• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وسیع خطے اور پاکستان کے پڑوس میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات میں ہمارے ملک کی سلامتی سے متعلق اہم مضمرات پنہاں ہیں جن کا محتاط انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے کسی بھی غیر مستحکم کرنے والے اثرات سے موثر انداز میں نمٹا جاسکے۔عراق کے بحران کی وجہ سے علاقائی عدم استحکام کا خطرہ بہت بلند ہوچکا ہے۔ شدید فرقہ وارانہ تقسیم نے اس بحران کو مزید ہوا دی اور عراقی فوج دولت اسلامیہ فی العراق و الشام (آئی ایس آئی ایس) کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ عرب بادشاہتوں اور ایران کے درمیان علاقائی اثر و رسوخ کی جنگ نے اس پیچیدہ بحران کو اور زیادہ بڑھاوا دیا ۔ادھر ملک سے قریب افغانستان میں ایک سیاسی طوفان جنم لے رہا ہے جہاں صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کی ساکھ کو دھاندلی کے الزامات سے چیلنج کردیا گیا ہے، جس سے ایک ایسے وقت عدم استحکام کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں جب افغانستان کو انتہائی اہم منتقلیوں سے گزرنا ہے کیونکہ مغربی فورسز کا لڑاکا مشن ختم ہونے کی ڈیڈلائن نزدیک آتی جارہی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی مشرقی سرحد پر بھی ایک غیر یقینی منڈلا رہی ہے کہ نریندرا مودی کی زیر قیادت حکومت کے تحت بھارت سے تعلقات کس طرح استوار ہوں گے۔بیرونی ماحول ایک ایسے وقت بدل رہا ہے جب پاکستان اندرونی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہے،خصوصاً فوجی آپریشن کے بعد جو شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور کمیں گاہوں کے خلاف شروع کیا گیا ہے۔ یہ فوجی صلاحیت اور سویلین عزم کا امتحان لے گا اور اس کے ساتھ ساتھ بے گھر ہونے والے افراد اور آپریشن کے اہم مضمرات کو سنبھالنے کی حکومت کی قابلیت کا بھی پتہ چلے گا۔
اس چیلنجنگ صورت حال میں سب سے پہلے تو تین حقیقتوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اول، ہمارے اردگرد زمینی تذویراتی ماحول مسلسل حالت تغیر میں ہے۔ اس وقت معلوم سے زیادہ نامعلوم باتیں ہیں اور اس حوالے سے بہت زیادہ غیریقینی ہے کہ علاقائی صورت حال کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ دیرینہ مسائل کے ساتھ ساتھ اب نئے چیلنج اور خطرات کا بھی سامنا ہے جن سے اگر بخوبی نمٹنا ہے تو انہیں اچھی طرح سمجھنا ہو گا۔ دوم، اس غیر یقینی پس منظر میں یقیناً پاکستان خود سے علاقائی نتائج کو کوئی شکل نہیں دے سکتا لیکن وہ نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش ضرور کرسکتا ہے لیکن اس کے لئے اسے خطے میں بھرپور طریقے سے متحرک ہونا ہوگا اور بڑی طاقتوں کے ساتھ فعال سفارت کاری کرنی پڑے گی جن کے اس خطے میں مفادات ہیں۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے کا کوئی راستہ نہیں۔سوم، پرپیچ علاقائی منظر نامے سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ خود کو اپنے گھر میں محفوظ بنایا جائے اور اس کے حصول کے لئے ایک منطقی و مربوط اور مسلسل پالیسی پر عملدرآمد کیا جائے۔ اس کا کم سے کم مطلب بھی یہ ہے کہ عسکریت پسندی کا سدباب کرنے کے لئے ملکی اتفاق رائے برقرار رکھنا، اپنی سرحدوں کے اندر امن کی بحالی کے لئے فیصلہ کن انداز میں کام کرنا، مستحکم سول ملٹری تعلقات برقرار رکھنا اور معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا۔
جہاں تک بھارت کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہے تو مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے وزیراعظم نواز شریف کا دورہ دہلی دونوں ممالک کے درمیان ازسرنو تعلقات سازی کے عمل میں ایک امید افزا آغاز کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اصل سفارتی امتحان آگے درپیش ہے۔تعلقات کیسے استوار ہوں گے اس کا بڑی حد تک انحصار اس پر ہے کہ مودی کا طاقت پر مبنی قوم پرستی کا اعلانیہ نظریہ کس طرح پالیسی میں تبدیل ہوتا ہے۔ اس کی سخت گیر خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی ٹیم کے انتخاب نے کوئی تسلی بخش پیغام نہیں دیا لیکن مودی کی جانب سے تاحال خارجہ پالیسی ترجیحات یا علاقائی روش کی وضاحت ہونا باقی ہے، اس کے اوائلی دورہ بھوٹان سے قطع نظر جس کا مقصد بھارت کی علاقائی حیثیت کو بہتر بنانا اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا توڑ کرنا تھا۔ کیا مودی کا بھارت کی زبوں حال معیشت کی بحالی پر زور دینا اور کاروباری طبقے کی جانب سے حاصل حمایت انہیں ملکی مسائل پر توجہ دینے اور پڑوسیوں کے ساتھ زیادہ عملی پالیسیاں اپنانے کے لئے مجبور کرتی ہے؟ اس سوال کا جواب بدستور آنا باقی ہے۔ اس سبب اسلام آباد کو دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنانی ہوگی۔
دونوں ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان طے شدہ ملاقات، رابطے کی ان شرائط کا جائزہ لینے کا پہلا موقع فراہم کرے گی جو مودی ممکنہ طور پر پاکستان کے ساتھ اختیار کریں گے۔اگر وہ شرائط تین باتوں دہشت گردی، تجارت اور ممبئی حملوں تک محدود رہیں تو اسلام آباد مذاکرات کو محدود کرنے کی کوشش کی مزاحمت کرے گا اور ایسے وسیع تر امن عمل کی بحالی پر زور دے گا جو دونوں فریقوں کے خدشات و ترجیحات کو ظاہر کرتا ہوگا۔اگر دونوں پڑوسیوں کے درمیان تذویراتی ماحول کشیدہ رہا تو تعلقات کو جزوی یا چنیدہ طور پر معمول پر لانا ناپائیدار ہو گا۔ متنازع امور کو نظر انداز کرنے کے بجائے انہیں حل کر کے حالات معمول پر لانے کے پائیدار عمل بشمول تجارتی و معاشی تعلقات کے قیام کو یقینی بنانا ہو گا کیونکہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ متنازع امور کو حل نہ کیا تو وہ کشیدگیاں پیدا کرنے کے لئے دوبارہ سامنے آجائیں گے اور امن کوششوں کو نقصان پہنچائیں گے۔مستقبل قریب میں افغانستان کا معاملہ تعلقات میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ یہ ایک دیرینہ حل طلب مسئلہ ہے کیونکہ دونوں ممالک نے اس پر کبھی باقاعدہ طور پر کوئی مذاکرات نہیں کئے۔ ایک دوسرے کی تذویراتی نیتوں سے متعلق شکوک و شبہات بڑھ سکتے ہیں کیونکہ دسمبر 2014ء نزدیک آرہا ہے لہٰذا دونوں ممالک کے لئے فوری سفارتی چیلنج یہ ہو گا کہ کس طرح اس مسئلے کو اپنے تعلقات خراب کرنے سے روکا جائے۔اسلام آباد کے لئے اہم ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں جاری رکھے۔ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ پاکستان اپنی مغربی سرحد پر مصروف ہے اور اسے اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھنی ہیں۔جہاں تک افغانستان کا معاملہ ہے تو صدارتی الیکشن کے بعد پیدا ہونے والے تعطل سے سیاسی منتقلی میں خلل پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے جس سے نمٹنے کے لئے دھاندلی کے الزامات کا معاملہ فوری طور پر حل کرنا ہوگا۔اس حوالے سے ایک تازہ پیشرفت واشنگٹن کا دسمبر 2016ء میں زیرو آپشن کا اعلان ہے جو افغانستان سے مکمل امریکی فوجی انخلاء سے متعلق ہے۔ اگر اگلی افغان حکومت کے ساتھ دوطرفہ سیکورٹی معاہدہ (بی ایس اے) طے پاجاتا ہے تو بقایا امریکی فوج تعینات رکھنے کے منصوبے بدستور تیار ہیں۔بی ایس اے طے پاتا ہے یا نہیں اس سے قطع نظر، دسمبر 2014ء کے بعد اور عراقی تجربے سے پیدا ہونے والے نئے خدشات کے ساتھ افغان نیشنل آرمی کی صلاحیت کا امتحان ہوگا کہ وہ طالبان کے حملوں کے سامنے ایک متحد فورس کی صورت میں ٹھہرسکے گی یا نہیں۔
تاہم فوری چیلنج یہ ہے کہ سیاسی منتقلی کو خطرے میں ڈالے بغیر صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے پر پیدا ہونے والے تنازع کو حل کیا جائے۔ اپنے انتخابی حریف پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگا کر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے ووٹوں کی گنتی کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا،الیکشن حکام کے ساتھ تعاون ختم کردیا اور اقوام متحدہ سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے الزامات میں زیادہ تر ووٹنگ ٹرن آؤٹ پر سوالات اٹھائے ہیں جو کہ ایسے صوبوں میں حیرت انگیز طور پر کافی بلند رہا جہاں سیکورٹی کی صورت حال زیادہ خراب تھی۔ایک انتخابی نتیجہ جس کی قانونی حیثیت کو بڑے پیمانے پر قبول کیا جائے، سیاسی منتقلی میں پیشرفت کے لئے بہت ضروری ہے۔ ایک طویل مدتی سیاسی تعطل دیگر منتقلیوں سلامتی و اقتصادیات پر شدید منفی اثرات مرتب کرے گا اور بی ایس اے کا معاملہ مزید تعطل کا شکار ہو جائے گا۔ ان سب سے 2014ء کے بعد غیر مستحکم انجام کے امکانات بڑھ جائیں گے لیکن اگر موجودہ بحران کو حل کرلیا جائے اور حریف امیدوار الیکشن نتائج کو تسلیم بھی کر لیں تو بھی ایک کامیاب سیاسی انتقال اقتدار اس سے زیادہ کا متقاضی ہے۔ اس کے لئے بین الافغان مکالمہ بھی ضروری ہے جو سیاسی گنجائش پیدا کرسکے اور کیا ہی اچھا ہو کہ دسمبر 2014ء کے فوراً بعد لڑائی بھی بند کرواسکے۔
2014ء کے بعد کا ممکنہ لیکن ہولناک منظر نامہ ایک پرتشدد تعطل کا ہے جس میں لڑائی جاری ہو۔ طالبان پورا ملک تو درکنار کابل پر بھی قبضہ کرنے میں ناکام رہیں لیکن ساتھ ہی حکومتی فورسز بھی پورے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے میں ناکام ہوجائیں۔ اس منظر نامے سے بچنے کا سب سے بہترین طریقہ نئی حکومت اور مسلح مزاحمت کے درمیان امن مذاکرات کا ہوگا جس میں گفت و شنید کے ذریعے تصفیے پر پہنچ کر مصالحت پیدا کی جاسکے۔اسلام آباد یقیناً اس بہترین دستیاب منظرنامے کے حقیقی شکل اختیار کرنے کی امید کرے گا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوششوں میں تعاون کرنے پر بھی تیار ہوگا ۔
لیکن واقعات کو ترتیب دینے کی اس کی صلاحیت یقیناً محدود ہو گی لہٰذا اسے سخت سرحدی انتطامات، اپنی اندرونی دفاعی لکیروں کو مضبوط کر کے اور دسمبر 2014ء سے کافی پہلے اپنی سرحدوں میں عسکریت پسندی کو روکنے کے لئے فیصلہ کن اقدامات کر کے کسی بھی بدترین صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ پاکستان کو افغانستان میں کئی منتقلیوں کے ایسے کسی بھی منفی انجام سے خود کو بچانا ہو گا جو عسکریت پسندی کو شکست دینے کی اس کی کوششوں کو رائیگاں اور اس کی سلامتی کو لاحق خطرات میں اضافہ کرسکتا ہے۔ اس میں مہاجرین کا تازہ بہاؤ، تشدد کا باہر نکلنا اور پڑوس میں سیکورٹی خلاء کا پیدا ہونا شامل ہیں۔ پاکستان کو دوطرفہ تجارت میں کمی یا نیٹو کو فراہم کردہ نقل و حمل کی سہولتوں کے خاتمے کی وجہ سے معیشت کے مخصوص شعبوں پر منفی اثرات کی شکل میں کسی بھی ناخوشگوار اقتصادی نتیجے کے لئے بھی تیار رہنا ہو گا۔ پڑوس میں ایک غیریقینی صورت حال اور وسیع خطے میں تیز رفتاری سے جنم لیتی حرکیات کے منفی اثرات کا موثر طور پر جواب دینے کے لئے پاکستان کو خود کو گھر میں محفوظ بنانا ہو گا۔ محض اپنے اندر امن قائم کر کے ہی ملک کسی بھی ایسے عدم استحکام سے نمٹنے کے قابل ہوسکے گا جسے باہر سے ہوا دی جاسکتی ہے۔
ایک حالیہ سیمینار میں دی گئی پریزنٹیشن سے اقتباس
تازہ ترین