شاعرِ مشرق، علّامہ اقبال ملّتِ اسلامیہ کا گہرا درد رکھتے تھے اور مسلمانوں کے اتحاد کے داعی تھے۔ اُن کا شمار ایسے شعرا اور مفکّرین میں ہوتا ہے، جنہوں نے اُمّتِ مسلمہ کو قوم کے دائرے سے نکال کر ملّت سے پیوستہ کیا اور مسلم اُمّہ پر ہونے والے ہر ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی، جس میں مسئلۂ فلسطین بھی شامل ہے۔ علّامہ اقبال اِس مسئلے کو خالص اسلامی مسئلہ سمجھتے تھے۔
تاریخ کی وَرق گردانی کریں، تو معلوم ہوتا ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کا زوال قضیۂ فلسطین کا نقطئہ آغاز ہے۔ فلسطین پر قابض صیہونی و یہودی کبھی بھی سرزمینِ فلسطین کے اصل باشندے نہیں رہے۔1897 ء میں تھیوڈور ہرزل نے29 تا31 اگست کو سوئٹزرلینڈ کے شہر، باسل میں منعقد ہونے والی پہلی صیہونی کانفرنس میں”صیہونی ریاست“ کا نظریہ پیش کیا، جس میں ارضِ فلسطین”یہودی وطن “ کے قیام کا ہدف طے پائی۔
پہلی جنگِ عظیم کے دَوران ہی1916 ء میں”سائیکس پیکو“ معاہدے میں ایک نقشے پر لکیر کے ذریعے فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کیا گیا، پھر برطانیہ کی مدد سے اعلانِ بالفور(1917ء)کی بنیاد پر فلسطین کی تقسیم کا باقاعدہ اعلان سامنے آیا اور 1922 ء میں لیگ آف نیشنز نے، جو پہلی جنگِ عظیم کے بعد عالمی امن برقرار رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی، یہ خطّہ باقاعدہ برطانیہ کے انتداب میں دے دیا۔
اعلانِ بالفور میں برطانیہ نے نہ صرف فلسطین میں یہودیوں کو بسانے کی حمایت کی، بلکہ یہ بھی طے ہوا کہ اِس مقصد کے حصول کے لیے برطانوی حکومت سہولتیں فراہم کرنے کی تمام کوششیں بروئے کار لائے گی۔ اِس معاہدے میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ اس سے فلسطین میں مقیم غیر یہودی آبادیوں کے حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔
ان کے شہری، مذہبی اور سیاسی حقوق کا تحفّظ کیا جائے گا۔ اِس معاہدے سے فلسطینیوں کی غلامی کی سیاہ راتوں کا آغاز ہوا۔ برطانیہ نے دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین لا کر آباد کرنا شروع کر دیا۔ علّامہ اقبال، فلسطین میں یہودی آبادکاری کے پیچھے چُھپے عزائم کو جَلد جان گئے اور اِس فرنگی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے اپنی نظم ’’شام و فلسطین‘‘ میں اُنھوں نے کہا کہ؎ ’’مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور…قصّہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا۔‘‘
برطانیہ کا فلسطین کی سر زمین پر یہودیوں کی آبادکاری کا جو مقصد تھا، وہ آج اسرائیل کی صُورت ہمارے سامنے موجود ہے، جس نے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والی جنگ میں اسرائیل نے 66 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید اور ایک لاکھ 69 ہزار سے زاید کو زخمی کیا، جب کہ ہزاروں بستیاں ملبے کا ڈھیر بنادیں۔
ارضِ فلسطین پر ظلم و جبر کی یہ داستان نئی نہیں بلکہ برسوں پرانی ہے۔ یہ وہ سر زمین ہے، جہاں ایک طرف تو ظلم، طاقت اور سفّاکیت کی قوّتیں ہیں، تو دوسری جانب نڈر، بہادر فلسطینی ہیں، جو اقبال کے ’’مردِ مومن‘‘ کی عملی تصویریں ہیں۔
اس ظلم و بربریت کے میدان میں صبر و استقامت کا پیکر بنے فلسطینی، صحافت کے محاذ پر ظلم کو بے نقاب کرنے اور سچ سامنے لانے والے انس الشریف اور دیگر سیکڑوں صحافی، دنیا کو جھنجوڑنے والے خالد نبھان (جو پوتی کی شہادت پر صبر و استقامت کا پیکر بنے رہے)، انسانیت کی خدمت کرنے والے ڈاکٹرز اور طبّی عملہ، یہی وہ لوگ ہیں، جن کے بارے میں اقبال نے اپنی نظم ”فلسطینی عربوں سے“ میں فلسطینیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ؎ ’’زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ…مَیں جانتا ہوں، وہ آتش تِرے وجود میں ہے۔‘‘
سرزمینِ فلسطین سے اقبال کا خصوصی لگائؤ اور گہری ہم دردی اُن کی نظم و نثر دونوں میں واضح نظر آتی ہے۔ نظم’’دامِ تہذیب‘‘ میں اقبال نے فلسطین کے اُس وقت کے بگڑتے حالات پر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کچھ یوں کیا؎ ’’جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل…تدبیر سے کُھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار۔‘‘ دسمبر 1919ء کو لاہور میں موچی دروازے کے باہر ایک جلسہ منعقد ہوا۔
بشیر احمد ڈار نے اپنی کتاب ”انوارِ اقبال“ میں لکھا ہے کہ اُس جلسے میں اقبال نے ایک قرارداد پیش کی، جس میں ’’پیرس صلح کانفرنس‘‘ میں سلطنتِ عثمانیہ اور خلیفۃ المسلمین سے متعلق قابلِ اطمینان فیصلہ نہ ہونے پر مسلمانانِ لاہور کی جانب سے بے چینی کا اظہار کیا اور اتحادیوں سے مطالبہ کیا کہ سلطنتِ عثمانیہ سے متعلق برطانوی وزیرِ اعظم اپنے جنوری1918ء کے وعدے اور امریکی صدر اپنے 14 نکات کا پاس رکھیں، جس کی بنیاد پر جنگ بندی کی گئی تھی۔
اُنھوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ سلطنتِ عثمانیہ کے کسی بھی حصّے پر صراحتاً یا اشارتاً کسی دوسری سلطنت کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے۔ واضح رہے، اُس وقت فلسطین، سلطنتِ عثمانیہ کا حصّہ تھا۔ گو کہ ’’لیگ آف نیشنز‘‘ عالمی امن برقرار رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی، مگر اقبال اسے ایک الگ زاویے سے دیکھتے تھے۔
نظم ’’جمعیتِ اقوام‘‘ (بالِ جبریل) میں اقبال نے اس تنظیم کو ”داشتۂ پیرکِ افرنگ“ کہا۔ ’’پیامِ مشرق‘‘ میں جمعیت الاقوام کے عنوان سے اُن کے چند اشعار موجود ہیں، جن میں اقبال اس انجمن سے متعلق کہتے ہیں؎ ’’بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند (یعنی مَیں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنا لی ہے)۔ اِس’’لیگ آف نیشنز‘‘ کا ہیڈ کوارٹر جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں تھا۔
اقبال نے اپنی نظم ’’فلسطینی عرب سے‘‘ (بالِ جبریل) میں فلسطینیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا؎ ’’تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں…فرنگ کی رگِ جاں، پنجۂ یہود میں ہے۔‘‘ اپنی ایک اور نظم ’’شام و فلسطین‘‘ (بالِ جبریل) میں یہودیوں کے استحقاق کے دعوے کا جواب دیتے ہوئے کہا ؎’’ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق... ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا۔‘‘
فلسطین سے اقبال کی محبّت و ہم دردی کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُنھوں نے فلسطین میں ہونے والے ظلم کے خلاف مسلسل آواز اُٹھائی۔1929 ء میں فلسطینیوں کے قتل و غارت کے الم ناک واقعات رُونما ہوئے، تو مسلمانانِ لاہور نے انگریزوں کی یہود نواز پالیسیز اور فلسطینی مسلمانوں کے قتلِ عام پر بطورِ احتجاج ایک جلسہ منعقد کیا۔ اس جلسے کی صدارت علّامہ اقبال نے کی۔
اُنھوں نے اپنی تقریر میں اسلامی سلطنت کے یہودیوں پر کیے گئے احسانات یاد دلائے اور فلسطین میں ہونے والے قتلِ عام کی مذمّت کی۔ اقبال کی یہ تقریر رفیق افضل کی کتاب ’’گفتارِ اقبال‘‘ میں موجود ہے۔ اِسی تقریر میں اقبال نے صیہونی تحریک سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”صیہونی تحریک، مسلمانوں کے لیے کوئی خوش گوار نتائج پیدا نہیں کرے گی، بلکہ اس سے غیر معمولی فتنوں کے ظہور پذیر ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘1931ء میں اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے اور گول میز کانفرنس ادھوری چھوڑ کر یروشلم کی موتمر عالمِ اسلامی کانفرنس میں شرکت کی۔
اِس کانفرنس کے مختلف مقاصد تھے، لیکن سب سے اہم مقصد مسلمانوں کو باہم متحد اور فلسطین پر یہودیوں کے ناجائز قبضے کا احساس دِلانا تھا۔ علّامہ اقبال، مولانا غلام رسول مہر کے ساتھ اس کانفرنس کی مختلف نشستوں میں شریک ہوئے اور بہت سی کمیٹیوں کے رُکن بھی رہے۔
ایک نشست میں اُنہیں نائب صدر بنا کر اسٹیج پر بھی بٹھایا گیا۔ علّامہ اقبال نے فلسطین کے مختلف تاریخی مقامات کی سیر بھی کی۔ نظم ’’ذوق و شوق‘‘ (بالِ جبریل) ان کے اسی سفرِ فلسطین کی یادگار ہے، جس سے متعلق اقبال نے خُود کہا کہ اِس نظم کے کئی اشعار اُنہوں نے فلسطین میں لکھے۔
اقبال نے اِس نظم میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے تمہیدی طور پر مناظرِ فطرت کا سہارا لیا اور وہ عالمِ تصوّر میں خُود کو مدینہ منوّرہ کے آس پاس محسوس کرتے ہیں۔ اِس تصوّراتی منظر کا نقشہ کچھ یوں ہے۔؎ ’’قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں…چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں…حُسنِ ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود…دل کے لیے ہزار سُود ایک نگاہ کا زیاں…سُرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب…کوہِ اِضم کو دے گیا رنگ برنگ طَیلساں۔‘‘
فلسطین میں قیام کے آخری دن اقبال نے ایک بڑی زبردست تقریر کی۔ اُنھوں نے اپنی اِس الوداعی تقریر میں عربوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ ”میرا ایمان ہے کہ اسلام کا مستقبل اہلِ عرب کی ذات سے وابستہ ہے اور ان کا مستقبل ان کے باہمی اتحاد پر موقوف ہے۔ ان کے لیے مقدّر ہو چُکا ہے کہ عظیم الشّان طاقت بن جائیں۔‘‘
رفیق افضل کی کتاب ’’گفتارِ اقبال‘‘ میں وائسرائے ہند کے نام اقبال کا ایک تار بھی موجود ہے، جو اُنھوں نے1933ء میں فلسطین کی صُورتِ حال کے پیشِ نظر اُنہیں ارسال کیا تھا۔ اقبال نے اِس تار میں وائسرائے ہند سے فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ جلد از جلد روکنے اور اعلان بالفور واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
جولائی1937 ء میں فلسطین سے متعلق رائل کمیشن کی رپورٹ شائع ہوئی، جس میں تقسیمِ فلسطین کی تجویز پیش کی گئی۔ اقبال اِس تجویز پر تڑپ اٹھے۔ اُنھوں نے مسلم لیگ سے فوراً ایک جلسہ منعقد کرنے کی گزارش کی اور مِس فارقوہرسن ( جو نیشنل لیگ آف انگلینڈ کی صدر تھیں اور جنھیں مسئلۂ فلسطین سے خاصی دل چسپی تھی) کے نام خطوط لکھے۔
اقبال کے یہ خطوط شیخ عطاءاللہ کی کتاب’’اقبال نامہ‘‘ میں موجود ہیں۔ اِس رپورٹ پر اقبال اپنی بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے مِس فارقوہرسن کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں ’’مَیں بدستور بیمار ہوں، اِس لیے فلسطین رپورٹ پر اپنی رائے اور وہ عجیب و غریب خیالات اور احساسات، جو اس نے ہندوستانی مسلمانوں کے دِلوں میں بالخصوص اور ایشیائی مسلمانوں کے دِلوں میں بالعموم پیدا کیے ہیں یا کر سکتی ہے، تفصیل سے تحریر نہیں کر سکتا۔
میرے خیال میں اب وہ وقت آگیا ہے کہ نیشنل لیگ آف انگلینڈ وقت شناسی کا ثبوت دے اور اہلِ برطانیہ کو عربوں کے خلاف، جن سے برطانوی سیاست دانوں نے اہلِ برطانیہ کے نام حتمی وعدے کیے تھے، نا انصافی سے بچا لے۔‘‘ اِسی خط میں اقبال نے لکھا کہ ’’فلسطین پر یہودیوں کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی فلسطین، انگلستان کی ذاتی جائیداد ہے۔
فلسطینی رپورٹ کو اگر منصفانہ نظر سے پڑھا جائے، تو یہ اثر پیدا ہوتا ہے کہ تحریکِ صیہونیت کا آغاز یہودی کے لیے ایک قومی وطن مہیّا کرنے سے کہیں زیادہ برطانوی سام راج کے لیے میڈیٹیرین میں ایک ساحلی کنارہ حاصل کرنے کے لیے ہوا تھا۔‘‘ رائل کمیشن کی اِس رپورٹ کے خلاف اقبال نے ایک بیان بھی جاری کیا، جو شیخ عطاءاللہ کی کتاب ’’اقبال نامہ‘‘ میں موجود ہے۔ اس بیان میں اقبال نے فلسطین کو خالص اسلامی مسئلہ قرار دیا اور عربوں، تُرکوں کو آپس میں متحد ہونے اور ایک ایشیائی جمعیت الاقوام کے قیام پر زور دیا۔
اپنی وفات سے چند ماہ قبل علّامہ اقبال نے اکتوبر 1937ء کو قائدِ اعظم کے نام خط میں فلسطین پر اپنے اضطراب کا اظہار کیا۔ اقبال کے اِس خط کا اردو ترجمہ بھی شیخ عطاء اللہ کی مذکورہ میں موجود ہے۔ اقبال لکھتے ہیں۔ ’’مجھے اُمید ہے کہ مسلم لیگ اِس مسئلے پر ایک قرارداد ہی منظور نہیں کرے گی، بلکہ رہنماؤں کی ایک غیر رسمی کانفرنس میں کوئی ایسی راہِ عمل بھی متعیّن کی جائے گی، جس میں مسلمان عوام بڑی تعداد میں شامل ہو سکیں۔
اِس طریق سے ایک طرف تو لیگ کو ہر دل عزیزی حاصل ہوگی اور دوسری طرف، شاید فلسطین کے عربوں کو کچھ فائدہ پہنچ جائے۔ ذاتی طور پر مَیں کسی ایسے امر کے لیے، جس کا اثر ہندوستان اور اسلام دونوں پر پڑتا ہو، جیل جانے کے لیے تیار ہوں۔ ایشیا کے دروازے پر ایک مغربی چھاؤنی کا مسلّط کیا جانا، اسلام اور مسلمان دونوں کے لیے پُرخطر ہے۔‘‘
علّامہ اقبال1938 ء میں اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے، لیکن آج بھی فلسطین کے حالات وہی ہیں، آج بھی اُمّتِ مسلمہ بکھری ہوئی ہے، لیکن افسوس، آج کوئی اقبال نہیں، جو اُمّت کو بے دار کرسکے اور اپنی شاعری کے ذریعے یہ پیغام پہنچا سکے کہ اُمّتِ مسلمہ کی بقا، باہم متحد رہنے ہی میں ہے۔ اِس موقعے پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی رہی…بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا۔‘‘