• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یکطرفہ پروپیگنڈے اور سفید جھوٹ کی تکرار سے قاتل مقتول بن سکتے ہیں نہ ظالم، مظلوم، اسلام آباد میں پولیس کے لاٹھی چارج ،گیس شیلنگ کا مقابلہ کرنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کے مرد و خواتین کو ڈنڈا بردار قرار دے کر سانحہ ماڈل ٹائون پر پردہ ڈالا جاسکتا ہے نہ سیدھی گولیوں کا نشانہ بننے والے دو خواتین سمیت بارہ تیرہ شہداء کے خون کے دھبے دھل سکتے ہیں؎
خون شہداء تیری رسوائی کے درپے ہے
دامن یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا
ارشاد خداوندی ہے’’تمہیں کسی قوم(گروہ) کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل و انصاف نہ کرسکو‘‘ ڈاکٹر طاہر القادری کے مسلک، سیاسی موقف، خطیبانہ مبالغہ آرائی کی عادت سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ 17 جون اور 23 جون کو غیر انسانی ،غیر سیاسی، غیر جمہوری، غیر حکیمانہ، غیر شریفانہ اور بزدلانہ کارروائیاں کرنے والے عناصر دودھ کے دھلے قرار پائیں اور صریحاً احمقانہ اقدامات پر12 مئی 2007 کی سنگدلانہ کارروائی کا پردہ ڈال کر قاتلوں کو کلین چٹ پکڑادی جائے۔
12 مئی 2007 کو جو ہوا سو فیصد غلط تھا، کارروائی بھی پولیس فورس کی نہ تھی، مگر تب ایک فوجی ڈکٹیٹر اور اس کے کارندوں نے یہ قدم اٹھایا۔ کیا اب بھی ملک میں آمریت مسلط ہے اور آزادانہ نقل و حرکت، اجتماع، اظہار رائے کی ممانعت ؟
کیا ’’یہ‘‘ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
اگر پولیس اسلام آباد میں کارکنوں کو نہ روکتی تو پھر بھی پتھرائو اور ڈنڈوں کا نشانہ بنتی؟ اور ’’نہتے‘‘ ،’’معصوم‘‘ ، ’’گل بکف‘‘ پولیس اہلکار ہسپتالوں میں پڑے ہوتے؟یہ سوال کون؟ کس سے کرے؟؎
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
وطن واپسی اور لاہور ائیر پورٹ سے ایک دو غلطیاں ڈاکٹر طاہر القادری سے سرز دہوئیں کور کمانڈر اور فوج کے کسی افسر کو آواز دینا اپنے اور فوج کے ساتھ زیادتی تھی۔ بلٹ پروف گاڑی کا مطالبہ اور چودھری محمد سرور کی معیت میں جانے پر اصرار اس پر مستزاد، غلط در غلطی۔ اپنے مخالفین کو منفی مہم کا موقع فراہم کرنے کے مترادف۔ اگر شیخ الاسلام پیدل باہر نکلنے پر اصرار کرتے، اے ا یس ایف، پولیس یا کوئی دوسری سرکاری ایجنسی ان سے زور زبردستی کرتی تو ایک مظلوم، بہادر، جرأت مند اور ڈرنے نہ دبنے والے لیڈر کے طور پر ان کا قد مزید بلند ہوتا۔
تاہم اندازے کی ان غلطیوں کے مقابلے میں حکومت کی حماقتیں زیادہ سنگین اور تباہ کن ہیں اور اس تاثر کو پختہ کرنے والی کہ حکمرانوں نے ماضی سے سبق سیکھا ہے نہ مرکز میں تین بار اور سب سے بڑے صوبے میں چھ بار برسراقتدار آنے والی حکمران جماعت اپنے مخالفین کا سیاسی ہتھکنڈوں اور حکمت عملی سے مقابلہ کرنے کی اہل ہے۔ دانش اور تجربے سے لیس سنجیدہ و فہمیدہ ٹیم سے محروم حکمرانوں کا سارا انحصار پولیس اور دیگر سرکاری اداروں پر ہے اور جمہوری روایات کو پروان چڑھانے میں کوئی سنجیدہ نہیں۔
اگر ڈاکٹر طاہر القادری مزید کوئی غلطی نہیں کرتے، حلقہ مشاورت وسیع اور اپنے تجربہ کار سیاسی حلیفوں پر انحصار کرتے ہیں، خطیبانہ جوش و خروش کے بجائے قائد انہ ہوش و خرد کا مظاہرہ فرماتے اور اپنے کارکنوں کا جذبہ برقرار رکھتے ہیں۔ گورنر چودھری سرور کی آڑ میں شریف برادران کے کسی چکمے میں نہیں آتے تو حالات ان کے لئے سازگار ہیں۔ عمران خان اگر سٹیٹس کو کے حامی اور عوامی سیاست کے تقاضوں سے قطعی نابلد ساتھیوں اور مشیروں کے شکنجے سے نکلنے میں کامیاب رہے اور خیبر پختونخوا حکومت و اسمبلیوں کے استعفوں پر تیار ہوگئے جس کا پچانوے فیصد امکان ہے اور ڈرائنگ روم پالیٹکس میں یدطولیٰ رکھنے والے چودھری برادران کی رفاقت ڈاکٹر صاحب کو حاصل رہی تو وسط اگست تک گرینڈ الائنس عملی شکل اختیار کرسکتا ہے اور عمران خان اپنے کارکنوں کے دبائو پر اس کا حصہ ہوں گے۔
فوج ،میڈیا کے غالب حصے سے بگاڑ اور عوام کے حقیقی مسائل سے چشم پوشی، نمائشی اقدامات پر اصرار ، بالادستی کی مجنونانہ خواہش کے سبب موجودہ حکومت سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔ مسلم لیگ(ن) میں داخلی انتشار افسانہ نہیں امر واقعہ ہے، زیادہ سے زیادہ چار ہفتے میں آپریشن ضرب عضب کی تکمیل کے بعد معمول کی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوگا اور میدان حقیقی اپوزیشن کے لئے کھلا۔ گرفتاریاں، نظر بندی، لاٹھی چارج اور مقدمات فرینڈلی اور بے بصیرت اپوزیشن کے لئے سد راہ ہوتے ہیں حقیقی اپوزیشن کے لئے نہیں۔ فوج کسی سازش یا ریشہ دوانی کا حصہ ہرگز نہ بنے گی مگر اس کی غیر جانبداری ایسی حکومت کے لئے پریشان کن ثابت ہوگی جو ہمیشہ ریاستی اداروں کی بیساکھیوں کے سہارے قائم ہوتی اور برقرار رہتی ہے۔
ہر ہفتے آپریشن ضرب عضب کے حق میں ریلیاں نکالنے کا فیصلہ موزوں ہے کسی شرعی حیلے سے بدلانہ گیا اور ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور میں ان ریلیوں کی قیادت خود کی ،کسی اندیشے کا شکار نہ ہوئے تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ فوج کے حق میں نکلنے والی ریلی کو روکنا آسان نہ اس کی اجازت دے کر طاہر القادری کے لئے میدان کھلا چھوڑ دینا خوفزدہ حکومت کے لئے سود مند۔ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ رکاوٹ ڈالی گئی تو یہ تاثر مزید پختہ ہوگا کہ حکومت فوج کی نہ خود پشت پناہی کرتی ہے نہ کسی کو حوصلہ افزائی کا موقع دیتی ہے اور اجازت دیدی تو مسائل کے ستائے عوام ریلی کا حصہ ہوں گے۔
تاہم ان ریلیوں اور قبلہ کی تقاریر سے یہ تاثر ہرگز نہیں ابھرنا چاہئے کہ وہ دفاع وطن میں مصروف پاک فوج کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں۔ اپوزیشن نے عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا اور گھبراہٹ کا شکار حکومت نے ایک بار پھر لاٹھی گولی کا سہارا لیا تو سیاسی تبدیلی کی راہیں کھلتی چلی جائیں گی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے والی قیادت، جماعت اور کارکنوں کی کھیپ ہی عوامی توجہ اور تائید و حمایت کا مرکز ہوگی؎
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میںجان ہوگی وہ دیا رہ جائیگا
منفی پروپیگنڈے اور سفید جھوٹ سے قاتل مقتول بن سکتے ہیں نہ ظالم مظلوم اور نہ پولیس گردی نے کسی جمہوری یا غیرجمہوری حکمران کو کبھی فائدہ پہنچایا ہے۔
تازہ ترین