• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شریف برادران سے روٹھے جاوید ہاشمی بھی تھے، ناراض چودھری نثار علی خان بھی ہوئے۔ ایک کو ’’ جہاں رہیں خوش رہیں‘‘کہہ کر رخصت کردیا، دوسرے کو منت سماجت کرکے منالیا۔ پیا کے موڈ اور اپنی اپنی قسمت کی بات ہے۔
جاوید ہاشمی کو ناز تھا کہ اس نے دورِ ابتلا میں شریف خاندان کا ساتھ دیا۔ بیگم کلثوم نواز کے ساتھ سڑکوں پر نکلا، لاٹھیاںکھائیں، جلاوطنی کے دنوں میں باقی ماندہ مسلم لیگ کو بکھرنے نہ دیا، ایک خط پڑھنے کی پاداش میں جیل گیا، باغی اور غدار قرار پایا مگر ثابت قدم رہا۔ نثارعلی خان کے نامۂ اعمال میں شریف خاندان سے گہرے تعلق، راولپنڈی کے مقتدر حلقوں سے راہ و رسم اور باریک کام کی مہارت کے سواکچھ نہیں، بات بات پر روٹھنااور پھر خاطر سے یا لحاظ سے مان جانا طبیعت کاخاصہ ہے ۔
نثار علی خان کیوں روٹھے؟ جتنے منہ اتنی باتیں۔ اگر اختلاف اصولی تھاتو اگلے چند دنوں میں پتہ چل جائے گاکہ میاں صاحب کے انداز حکمرانی میں کوئی جوہری تبدیلی واقع ہوتی ہے؟ پرویز مشرف کوکوئی ریلیف ملتی ہے یا نہیں؟ذاتی تھاتو خواجگان مسلم لیگ کی زبان بندی اور جاٹ ارکان اسمبلی اسحاق ڈار کے حضور پذیرائی سے لوگ اندازہ کرلیں گے مگر ڈرامہ خوب تھا۔
اس وقت جبکہ قوم حالت جنگ میں ہے۔ کراچی، پشاور ایئرپورٹ کے واقعات کی وجہ سے بین الاقوامی ایئرلائنز نےآپریشن بندکردیاہے،آپریشن ضرب عضب قوم کے اعصاب پر سوار ہے۔ شمالی وزیرستان کے سات لاکھ مہاجرین روٹی، پانی، چھت، علاج معالجے کو ترس رہے ہیں۔ عفت مآب خواتین کھلے آسمان تلے پڑی اپنی بے پردگی پر پریشان ہیں،زندگی بھر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانےوالے قطاروںمیں لگے شکم کی آگ بجھانےکے لئے راشن وصول کرنے پر مجبور ہیں اور ایک لاکھ مہاجرین سرحد پار کر چکے ہیں جہاں افغان حکومت اور ملّا محمد عمر کے ساتھی ان کی آئوبھگت میں مصروف ہیں مگر حکمران اس صورتحال سے بے نیاز چھپن چھپائی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ وزیراعظم اوروزیر اخلہ میں ’’کٹی‘ ‘ ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب صبح و شام اپنے ہم نالہ و ہم پیالہ وزیر داخلہ کو مناتے پھرتے ہیں۔
شریف برادران کے طرز سیاست اور انداز حکمرانی پر تعمیری تنقیدبھی ہو تو مسلم لیگی دوست برا مناتے ہیں، گاہے تعصب، ذاتی بغض و عناداور مخالفت برائے مخالفت کا طعنہ سنناپڑتاہے مگر نثار علی خان کے معاملے میں جو کچھ دیکھنے، سننے کو ملا یہ لائق تحسین ہے؟ ایٹمی ریاستیں اس طرز حکمرانی کی متحمل ہوسکتی ہیں اورطوفانوں میں گھری قوم اس بازیچہ اطفال پرداد و تحسین کے ڈونگرے برسائے؟
کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیںکیا۔ وزیرداخلہ کو احساس کہ دوستانہ ناز دادا، عشوہ و غمزہ دکھانے، دل کے افسانے ہونٹوں کی زبان پر لانے کا یہ موقع محل نہیں نہ وزیراعظم کو یہ ادراک کہ حالت ِ جنگ میں جو شخص اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے بجائے بچوں کی طرح روٹھ کر گھربیٹھ جائے اسے منانے کے بجائے وزارتی ذمہ داریوں سے سبکدوش کرنا بہتر۔ یہ وقت سر دھڑ کی بازی لگانے اور ملک و قوم کے لئے کچھ کر دکھانے کاہے روٹھنے، منانے کانہیں۔
مگر جب سیاست، ریاست پر غالب آ جائے، ذاتی دوستی تقاضائے حکمرانی اور جماعتیں مصلحتیں قومی مفادات پر فوقیت حاصل کرلیںتو یہی کچھ دیکھنے کو ملتاہے۔ جس وزیراعظم کو سر کھجانے کی فرصت نہیں، چیف الیکشن کمشنر اور کئی دوسرے اداروں کے سربراہ مقرر کرنے کے لئے غوروغوض کا وقت نہیں،جو وزیراعلیٰ اپنے پڑوس میں ہونےوالی فائرنگ بروقت نہیں رکوا سکتا کہ منصبی ذمہ داریوں میں مصروف بہت ہے وہ ایک رات اور ایک دن نثار علی خان کی کتھا سننےاور منت سماجت میں گزار دیتے ہیں۔
1965کی جنگ کے بعدجب ذوالفقار علی بھٹو اور نواب آف کالاباغ امیر محمد خان اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر فیلڈ مارشل ایوب خان سے روٹھے تو ملک میں صنعتی و زرعی ترقی کی بنیادرکھنے اور فوج کو جدیدہتھیاروں، تربیت سے لیس کرنے والے حکمران نے جسے قوم آج تک ’’تیری یاد آئی تیرے جانےکے بعد‘‘ کامصرعہ گنگناکر یادکرتی ہے ان دونوں لائق، فائق، ذہین اور قابل اعتماد ساتھیوں کو رضاکارانہ استعفے کی آپشن دی۔ یہ دونوں بھی ’’اپنوں سے روٹھاجاتا ہے ‘‘ کا روایتی جملہ دہرا کر اسی تنخواہ پر کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے اور باعزت طریقے سے رخصت ہوگئے۔
الطاف گوہر نے اختلافات کے آغاز پر ملک امیر محمد خان سے اختلافات ختم کرکے ایوب خان کے تحفظات دور کرنے کےلئے کہا تو جواب ملا ’’دل کے شیشے میں بال آ جائے جڑتا نہیں‘‘، فیصلہ کرلیاہے تو بدلنا کیا یہ تو کھلی بلیک میلنگ ہوئی۔ ایوب خان کو نواب صاحب کی علیحدگی کا رنج بہت تھا۔ ایک موقع پرالطاف گوہر سے کہا ’’دوستی کا رشتہ بڑا نازک ہوتاہے‘‘، ’’اے تنداں ٹٹیاں جڑدیاں نئیں‘‘ نواب صاحب تین ماہ تک اپنے منصب پر برقراررہنے کےلئے تیار تھےمگر ایوب خان نےکہا ’’دیر کس بات کی‘‘ مابخیر، شما بسلامت۔
شاید یہ غلط یا صحیح اپنے اصولوں، زبان، روایات پر قائم رہنے والے لوگ تھے۔ پہلی ترجیح بہرحال وطن عزیز تھا اور حکمران لگے بندھے ضابطوں اپنے معروضی تقاضوں کے مطابق کرتے تھے۔ ذاتی و جماعتی نفع و نقصان کے بجائے حکومت کے وقار اور ریاستی ذمہ داریوں کو اہمیت دیتے۔ اپنی اور دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھتے اور اختلافات پر منافقت کی ردا لپیٹ کر وقت گزارنے کی کوشش نہ کرتے۔ تعلق بوجھ بن گیا تو توڑ دیا ضرورت کے تحت گدھے کو باپ بنانے سے گریز کیا۔
جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ سے دیرینہ تعلق توڑنے کا فیصلہ کیا تو خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق نے روکا۔ ایوان اقبال سے خواجہ سعدرفیق کے گھر جاتے ہوئے گاڑی میں خواجہ آصف نے میاں نوازشریف سے فون پربات کی۔ ہاشمی کے فیصلے سے آگاہ کیا تو جاوید ہاشمی کے بقول میاں صاحب کا جواب تھا ’’ہاشمی صاحب جہاں رہیں خوش رہیںمیری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں‘‘ خواجہ آصف نے من و عن پیغام پہنچادیا مگر پھر بیگم کلثوم نواز انہیں منانے خواجہ سعدرفیق کے گھر پہنچ گئیں۔ مسلم لیگ کے کارکن اور ہمدرد ہمیشہ جاویدہاشمی کو مطعون کرتے ہیں کہ اپنےقائد کی اہلیہ محترمہ اور اپنی بہن کی منت سماجت پر ان کا دل نہ پسیجا مگرمیاں صاحب کی طرف سے نیک تمنائوں کا پیغام وصول کرنے کے بعد جاوید ہاشمی کے لئے اپنا فیصلہ بدلنا کس قدر مشکل تھا؟ کوئی نہیں جانتا۔
چودھری نثار علی خان کو منانے کے لئے شریف برادران نے جو جتن کئے وہ اس سے پہلے کسی مسلم لیگی کو راضی رکھنے کے لئے نہیں ہوئے۔ جاوید ہاشمی اکیلے بیٹھ کر سوچتے ضرور ہوں گے کہ ان کا اصل قصور کیا تھا؟ پارٹی میں مقبولیت؟ جلاوطنی کے دوران دیوانہ وار جدوجہد؟ قید و بنداور باغی کی شہرت؟ کاش وہ بھی مقدمہ بغاوت کا سامنا کرنے اور اسٹیبلشمنٹ کو سرخ رومال دکھانے کے بجائے آبپارہ اور راولپنڈی سے رابطہ استوار رکھتے اور ان کےرابطوں کی دھوم مچی ہوتی تو 2011 میں انہیں میاں شہباز شریف منانے آتے، میاں نواز شریف گلےلگاتے اور وہ اپنی خوش قسمتی پر پھول نے نہ سماتے۔
مگرکیایہ صلح حقیقی اور پائیدار ہے؟ یاوقت گزاری کا مشغلہ؟ کچھ کہنا مشکل ہے۔سرائیکی میں کہاوت ہے ’’بھانویں رُٹھڑا یار منیج پوے پر چس نئیں رہندی اوہا‘‘ فرزند پوٹھوہار، کچھ بولیں تو؟
تازہ ترین