• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگ کے بطن سے جنگ ہی جنم لیتی ہے حیراں ہوں ماہرین یہ بات کیوں نہیں سمجھتے۔پہلی جنگِ عظیم کے بطن سے دوسری جنگ اور دوسری کے بطن سے ویتنام کی جنگ اور پھر سرد جنگ۔ جنگِ ویتنام کو امریکہ کی شکست سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر میں اس تاثر سے متفق نہیں ہوں ۔نظرئیے کو نظریہ ہی تھامتا ہے بندوق تلوار نہیں۔کیمونزم ایک نظریہ ہے جو پچاس کی دہائی میں طوفان کی رفتار سے بڑھ رہا تھا ۔روس سے چین، مشرقی یورپ، مشرق بعید سے امریکہ کے دہانے پر کھڑا کیوبا کا لیڈر فیڈل کاسترو کیپٹل ازم کو للکار رہا تھا ۔بھارت میں گو کیمونزم مقبول نہیں ہو سکا مگر بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے کیمونسٹ بلاک سے دفاعی معاہدے بھی کئے تھے۔کاسترو کی بانہوں میں بانہیں ڈالے چی گویرا مزدوروں کو عالمی اتحاد اور کیپیٹل ازم کی فاشسٹ پالیسیوں سے نجات کی امید دلا رہا تھا اور سی آئی اے دور کھڑی یہ تماشا دیکھنے پر مجبور تھی۔ کاسترو اصلی کیمونسٹ تھا یا نقلی، چی گویرا کی قاتل سی آئی اے تھی مگر سی آئی اے کو کاسترو کے گھر سے آدھی رات کو روانگی کی اطلاع کس نے دی تھی، کاسترو برادرز 64سال سے کس بِرتے پر ڈکٹیٹرشپ چلا رہے ہیں، تحقیق طلب بات ہے ۔ قارئین گو یہ سب سی آئی اے سے منسلک ہیں مگر الگ موضوعات ہیں ان پر کبھی طبع آزمائی ہو گی ۔
فرانس نے جنوبی ویتنام سے نکل جانے کا اشارہ دیا تو امریکہ نے سی آئی اے کو جنوبی ویتنام میں نظریاتی دیوار کھڑی کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ۔صدر جانسن اور دیگرآئینی ادارے متفق نہ تھے مگر پینٹاگون نے کسی کو درخوراعتناء نہ جانا۔ صدر جانسن نے محدود اسلحہ اور فنانس دینے کا حکم دیا تو سی آئی اے نے کھلے سمندر میں کھڑے اپنے ہی جہازوں پر فائر کرکے صدر کو اسلحہ اور فنانس بڑھانے پر مجبور کر دیا۔ہزاروں امریکی فوجیوں اور لاکھوں ویتنامی اتحادیوں کی لاشوں کی بنیاد پر سرمایہ داری کی نظریاتی دیوار کھڑی کر دی جس سے کیمونزم ٹکرا کر ایسا پلٹا پھر اس کے پائوں ٹک نہ سکے اور اسے اپنی جنم بھومی ماسکو میں بھی آشیانہ نہ مل سکا۔ سی آئی اے نے معروف ہالی وڈ اداکارہ جین فونڈا کو امریکی سول سوسائٹی کو ایکٹو کرنے کیلئے رضامند کر لیا تاکہ امریکی افواج جو آئینی اداروں کے اختلاف کے باوجود ویتنام میں گھس گئی تھیں انہیں واپسی کا راستہ مل سکے ۔ پینٹاگون کہہ سکے ہم عوام کی حفاظت کیلئے گئے تھے اور عوامی مطالبے پر واپس آ گئے ۔جین فونڈا ڈرامہ اس لئے کرنا پڑا، نظریاتی دیوار نہ کسی کو نظر آتی تھی نہ دکھائی جا سکتی تھی۔ کیمونسٹ شمالی ویتنام نے جنوبی ویتنام پر قبضہ کر لیا جسے دنیا امریکی شکست سے تعبیر کرتی ہے مگر یہ سایہ ہے پَرتُو ہے جو نظر آتا ہے دیوار نظر نہیں آتی۔سی آئی اے کامقصد سوویت یونین کو توڑنا تھا ،وہ 1975ء میں افغانستان میں گھس آئی ۔ افغان بادشاہ جانتا تھا اس کے محل کے کونے کونے میں کے جی بی کے ایجنٹ کھڑے ہیں وہ پھر بھی ڈالروں کی جھنکار پر ناچنے لگا، سی آئی اے کی سرگوشیاں اس کے کانوں میں رس گھولنے لگیں ۔کے جی بی نے افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے بہنوئی اور وزیر اعظم سردار دائود سے گٹھ جوڑ کرکے بادشاہ کو دیس نکالا دے دیا۔ وہ روم میں چین کی بانسری بجانے لگا۔ دائود نے ظاہر شاہ والی غلطی دہرائی تو کے جی بی نے دائود اور اس کے خاندان کے لہو سے صدارتی محل رنگ دیا۔ اقتدار کے کھیل میں تخت ہوتا ہے یا تختہ۔ اب کی بار تخت نور محمد ترکئی اور پھر حفیظ اللہ امین کے حصے آیا مگر دونوں کاانجام موت پر منتج ہوا۔ صدر ببرک کارمل نااہل تھا غدار نہیں ،زندہ رہا۔ روسی فوجوں کو افغانستان سے نکلنا پڑا۔ کیمونزم کے حامی آخری صدر نجیب اللہ کو طالبان نے پھانسی پر لٹکا دیا۔ میخائل گوربا چوف نے روسی اونٹ کی بوجھ سے کانپتی ٹانگیں دیکھیں تو سوویت یونین توڑ دیا ۔روسی اونٹ کی پشت سے وزن اترا تو اس کی کپکپاہٹ ختم ہو گئی ۔روس اپنی سرحدوں تک محدود ہو گیا درجنوں ملک آزاد ہو گئے ۔ روس نے کیمونزم سے چھٹکارا پا لیا ۔مغرب سے دوستی کر لی ۔یورپ کو گیس سپلائی کرنے لگا۔ یورپ کو سستی گیس کی ضرورت تھی اور روس کو ڈالروں کی۔ دونوں کی معیشت کو بوسٹ ملا آج دونوں اس غرض مشترک پر متحد ہیں۔ میں اس سے پہلے روس کی انگڑائی کے عنوان سے کالم لکھ چکا ہوں جس میں روسی معیشت کی مضبوطی، عسکری قوت اور پیوٹن امریکہ کیلئے ایک نیا چیلنج، کریمیا کو وہ ہڑپ کر چکا ہے اور امریکہ کی اتحادی کاکیشئن ریاستوں کو آنکھیں دکھا رہا ۔آج روس وہیں کھڑاہے جہاں سوویت یونین امریکہ کے لئے چیلنج تھا۔کیا کھویا کیا پایا، کاش کوئی سی آئی اے سے یہ سوال کر سکتا۔کاش سی آئی اے سوویت یونین کو طاقت سے توڑنے کی غلطی نہ کرتی ،اسے فطری انداز میں ٹوٹنے دیا جاتا ۔سوویت یونین کے پیٹ میں ٹوٹنے کے سارے عوامل پیدا ہو چکے تھے۔معیشت اس قدر نڈھال تھی سوویت یونین کے باشندوں میں اپنے بچوں کو دودھ پلانے کیلئے ایک ڈبہ خریدنے کی سکت باقی نہ تھی ۔ گرتی دیوار کو دھکا لگانے کی کیا ضرورت تھی اور وہ بھی اتنے احتمال سے۔ کاش سی آئی اے کے سر پر فتح کا سہرا سجانے کا جنون نہ ہوتا تو آج اس خطے کو دہشت گردی کا سامنا نہ ہوتا۔ افغان جنگ کے بطن سے گوریلا جنگ نے جنم لیا جسے القاعدہ اور اس سے منسلک تنظیمیں کہتے ہیں۔ عراق جنگ اور پھر تیونس سے اٹھنے والی لہر جس میں قذافی ،علی بن صالح اور حسنی مبارک تو بہہ گئے مگر ساتھ مشرق وسطیٰ کا سکون بھی لے گئے ۔کاش پینٹاگون والے یہ سمجھ لیتے جنگ کا باب کھولنا تو آسان ہے مگر بند کرنا مشکل ۔جنگ کا اپنا کلچر ہے اپنی راہیں ہیں ۔جرنیلوں کے بنے نقشے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور اس کے پیٹ سے نئی مشکلیں وجود پاتی رہتی ہیں ۔آج کی نئی مشکل آئی ایس آئی ایس ہے جس سے القاعدہ بھی رشتہ جوڑنا مناسب نہیں سمجھتی ۔سی آئی اے نے سوویت یونین توڑنے کیلئے افغانستان اور پاکستان کے مدرسوں کے امن پسند طالب علموں سے قرآن کریم لے کر اسلام کے نام پر کلاشنکوف تھما دی۔
آئی ایس آئی ایس کے کیامعنی ہیں اور یہ کیا ہے ۔اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ شام۔یہ 15/ 20ہزار کے قریب گوریلے ہیں جو انتہائی تربیت یافتہ ہیں، دنیا کا بہترین اسلحہ ان کے ہاتھوں میں ہے اور فراوانی سے میسّر ہے۔ شاید یہ کوئی القاعدہ کا ایڈوانس سسٹم ہو جس سے القاعدہ نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت علیحدگی اختیار کر لی ہو تاکہ القاعدہ کے چہرے کو صاف کیا جائے ۔ یہ بہت ظالم ہیں اور القاعدہ ان کے ظلم اپنے نام لینا افورڈ نہیں کر رہی ۔فنانس ان کے لئے مسئلہ نہیں۔ فنڈز ٹرانسفر اور انفارمیشن شیئرنگ کیلئے یہ موسٹ ماڈرن ٹیکنالوجی کو بہت بہتر انداز میں استعمال کر رہے ہیں ۔صرف شک پر بے گناہوں کے سر کاٹ دینا ان کے لئے معمول کی بات ہے ۔ بنک لوٹنا، تاوان کے لئے اغوا، اسلحہ ،نارکوٹکس، اسمگلنگ ہر دھندے کو فنانس بنانے کیلئے استعمال کرنا معیوب نہیں سمجھتے ۔
تازہ ترین