جزیرۃ العرب کے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان شہر مکّہ کی فضاؤں میں اُداسی کے بادل سایہ فگن تھے۔ تین سالہ انتہائی کٹھن اور صبر آزما محاصرہ تو اللہ کے نبیﷺ اور اُن کے رفقاء کے عزمِ پیہم اور عزیمت و استقامت کو متزلزل نہ کرسکا، لیکن چند ماہ کے دوران ہی رسول اللہﷺ کی دو عزیز ترین ہستیاں یکے بعد دیگرے آپؐ سے جدا ہوگئیں۔
چچا ابو طالب کہ جن کا رُعب و دبدبہ اور للکار قریشِ مکّہ کو اُن کی اوقات میں رکھنے کے لیے کافی تھی اور دوسری مُونس و غم گسار اہلیہ، حضرت خدیجۃ الکبریٰ کہ جن کی محبّت و شفقت کے چند بول ہی حوصلوں اور ولولوں کو نئی توانائی و تازگی بخش دیتے۔
اب گھر سے باہر قریشِ مکّہ بھی آپے سے باہر تھے، تو گھر کے اندر معصوم بچّیوں کے مُرجھائے چہرے اور گھر کے کونوں کھدروں میں ماں کو ڈھونڈتی پُرنم اُداس نگاہیں کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ جاتیں۔ ماں کی آغوش میں سر رکھ کر سونے والی فاطمۃ الزہرہ تو ابھی صرف پانچ سال ہی کی تھیں۔
رسول اللہﷺ گھر تشریف لاتے، تو بچّیاں باپ سے لپٹ جاتیں۔ اللہ کے رسولﷺ بھی بچّیوں کو تسلّی دیتے ہوئے آب دیدہ ہوجاتے۔ یہ دن اللہ کے نبیؐ کی زندگی کے کٹھن ترین دن تھے۔ آپؐ کے جاں نثار صحابہؓ بھی آپؐ کی اُداسی و پریشانی دیکھ کر غم گین و فکرمند رہتے۔
حضرت عثمان بن مظعونؓ، رسول اللہؐ کے جاں نثار
رسول اللہ ﷺکے جاں نثار رفقاء میں ایک عثمان بن مظعونؓ بھی تھے، جو آپؐ سے بے حد پیار کرتے۔ انہوں نے آنحضرتﷺ کی پریشانی کا تذکرہ اپنی اہلیہ خولہ بنتِ حکیمؓ سے کیا۔ خولہؓ بھی صحابیہ تھیں، عرض کیا۔ ’’رسول اللہﷺ کی پریشانی کا صرف ایک ہی حل ہے، وہ یہ کہ وہ کسی سمجھ دار خاتون سے نکاح کرلیں۔‘‘ حضرت خولہ عموماً بچّیوں سے ملنے آپؐ کے گھر جایا کرتی تھیں، اُس دن بھی ایسا ہی ہوا۔
حضرت خولہ گھر میں داخل ہوئیں، تو گھر کی مغموم فضا نے دل کی بات زبان پر لانے پر مجبور کردیا اور آنحضرتﷺ کی خدمتِ اقدس میں قریش کی ایک بُردبار، سنجیدہ اور بیوہ خاتون، سودہ بنت زمعہ ؓسے نکاح کی درخواست اور تجویز پیش کی۔ اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ بنتِ ابوبکر صدیقؓ سے نکاح کی تجویز بھی حضرت عثمان بن مظعونؓ کی اہلیہ حضرت خولہؓ ہی نے دی تھی۔
حسب نسب، قبول اسلام
حضرت عثمانؓ کا نسب عثمان بن مظعون بن حبیب بن وہب بن حذافہ بن جمع ہے، جب کہ کنیت ابو سائب تھی۔ اہلیہ خولہؓ بنتِ حکیم بن حارثہ بن الاوقص السمیہ تھیں، اُن سے دوبیٹے عبدالرحمٰن اور سائب تھے۔ یہ ’’سابقون الاوّلون‘‘ میں سے تھے۔ آپؓ سے پہلے 13افراد اسلام قبول کرچکے تھے۔ آپ ؓفطرتاً سلیم الطّبع، نیک نفس، پاک باز اور حسّاس طبیعت کے مالک تھے۔ عرب کے عہدِ جاہلیت کے جوانوں کی بگڑی اور واہیات عادات و مشاغل سےخود کو دور رکھتے۔ قبولِ اسلام سے پہلے بھی شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا، اسے اپنے لیے حرام سمجھتے تھے۔
انہوں نے اس بات کا عہد کر رکھا تھا کہ ایسی کوئی شے کبھی بھی استعمال نہ کروں گا، جس سے عقل میں فتور آجائے اور ہوش و حواس زائل ہوجائیں۔ نہایت امیرکبیر خاندان سے تعلق تھا۔ آباؤ اجداد کی خود ساختہ عبادت اور بُت پرستی کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے، اس کے برعکس اپنے طور پر ایک اَن دیکھے خدا کی پرستش کرتے تھے۔ رسول اللہؐ نے جب اپنے رفقاء کو دین کی دعوت دی، تو اس کی اطلاع حضرت عثمان بن مظعونؓ کو بھی ہوگئی۔
وہ حضرت محمد ؐ بن عبداللہ کے صدق و صلاح سے واقف تھے۔ فوراً خدمت ِاقدس میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ اس وقت تک رسول اللہؐ ارقم بن ارقم کے مکان میں منتقل نہیں ہوئے تھے۔
آنحضرتﷺکی تبلیغ و تلقین اور درس و ہدایت نے بہت جلد اُن کے دل میں توحید کا نقش ثبت کردیا۔ دن رات کا بیش تر وقت عبادتِ الٰہی میں صرف کرتے، دن کو روزہ رکھتے اور راتیں سجدوں میں آہ و گزاری کرتے گزارتے۔ انہوں نے اپنے گھر میں عبادت کے لیے ایک حجرہ مخصوص کررکھا تھا، جس میں دن رات معتکف رہتے۔ شوقِ عبادت نے بیوی بچّوں سے بھی بے نیاز کردیا تھا۔
رسول اللہﷺ آپؓ کو ’’السّلف الصالح‘‘ یعنی نیک بزرگ کے نام سے یاد فرماتے تھے۔ ایک دن بارگاہِ رسالتؐ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ ’’یا رسول اللہ ﷺ! مَیں نہیں چاہتا کہ مجھے میری عورت دیکھے۔ میں اُس سے شرماتا ہوں اور ناپسند کرتا ہوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’مگر اللہ نے اُسے تمہارے لیے اور تمہیں اُن کے لیے لباس بنایا ہے۔‘‘ پھر آپؐ نے ان کی اصلاح کی اور نصیحت فرمائی۔ جب وہ پلٹے تو رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’ابن ِمظعون حیادار اور ستر چُھپانے والے ہیں۔‘‘ (طبقات ابن سعد 278/3)۔
رہبانیت کی طرف میلانِ طبع
صحیح بخاری کی ایک حدیث میں روایت ہے کہ تین صحابہ کرامؓ بشمول حضرت عثمان بن مظعونؓ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج ِمطہراتؓ کے گھروں کی طرف آپؐ کی عبادت سے متعلق پوچھنے آئے، جب انہیں حضور اکرمﷺ کا عمل بتایا گیا، تو انہوں نے کہا کہ’’ ہمارا آنحضرتؐ سے کیا مقابلہ، آپؐ تو بخشے بخشائے ہیں۔‘‘ اُن میں سے ایک نے کہا کہ آج سے مَیں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا، میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔
تیسرے نے کہا کہ مَیں عورتوں سے جدائی اختیار کرلوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر آنحضرتﷺ تشریف لے آئے اور اُن سے پوچھا۔ ’’کیا تم ہی نے یہ باتیں کہی ہیں؟ سُن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ ربّ العالمین سے مَیں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ مَیں تم سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں، لیکن میں روزے رکھتا ہوں، تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز بھی پڑھتا ہوں، رات کو سوتا بھی ہوں اور مَیں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ میرے طریقے سے جس نے بھی بے رغبتی اختیار کی، وہ مجھ میں سے نہیں۔‘‘ (صحیح بخاری 5063)۔
ایک روز حضرت عثمان بن مظعونؓ کی اہلیہ، ازواجِ مطہراتؓ سے ملنے آئیں۔ اُمہات المومنینؓ نے اُنھیں خستہ حالت میں دیکھ کر پوچھا۔ ’’تم نے ایسی ہیئت کیوں بنا رکھی ہے؟ تمہارے شوہر سے زیادہ تو قریش میں کوئی دولت مند نہیں۔‘‘ بولیں، مجھے اُن سے کیا سروکار، اُن کی رات اس طرح گزرتی ہے کہ نماز میں کھڑے رہتے ہیں۔ دن اس طرح گزرتا ہے کہ روزے سے ہوتے ہیں۔
آنحضرتﷺ جب تشریف لائے، تو ازواج مطہراتؓ نے یہ واقعہ بیان فرمایا۔ ’’آپؐ ان سے ملے اور فرمایا۔ ’’اے عثمان بن مظعونؓ!کیا میری ذات میں تمہارے لیے نمونہ نہیں ہے؟‘‘ عثمان بن مظعون ؓ نے عرض کیا۔ ’’میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، اے اللہ کے رسولؐ! کیا بات ہوئی؟‘‘ ارشاد فرمایا۔ ’’تم دن بھر روزے رکھتے ہو اور رات بھر نماز پڑھتے ہو۔‘‘ عرض کیا۔ ’’جی مَیں ایسا ہی کرتا ہوں۔‘‘
حضورؐ نے فرمایا۔ ’’ایسا نہ کرو۔ تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے، تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ نمازیں بھی پڑھو اور آرام بھی کرو، روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو۔‘‘ آنحضرتؐ کے اس حکم کے بعد ایک دن پھر اُن کی اہلیہ ازواجِ مطہراتؓ سے ملنے آئیں، تو وہ اس طرح عطر میں بسی ہوئی تھیں، گویا دلہن ہوں۔
ابوقلابہ سے مروی ہے کہ عثمان بن مظعونؓ ایک کوٹھری بناکر وہاں عبادت کیا کرتے۔ رسول اللہﷺکو معلوم ہوا، تو ان کے پاس تشریف لائے اور اُس کوٹھری کے دروازے کا ایک پٹ پکڑ کر فرمایا۔ ’’اے عثمان! اللہ نے مجھے رہبانیت کے ساتھ مبعوث نہیں کیا۔ اللہ کے نزدیک سب سے بہترین دین، خاص توحید و دینِ ابراہیمی ہے۔‘‘ (طبقاتِ ابن ِسعد3/279)۔
اللہ کی امان، سب سے افضل
مکّہ مکرّمہ میں مسلمانوں پر جورو ستم اور ظلم و تشدّد اپنی انتہا کو پہنچ چُکا تھا۔ چناں چہ رسول اللہﷺ نے اللہ کے حکم سے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ فتنوں سے اپنے دین کی حفاظت کے لیے حبشہ ہجرت کرجائیں۔ چناں چہ رجب5 نبوی کو بارہ مرد اور چار خواتین نے حبشہ ہجرت کی۔ اس گروپ میں امیرِ لشکر، حضرت عثمان بن مظعونؓ کے علاوہ آنحضرتﷺ کی لختِ جگر سیّدہ رقیہؓ اور ان کے شوہر عثمان بن عفانؓ بھی تھے، ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک دن خبر ملی کہ مکّے میں قریش کے تمام افراد نے اسلام قبول کرلیا ہے۔
یہ سن کر واپسی کا سفر کیا، لیکن جب بندرگاہ پر پہنچے، تو معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے، سب لوگ سخت پریشان ہوئے، کچھ لوگ تو واپس حبشہ پلٹ گئے اور کچھ چُھپ چُھپاکر قریش کے کسی آدمی کی پناہ لے کر مکّے میں داخل ہوئے۔ حضرت عثمان بن مظعونؓ بھی ولید بن مغیرہ کی پناہ میں آکر مکّے میں داخل ہوگئے۔ ولید بن مغیرہ کی وجہ سے عثمان بن مظعونؓ اذیتوں سے محفوظ ہوگئے۔
تاہم، انہوں نے دیکھا کہ حضوراکرمﷺ کے صحابہؓ تو تکلیفیں اٹھا رہے ہیں اور وہ خود ولید بن مغیرہ کی امان میں آرام سے رہ رہے ہیں، ان کے ضمیر نے انہیں ملامت کی اور ایک دن وہ ولید بن مغیرہ کے پاس گئے اور اس سے کہا۔ ’’اے ابو عبد شمس! تم نے میری ذمّےداری پوری کر دکھائی۔ مَیں تمہاری پناہ کی ذمّے داری تمہیں واپس کرتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’اے میرے بھتیجے کیوں؟ کیا میری قوم کے کسی شخص نے تمہیں تکلیف پہنچائی ہے؟‘‘
حضرت عثمان بن مظعونؓ نے کہا۔ ’’نہیں، بلکہ اب مَیں اپنے اللہ کی پناہ میں رہنا چاہتا ہوں، اس کے علاوہ کسی اور کی پناہ مجھے گوارا نہیں۔‘‘ ولید نے نے کہا۔ ’’اچھا اگر یہ بات ہے، تو تم مسجد ِ حرام چلو، وہاں سب کے سامنے میری پناہ واپس کرو، کیوں کہ مَیں نے بھی تمھیں سب کے سامنے اپنی پناہ میں لیا تھا۔‘‘ چناں چہ وہاں سے نکل کر دونوں مسجدِ حرام گئے، وہاں ولید نے کہا۔ ’’اے لوگو! عثمان میری پناہ مجھے واپس کررہے ہیں۔‘‘
حضرت عثمان بن مظعونؓ نے لوگوں سے کہا کہ ’’ہاں، یہ سچ ہے، مَیں نے ولید کو انتہائی وفاداراور اچھا پناہ دینے والا پایا، لیکن اب میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی پناہ نہ لوں، اس لیے مَیں نے ان کی پناہ واپس کردی ہے۔‘‘ حضرت عثمان بن مظعونؓ وہاں سے واپس ہوئے تو ایک مجلس میں عرب کے مشہور شاعر لبید بن ربیعہ کی مجلس میں جا بیٹھے۔ لبید کے ایک کفریہ شعر پر اعتراض کرنے کی وجہ سےانھیں ایک شخص نے زدوکوب کیا، جس کی وجہ سے ان کی آنکھ پر زخم آیا اور وہ سیاہ ہوگئی۔
ولید بن مغیرہ بھی قریب ہی بیٹھا تھا۔ بولا۔ ’’اے میرے بھتیجے! اللہ کی قسم تمھیں یہ تکلیف کبھی نہ پہنچتی، اگر تم میری امان میں ہوتے۔‘‘ حضرت عثمانؓ نے کہا۔ ’’اے ابو عبدشمس! ہاں تمہاری بات ٹھیک ہے، لیکن اللہ کی قسم، میرا دل چاہ رہا ہے کہ اللہ کے دین کی وجہ سے میری تن درست آنکھ کو بھی یہی تکلیف پہنچے، اور مَیں اس ذات کی پناہ میں ہوں، جو بہت عزت والا اور بڑی قدرت والا ہے۔‘‘ ابنِ اسحاق کی روایت ہے کہ ولید نے حضرت عثمان بن مظعونؓ سے کہا۔ ’’اے میرے بھتیجے، اپنی سابقہ پناہ میں واپس آجائو۔‘‘ حضرت عثمانؓ نے کہا۔ ’’اب یہ ممکن نہیں۔‘‘ (حیات الصحابہؓ اردو، جِلد اوّل صفحہ 324/326)۔
مدینے کی جانب ہجرت
حضرت عثمان بن مظعونؓ بھی دوسرے صحابہ کرامؓ کی طرح ایک عرصے تک کفار قریش کا ظلم و ستم برداشت کرتے رہے، جب رسول اللہؐ نے مدینہ ہجرت کا حکم فرمایا، تو حضرت عثمانؓ نے اپنے دونوں بھائیوں قدامہ بن مظعونؓ، عبداللہ بن مظعونؓ اور بیٹے سائب بن عثمانؓ سمیت خاندان کے تمام مَردوں اور عورتوں کو ایک جگہ جمع کیا، تمام گھروں میں تالے لگائے اور اس طرح ہجرت کی کہ خاندان کا کوئی بھی فرد مکّے میں نہ رہا۔
کفارِ قریش کا کہنا تھا کہ عثمان () مکّے کا ایک بارونق محلّہ ویران کرگیا۔ مدینہ پہنچ کر انہوں نے پہلا قیام عبداللہ ابن سلمہ العجلانی کے گھر کیا۔ آنحضرتﷺ نے حضرت عثمان بن مظعونؓاور ان کے خاندان کی مستقل سکونت کے لیے زمین عطا فرمائی۔
جنّت البقیع کے پہلے مکیں
حضرت عثمان بن مظعونؓ پہلے مہاجر صحابی ہیں، جو جنّت البقیع میں مدفون ہوئے، جب کہ انصار میں حضرت اسعد بن زرارہؓ پہلے انصار صحابی تھے، جو بقیع میں مدفون ہوئے۔ عبیداللہ بن ابی رافع سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ اپنے اصحاب کے لیے قبرستان کی تلاش میں تھے۔ آپؐ مدینہ کے اطراف آئے اور ایک جگہ اشارہ فرمایا۔ ’’مجھے اس جگہ کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی بقیع کا۔‘‘ اس وقت یہاں پانی کے چشمے، ببول اور خاردار جھاڑیاں تھیں۔
مچھر اس قدر تھے کہ شام ہوتی، تو مثل دھوئیں کے چھا جاتے۔ وہاں سب سے پہلے جو شخص دفن ہوئے، وہ عثمان بن مظعونؓ تھے۔ رسول اللہﷺ نے ان کے سرہانے ایک پتھر رکھ دیا اور فرمایا۔ ’’یہ ہماری علامت ہے۔‘‘ اُن کے بعد جب کوئی میّت آتی اور پوچھا جاتا کہ کہاں دفن کریں؟ رسول اللہﷺ فرماتے کہ ہمارے نشان (عثمان بن مظعونؓ )کے پاس۔
جب عثمان بن مظعونؓ کا جنازہ اٹھایا گیا، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ ’’اے عثمانؓ! تم اس حالت میں گئے کہ دنیا سے کچھ تعلق نہ تھا۔‘‘ عثمان بن مظعونؓ کی قبر میں ان کے بھائی عبداللہ، قدامہؓ ،بیٹے سائبؓ اور محمد بن حارثؓ اُترے۔ رسول اللہ ﷺ قبر کے کنارے کھڑے تھے۔ (طبقات ابنِ سعد، اردو 281/1)
اُمّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت عثمان بن مظعونؓ کی وفات کے بعد رسول اللہﷺ نے ان کا بوسہ لیا۔ میں نبی کریمﷺ کے آنسوئوں کو دیکھ رہی تھی، جو آپؐ کے رخسار مبارک سے بہہ رہے تھے۔ (ابنِ ماجہ 1456، ترمذی 989)۔حضرت عثمان بن عفانؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے عثمان بن مظعونؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور چار تکبیریں کہیں۔ (ابنِ ماجہ 1502)
جناب مطّلب بن عبداللہ بن حنطبؓ نے بیان کیا کہ جب سیّدنا عثمان بن مظعونؓ کی وفات ہوئی اوراُن کا جنازہ لایا گیا اور دفن کیا گیا، تو آپؐ نے ایک شخص سے فرمایا کہ ایک پتھر لاؤ، مگر وہ اُسے نہ اُٹھا سکا، تو رسول اللہؐ اُس طرف تشریف لے گئے۔ اپنی کلائیوں سے کپڑا ہٹایا، پھر آپؐ نے اس پتھر کو قبر پر سر کی جانب رکھ دیا اور فرمایا، میں اس سے اپنے بھائی کو پہچان لوں گا۔ میرے اہل میں سے جو کوئی فوت ہوا، میں اُسے اس کے قریب دفن کروں گا۔ (سنن ابو دائود، 3206)۔