• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رمضان المبارک رحمتوں، برکتوں، ابتلا وعذاب سے نجات اور مغفرت کا مہینہ ہے مگر اس بار پاکستان کےلئے رمضان ماہ ِ امتحان بن گیا ہے۔ مہنگائی اورلوڈشیڈنگ کے تو لوگ عادی ہوگئے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ حکمرانوں کےدعوے اپنی جگہ مگر یہ ذخیر اندوزوں، ناجائز منافع خوروں اور گراں فروشوں کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں نہ 480 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی باوجود لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنے کے اہل، بجلی کے بل دوگنے ہوگئے اور لوڈشیڈنگ میں اضافہ ؎
’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘
اب وفاقی وزیر عابدشیرعلی نے مژدہ سنایا ہے کہ سحروافطاراور تراویح کے اوقات میں لوڈشیڈنگ نہ ہوگی۔ کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ پاکستانی عوام کا امتحان شمالی وزیرستان سے کم و بیش چھ لاکھ افراد کی نقل مکانی سے شروع ہوا ہے جنہیں اچانک گھر چھوڑنے کا حکم ملا اور اتنی کم مدت میں کہ ابھی تک کئی خاندان گھروں سے نکل نہیں پائے اور جو نکلے انہیں سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ جہاںسینگ سمائے نکل گئے۔
گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک وزیرستانی باشندے عابد خان کی تصویر زیربحث رہی جو کرایہ نہ ہونے کے سبب میلوں پیدل چل کر بنوں پہنچا اور بے ہوش ہوگیا۔ مزید کتنے عابدخان رستے میں بے ہوش و بے سدھ پڑے ہیں کسی کوخبرنہیں کیونکہ کسی کی بنوں سے آگے رسائی نہیں اور بنوں سےپہلے قائم کیمپوں کا حال بھی کوئی نہیں جانتا کہ کس حال میں ہیںیارانِ وطن۔
شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے غیرت مند، خوددار اور شریف شہریوں کی بڑی تعداد بنوں یا شمالی وزیرستان روڈ پرقائم کیمپوں کی بجائے اردگرد کے علاقوں ہنگو، کرک، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان اور کوہاٹ میں اپنے عزیز و اقارب کی مہمان ہے ، کرائے کے مکانوں یا ہوٹلوں میں مقیم کیونکہ ٹھنڈے علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان گرم مزاج قبائلیوںکے لئے 46سینٹی گریڈ درجہ حرارت (لاہور سے زیادہ گرم) والے شہر بنوں کے کیمپوں، سکولوں، پارکوں میں اپنے شب و روز بسر کرنا مشکل ہے جہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ عروج پر ہے، پانی کی قلت اور راشن حاصل کرنے کے لئے قطاربندی کی ذلت۔
جب آپریشن کا منصوبہ جنوری فروری میں بن گیا تھا تو نقل مکانی کرنے والوں کے لئے پیشگی انتظامات نہ کرنے کاذمہ دارکون ہے ؟ اب یہ سوال پوچھنے کا موقع نہیں مگر دعوئوں کے برعکس مہاجرین اور پناہ گزینوں کے لئے سرکاری سہولتیں ناکافی ہیںاور حکومت ایک زوردار مہم کے ذریعے ملک کے صاحب ِ ثروت اور اہل خیر کو بھی متحرک کرنےمیں سوفیصدناکام رہی ہے۔ 2005 کے زلزلہ اور 2010کے سیلاب کے دوران ہر گلی، سڑک، مارکیٹ اور مسجدمیں متاثرین کی مدد کےلئے اپیل کی صدا گونجتی تھی اور سڑکوں پر امدادی قافلے رواں دواں، ہر سو جوش و ولولہ تھا اور ہر شخص ایثار و قربانی کا پیکر مگراب؟
ملک ریاض کااللہ بھلا کرے اس نے پچاس کروڑ روپے کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا اور ایک لاکھ افراد کی کفالت کی حامی بھرلی۔ ملک کے 472 امیرترین خاندانوں سے اپیل بھی کی کہ وہ آگے بڑھیں اور مواخات ِ مدینہ کی یادتازہ کریں۔ انہوں نے خلافت تحریک کا حوالہ دیا جب ہندوستان کاہر مردوزن اپنے ترک بھائیوں کی امداد کے لئے بے تاب نظرآتا تھا مگر ان 472 خاندانوں میں سے کسی نےآج تک لبیک نہیں کہا۔
یہ 472 خاندان کون ہیں؟ وہ جنہیں عوام اور ملک کی مقتدر قوتوںنے بار بار اقتدار و اختیار سےنوازا۔ ریاست کے جملہ وسائل سے مستفید ہونے اور اپنی کئی نسلوں کا مستقبل سنوارنے کاموقع فراہم کیا، ان کے اندرون و بیرون ملک اثاثوں، بنک بیلنس اور کاروبار میں ہوشربا اضافہ ہوا اور برطانیہ، سپین، سوئٹزرلینڈ سمیت کئی ممالک کے لوگ اور باخبر ادارے اعتراف کرتے ہیں کہ ان ریاستوں اور قوموں کی ترقی و خوشحالی ان پاکستانی حکمرانوں اور ان کے حواریوںکی کمائی اور لائی ہوئی دولت کی مرہون منت ہے۔
قصور اس ملک میں پرائیویٹائزیشن کے طفیل ارب پتی بننےاور ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی ، ٹیکس چوری، ملاوٹ، سمگلنگ اور دیگرغیرقانونی کاروبار کے ذریعے برلا، ٹاٹا، لکشمی متل اور جندال کی مالی برابری کرنے والوںکا نہیں وہ اپنے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کو دیکھتے ہیں جو ہمیشہ سے حلوائی کی دکان پر ناناجی کی فاتحہ پڑھنے کے عادی ہیں اور اپنی نیک کمائی سے ایک دمڑی دینے کا روادار نہیں۔ الناس علیٰ دین ملوکہم۔
ارشاد خداوندی ہے ’’تم اپنی خیرات اعلانیہ دو تو یہ کیا ہی اچھی بات ہے اور اسے چھپائو اور غریبوں کودے دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے‘‘ مگر عشروں سے دولت اکٹھا کرنے اور عوام کاخون چوسنےوالے 472 خاندانوں میں سے کسی نے اب تک اعلانیہ یا چھپ کر ان لوگوں کی دستگیری نہیں کہ جو بیٹھے بٹھائے غریب الدیارہوگئے، بے وطن اور مسکین۔ انہیں شاید احساس نہیں کہ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کا دارومدار شمالی وزیرستان پر پاک فوج کے مکمل کنٹرول اور رٹ آف گورنمنٹ کی بحالی پر نہیں ان پانچ چھ لاکھ خوددار، دلیر اورعزت نفس کے معاملے میں حساس قبائلیوں کے جذبات و احساسات پر ہے جو غریب الوطنی کے دنوں میںجنم لیں گے اور ایک پوری نسل کی ذہنی ساخت میں مددگار ثابت ہوںگے۔
اگر کیمپوں میں، عزیزو اقارب کے ہاں دورانِ قیام ان کی عزت ِ نفس مجروح ہوئی، انہیں ہاتھ پھیلانا پڑا، کسی احساس محرومی کا سامنا کرنا پڑا اور بحالی کے مرحلے پر ہمارے شہروں میں متوسط طبقے کو حاصل سہولتوںکے برابر سہولتیں اور مراعات نہ ملیں تو وہ وہ کہانیاں جنم لیں گے اور افسانے سینہ بہ سینہ سفر کریں گے کہ اللہ کی پناہ۔ وہ معاشرتی اونچ نیچ، اشرافیہ کے ر ہن سہن، ریاستی وسائل پردسترس اور بے آسرا، لاچار، غریب الدیار قبائلیوں سے لاتعلقی کا مشاہدہ بچشم خود کرچکے ہیں اس لئے غلطی کی گنجائش نہیں۔
یہ اس ریاست کے عوام اور حکمرانوں کے لئے بہت بڑی آزمائش اور مشکل ترین امتحان ہے جو رمضان المبارک میں درپیش ہے۔حکمرانوں کے علاوہ لاہور، چنیوٹ، کراچی، نواب شاہ، ملتان اورلکی مروت کے سیٹھوں، تاجروں، ساہوکاروں اور مالداروں کو آگے بڑھ کر اپنا فرض ادا کرنا چاہئے۔ اس وقت کا انتظار ہرگز نہیں کرنا چاہئے جب سارے مفلس، نادار ، بیمار، بھوکے، مظلوم، محروم مل کر اپنا حصہ زبردستی وصول کرنے پرتل جائیں۔ اب تک تو فوج اشرافیہ کو ان کے عتاب سے بچاتی اور ہر بغاوت کو فرو کرتی چلی آر ہی ہے مگر بار بار اورہر باروہ یہ کام کرنے سے رہی۔ یہی بے حسی، غفلت، لاپرواہی اور سنگدلی جاری رہی تو خطرہ ہے ؎
ہر گھر سے بھوکا نکلے گا تم کتنے بھوکے مارو گے
تازہ ترین