا گورنر مقرر فرمایا تھا اور وہ اس وقت کوفے کے امیر تھے۔ حضرت عمّار بن یاسرؓ بہت کم بات کرتے، عموماً خاموش رہتے تھے آپ فتنہ و فساد پسند نہیں فرماتے تھے۔ ابو سعید خدریؓ کا بیان ہے کہ عمّارؓ کہتے تھے کہ مَیں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ (صحیح بخاری 447) ۔
رسول اللہﷺ سے بے پناہ عقیدت ومحبت: مسجدِ نبوی ؐ کی تعمیر کے وقت رسول اللہؐ نے مسجد کے قریب ہی کچھ اینٹیں تیار کروائیں، وہ اتنی وزنی تھیں کہ مشکل سے ایک آدمی ایک اینٹ اٹھا سکتا تھا۔ رسول اللہﷺ بھی اُنہیں اٹھارہے تھے۔ صحابہؓ نے عرض کیا۔ ’’آپؐ زحمت نہ فرمائیں، یہ کام کرنے کے لیے ہم کافی ہیں۔ حضرت عمّار بن یاسرؓ دبلے پتلے دراز قد تھے، وہ دو دو اینٹیں اٹھا کر لارہے تھے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا۔ ’’تم دو دو اینٹیں کیوں اُٹھارہے ہو؟‘‘ جواب دیا۔ ’’ایک اپنے حصّے کی اور دوسری آپ ؐ کے حصّے کی لارہاہوں۔‘‘(فتح الباری 1/702)۔
جنگِ صفین میں شہادت: حضرت عبداللہ بن سلمہ سے مروی ہے کہ ’’مَیں نے حضرت عمّار بن یاسرؓ کو صفین کے دن دیکھا۔ آپؓ ضعیف العمر، دراز قد تھے، آپؓ کا رنگ گندمی تھا، لیکن اس عمر میں بھی آپ نہایت چاق چوبند تھے۔ ابو البختری سے مروی ہے کہ جنگِ صفین کے دن حضرت عمّار بن یاسرؓ کے پاس دودھ لایا گیا۔ آپؓ مسکرائے اور فرمایا۔ ’’رسول اللہؐ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ دنیا میں تم جو آخری چیز پیوگے، وہ دودھ ہوگا اور پھر دنیا سے رخصت ہوجاؤگے۔
آپ نے دودھ نوش فرمایا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے۔ ابنِ عون سے مروی ہے کہ حضرت عمّارؓ کی شہادت کے وقت عمر91برس تھی۔ محمد بن عمر فرماتے ہیں کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت عمّار بن یاسرؓ نے جنگِ صفین کے موقعے پر ماہ صفر37ہجری میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ حضرت عمّار بن یاسر ؓ امیر المؤمنین سیّدنا علی مرتضیٰ ؓ سے شدید محبّت فرماتے تھے۔ سیّدنا علی مرتضیٰؓ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ (طبقاتِ ابنِ سعد 3/91)۔
حلیہ مبارک: امّ الحکم بنتِ عمّارؓ سے روایت ہے کہ اُنھوں نےحضرت عمّارؓ کی صفات بیان کیں، تو فرمایا کہ ’’آپؓ ایک دراز قد پُھرتیلے اور گندمی رنگت کے تھے۔ آنکھوں کی پُتلی سرخی مائل تھی۔ دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ آپ کا حلیہ ضعیف العمری کے باوجود زیادہ تبدیل نہیں ہوا تھا۔ (طبقاتِ ابنِ سعد 3/91)۔