• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بچے قوم کامستقبل ہوتے ہیں۔جو قومیں اپنے بچوں سے اغماض کرتیں ہیںانہیں تعلیمی اور صحت مند ماحول مہیا کرنے کی بجائے بھکاری بننے پر مجبور کردیتی ہیں وہ بھکاریوں کی قومیں بن جاتی ہیں۔پاکستان میں بچوں کی صحت مند سرگرمیوں کے ماحول کیلئے عوامی اور سرکاری سطح پر کچھ بھی کرنے کا کلچر بنا ہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے خوشحال فیملیز سے وابستہ بچوں کی ایک تعداد نارکوٹکس میں پناہ ڈھونڈ تی پائی گئی ہے۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں نشے میں ڈوبے میل فیمیل بچوں بڑوں کی تعداد 80 لاکھ کے قریب ہے جو تین فیصد سے بھی زائد ہے لمحہ فکریہ مگر کس کے لئے ۔عوامی سطح پر اس مرض سے بچنے کیلئے کسی کی سوچ نہیں ۔این جی اووزکی بہت بڑی تعداد نارکوٹکس کے نام پر دنیا بھر سے درد رکھنے والوں سے امداد وصول کرتی ہیں مگر وہ تمام رقوم اپنی بھاری تنخواہوں اور سہولیات پر خرچ کرڈالتی ہیں اور مقصد کو محض نعرہ کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ دکھاوے کا نیٹ ورک اور جعلی کاروائیوںکے ویڈیوز دکھا کر سرمایہ بٹورنے کے علاوہ کوئی مثبت کام نہیں ۔ معاشرے میں کچھ این جی اووز کے متعلق رائے ہے یہ نار کوٹکس کے سوداگروںسے ملی ہوئی ہیں یا ان کے کرتا دھرتا خود نارکوٹکس کے دھندے میں ملوث ہیں۔غربا ء اپنے بچونکو تعلیم دلوانے کی سوچ سے عاری ہیں وہ انہیں اپنی آمدنی کا ذریعہ اور اپنا سہارا بناتے ہیں اور بچپن سے ہی انہیں لیبریا بھیک جیسے کاموںمیں ڈالنے کو ترجیح دیتے ہیں ،جہاں وہ جنسی ،ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار بنتے ہیں۔ اپنے سے بڑوں کو سگریٹ کے کش لگاتے دیکھ کر خود بھی لگانے لگتے ہیں ۔سگریٹ نارکوٹکس کا گیٹ وے ہے ساری دنیا میں سموکنگ کے خلاف مہم جاری ہے مگر پاکستان میں یہ سستے اور سرعام بیچے اور پیئے جاتے ہیں۔پاکستان میں بھکاری ایک پیشہ بن چکا ہے ۔کسی بھی بڑے شہر کے ٹریفک اشارے پر بھکاریوں کی یلغار کا سامنا کرنا گاڑی، بائیک چلانے والے کا معمول ہے ۔
بچے ،معذور افراد بوڑھے مرد وزن ،اصلی نقلی زخم و خواجہ سرا۔گاڑی میں بیٹھے انسان کا دل دکھی کرجاتے ہیں ،کسی کو تھوڑے سے پیسے دینا اس مسلئے کا حل نہیں لہذا ہر انسان اپنے دکھی دل کے ساتھ آگے بڑھ جاتا ہے اور اپنے معمول کا حصہ بن کر اس حقیقت کو بھلانے کی کوشش کرتا ہے یہ مانگنے والے بھی آخر انسان ہیں اوربھیک جیسے پیشے سے منسلک کیوں ہیں ۔ایک مصدقہ اور مستند رائے ہے اس بزنس کے ڈائیریکٹر بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں اور بڑی بری گاڑیوں میں بیٹھ کر اس کاروبار کو کنٹرول کرتے ہیں ۔چھوٹے شہروں دیہاتوں سے بھکاری بڑے شہروں میں ایک منظم انداز سے لائے جاتے ہیں اور اور پھر انہیںبڑی مہارت سے چوکوں چوراہوں میں پھیلا دیا جاتا ہے ۔اس کاروبار میں اضافے کی وجہ ناخواندگی ،شرح پیدائش میں اضافہ اور حکمرانوں کی عدم تو جہی ہے۔ جس وجہ سے پاکستان میں چائلڈ لیبر اور بھکاریوں میں اضافہ ہو رہاہے۔
میڈیا کے توسط سے ہونے والے ایک سیمینار کے مطابق پانچ اور چودہ برس کے بچے ہماری آبادی کا 30%ہیں جن میں 33ملین بچے چائلڈ لیبر سے منسلک ہیں۔ دیہی علاقوں میں یہ شرح شہروں کی نسبت 8%زیادہ ہے۔ جن تک نہ تو کسی این جی اواور نہ ہی سرکاری مشینری کی رسائی ہے ۔تعلیم کے بعد بھی روزگار کا نہ ملنا غرباء کو تعلیم سے دور لے جارہا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کی بجائے لیبر اور بھیک جیسے پیشوں سے منسلک کرنا بہتر گردانتے ہیں ۔ہمارا آئین قانون صرف وضاحتوں اور تشریحات تک محدود ہے اور عوام کو deliverکرنے سے ناکام دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کا موئقف تعلیم کے بغیر چائلڈ لیبر اور بھیک جیسے دھندے پر قابو نہیں پایا جا سکتا ۔مروجہ تعلیم سے بھی ایسا نا ممکن ہے ۔معیاری تعلیم اور روزگار کے وافر مواقع کے بغیر ایسا ناممکن ہے ۔غربت چائلڈ لیبر کی وجہ سے نہیں ،چائلڈ لیبر غربت کی وجہ سے ہے،روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔غیرمعیاری اور non productiveنظام تعلیم وسائل میں اضافہ کرنے سے قاصر ہے ۔معیاری نظام تعلیم اور درست حکومتی اقدامات وسائل میں اضافہ کا سبب بنیں جس سے روزگار کے مواقعہ پیدا ہو ں ۔تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار ملیگا تو وہ آنے والی نسلوں کے لئے قابل تقلید مثال بنیں گے ۔وسائل سے محروم والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں گے ،بچے بہتر مستقبل کا خواب دیکھیں گے اور تعلیم میں دلچسپی لیں گے ۔غربا کے ماحول میں ایک پڑھے لکھے نوجوان کو نوکری نہیں ملتی تو سارے محلے کے والدین اور بچوں کے لئے تعلیم سے دوری کا سبب بن جاتا ہے۔بچوں کے حقوق کے متعلق اقوام متحدہ نے کنونشن برائے حقوق اطفال بلا کر چارٹر تو بنا رکھاہے مگر اس پر کہاں کہاں عمل درآمد ہو تا ہے اقوام متحدہ بھی یہ دیکھنے میں ناکام ہی نظر آتا ہے ۔ویسے تو اقوام متحدہ کا کام راہنما اصول بتا نا ہے عمل درآمد مقامی حکومتوں کا کام ہے مگر پھر بھی اسے ان ممالک کی حکومتوں پر نظر رکھنی چاہئے اور دبائو بڑھاتے رہنا چاہئے جو اپنے عوام کے متعلق کچھ کرنے سے پہلو تہی اختیار کئے ہوئے ہیں۔پاکستان میں بچوں کے حقوق کے متعلق چائلڈ کمپلینٹ سنٹر تو موجود ہے اور بہت سی این جی اوز بھی کام کر ری ہیں مگر ان سب کا کام اقوام متحدہ اسکے ذیلی اداروں اور خیراتی ادروں سے فنڈز لینے ،نمائشی اقدامات کرنے بچوں کے عالمی دن منانے اورفنڈزکی خرد برد اور اپنی زندگیوں کو پُر تعیش بنانے تک محدود ہے ۔فرائض کا چیپٹر ان سب نے ریشمی رومال میں لپیٹ کر الماریوں میں چھپا رکھا ہے۔
تازہ ترین