• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آجکل مسلمان ممالک میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے نام پر نئے نئے جنگجو گروپ وجود میں آرہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ انتہا پسندی کا یہ ’’ نسخۂ کیمیا ‘‘ کہاں سے آرہاہے جس میں اپنی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کا احساس ایک ایسی چبھن بن گیا ہے جس کا اظہار صرف قتل و غارت ہی سے ہوسکتا ہے۔ اب عراق کے افق پر ایک نئی تحریک داعش لال آندھی بن کر ابھری ہے جس نے چند دنوں میں عراق کے کئی اہم شہروں پر قبضہ کرلیا ہےاورابو بکر البغدادی نے خلافت کے احیاء کا اعلان کرکے تمام مسلمانوں سے کہاہے کہ وہ اسے خلیفہ تسلیم کرلیں۔ اس کا لشکر تیزی سے عراق کے دارالحکومت بغداد کی طرف بڑھ رہا ہے... جبکہ مخالفین بھی اس سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے تیار ہورہے ہیں۔
داعش ( دولتِ اسلامیہ عراق و شام ) ایک انتہا پسند گروپ ہے جو عراق کی المالکی حکومت کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ عراق میں تیسرا کردار کردوں کا ہے۔ جنھوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے عراق سے اپنی مکمل علیحدگی ( آزادی )کا اعلان کردیا ہے۔گویا اس انتہا پسندی نے عراق کو تین حصّوں میں تقسیم کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے جو یقیناً کسی بڑی طاقت کا ایجنڈا ہے جسے شدّت پسند پورا کررہے ہیں۔ مسلم دنیا میں گزشتہ ایک عشرے سے جو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ ایک ڈرائونی فلم کی طرح لگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی دشمن طاقتوں نے کوئی ایسا ’’ خفیہ بٹن‘‘ دبا دیا ہے کہ مسلمان خود کو ہی تباہ کرنے پر تل گئے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک ایسا تیر بہدف نسخہ آگیا ہے کہ غیر مسلموں کی بجائے مسلمان خود ہی مسلم دنیا کے جانی دشمن بن گئے ہیں۔ یہ ’’ خفیہ بٹن ‘‘ اور ’’ تیربہدف نسخہ ‘‘ مذہب اور سیاست کی آمیزش ہے جس سے مسیحی دنیا تو دامن بچاکر گزر گئی ہے لیکن مسلمانوں کواس میں مبتلا کردیا گیاہے۔۔
عوام آج سے پہلے مذہبی ریاست اور مذہبی سیاست کے بارے میں گومگو کی حالت میں تھے۔ بعض لوگ مذہب اور سیاست کے ملاپ کو دونوں کے لئے نقصان دہ سمجھتے تھے تو بعض اعتدال پسندی کے نام پر مذہب اور سیاست کے ملاپ کو ایک بہتر آپشن خیال کرتے تھے۔ لیکن ہم آج تاریخ کے جس عہد سے گزر رہے ہیں اس میں اس حقیقت کو جھٹلانا کسی طرح بھی ممکن نہیں رہا کہ یہ ملاپ کسی بھی صورت میں خیر یا فلاح وہ بہبود کا باعث نہیں بن سکتا۔ جب کلیسا کی حکمرانی تھی تو یہ جنون کبھی مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کی شکل اختیار کر لیتا تھا اور کبھی عیسائی فرقوں کے درمیان خونریز تصادم بن جاتا تھا۔ گزشتہ کئی عشروں سے مسلمان بھی اس خونیں ملاپ کی نذر ہوگئے ہیںاور یہ دوراس کی کلاسیکل شکل ہے۔ اس میںکسی مذہب کی تعلیمات کا قصور نہیں کیونکہ دنیا کے تمام ضابطہ ہائے اخلاق اور آفاقی سچائیاں مذاہب کی عطا کردہ ہیں۔ جن کی وجہ سے دنیا نے فلاح پائی ہے۔ اسے مذہب کا نام لئے بغیر ہی نافذ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جب اسے مذہبی حوالوں سے بیان کیا جائے گاتو فرقہ وارانہ اختلافات بھی پیدا ہوں گے۔ جس کا مظاہر ہ پاکستان سمیت ہر اسلامی ملک میں ہورہا ہے۔ داعش کی شکل میں تو یہ جنگ دنیا کے ہر اسلامی ملک میں پھیل سکتی ہے ۔
کاش مسلمان ایک دوسرے سے برسر پیکار ہونے کی بجائے عملی طور پر مذہبی تعلیمات کا مظاہر ہ کریں ۔ جو ہمیں اعتدال پسندی ، عفو، درگزر اور دوسروں سے محبت کرنا سکھاتی ہیں اور سیاست سے مذہب کو علیحدہ کردیں۔
تازہ ترین