• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کشمیریوں کوآزادی کی جنگ لڑتے سات دہائیاں بیت گئیں۔ بھارت جبروتشدد میں حدیں پارکرچکا۔ انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جہوریت کے ٹریک ریکارڈ کونرم سے نرم الفاظ میں بھی شرمناک ہی کہا جاسکتا ہے۔ کشمیریوں کاناطقہ بند کرنے کیلئے سات لاکھ سے زائد بھارتی سپاہ وادی میں موجود ہے۔ تشدد،اغوا،اور قتل کی آرڈر آف دی ڈے ہے، کشمیری سرفروش جس کا سامنا نہایت جوانمردی سے کررہے ہیں۔ ایسے میں حواس باختہ قابض سپاہ اس کے جذبہ حریت کوکمزور کرنے کیلئے گھٹیا قسم کے غیر اخلاقی حربے استعمال کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتی۔ خواتین کی بے حرمتی اور آبرو ریزی کا ہتھیار کے طور پر استعمال ماضی میں بھی کیا جاتا رہاہے اور آج کاکالم اسی نوعیت کے ایک شرمناک واقعہ کے حوالے سے ہے۔ جس میں بھارتی فوجی سورما براہ راست ملوث تھے۔ ستمبر1997کی ایک صبح راولپنڈی کے ایک اسپتال میں کوئی اللہ کا بندہ ایک باوقار سی ادھیڑ عمر خاتون چھوڑ گیا تھا ۔ جو کئی دنوں سے اسلام آباد کے آبپارہ چوک میں بے
مقصد گھوم رہی تھی۔ جوکبھی ہنستی تھی، کبھی روتی، اور کبھی گھنٹوں شستہ انگریزی میں خود کلامی کرتی۔ اسپتال والوں کو بھی اس پر ترس آگیا، جونہ صرف اسے رکھنے پر آمادہ ہوگئے، علاج معالجہ بھی دلجمعی سے کیا۔ اور یوں تھوڑے ہی عرصے میں وہ بہت بہتر ہوگئی۔ راقم کو وہیں اس سے ملنے اور تفصیلی گفتگو کاموقعہ ملاتھا۔
خاتون کانام مہتاب بیگم تھا، جسے گھروالے پیار سے ماہو کہتے تھے۔ ماہو مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ایک چھوٹے سے گاوں چک سید پور میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی۔تاریخ میں ماسٹرز کررہی تھی کہ خالہ کے بیٹے سے شادی ہوگئی، جس کاسری نگر میں پرنٹنگ کاکاروبار تھا ۔ اگلے برس بیٹے کی ماں بن گئی اور ساتھ اننت ناگ کے گرلز کالج میں لیکچررشپ مل گئی۔ دور دراز جگہ، دشوار راستے اور کنبہ منقسم بہت پریشانی اٹھائی ۔ خدا خدا کرکے برسوں بعد سری نگر کالج میں تبادلہ ہوا، توبے حد خوش تھی کہ مدت بعد فیملی کو اکھٹے رہنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ کالج گئیں تو پرنسپل نے روایتی خیر مقدمی جملوں کے علاوہ ایک بات زور دے کرکہی کہ تم اننت ناگ سے آئی ہو، وہ ایک دیہاتی جگہ تھی۔ یہاں کی بات اور ہے ، ساری ریاستی ایلیٹ کی بچیاں اس کالج میں پڑھتی ہیں۔ سنا ہے کہ تم کچھ ریسرچ مائنڈ ہو، دور کی کوڑی لاتی ہو، ہم سرکاری ملازم ہیں، رزق لگا ہوا ہے۔ زیادہ ڈیپ جانے کی ضرورت نہیں۔ نصابی لیکچرز دو اور مزے کرو۔ ماہو نے ترنت جواب دیا کہ میں ایک استاد ہوں بچوں کی رہنمائی میرا فرض ہے۔ تاریخ کی نصابی کتب میں نے دیکھی ہیں۔ ٹوٹلی ڈسٹارٹڈ ہیں۔ سوتاریخ کے نام پر طوطا مینا کی کہانی تونہیں سنا سکتی۔ پہلے ہی دن فورتھ ایئر کا تاریخ کا پیپر تھا ۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی بات چلی تو کلاس کوبتایا کہ بھارت نے دیسی ریاستوں کیلئے الحاق کے طے شدہ اصولوں کی خلاف ورزی کی تھی۔ اور مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاویز پر دستخط بھی زبردستی کروائے تھے۔ جس سے ریاست میں امن وامان کی صورت حال پیدا ہوگئی اور اکثریتی آبادی یعنی مسلمانوں نے ا حتجاج شروع کردیا تھا ایسے میں وائسرائے نے الحاق کی دستاویز پر لکھا تھا کہ اسکی نوعیت عارضی ہے۔ امن وامان کی صورت حال بہتر ہوتے ہی ریاست میں استصواب رائے ہوگا۔ اور یہی یقین دہانی وزیر اعظم جواہرلعل نہرو نے اپنے پاکستانی ہم منصب لیاقت علی خاں کے نام 31اکتوبر1947کے خط میں بھی کرائی تھی ۔
ماہتاب کے اس لیکچر سےسری نگر میں توگویا بھونچال آگیا۔ غضب خدا کا ایک مسلمان ٹیچر نئی نسل کے ذہنوں کوسب ورٹ subvert کررہی ہے۔ اس کا یہ فعل بغاوت قرار پایا۔چیف منسٹر، پوری کا بینہ اور انتظامیہ سرجوڑ کربیٹھی اور نوکری سے برخاستگی کا پروانہ ماہو کورات کے تین بجے گھرپر ڈیلیور کیا گیاتھا اور یہ تو محض ٹریلر تھا ، ریاستی مشینری توماہو کے پورے خاندان کوتباہ کرنے پر تلی بیٹھی تھی۔ شوہر پر الزام لگا کہ اگر وادیوں کیلئے کام کرتا ہے اوران کا لٹریچر اسکے پریس میں چھپتا ہے اور ایک شام وہ ایسا گم ہوا کہ کچھ علم نہ تھا کہ زمین نگل گئی یا آسمان نے اچک لیا۔ پھر پتہ چلا کہ بی ایس ایف والے اٹھالے گئے ہیں۔ جہاں سے اسکی لاش ہی واپس آسکی۔ مہتاب کیلئے اب سری نگر میں ٹھہرنا ناممکن تھا ، شوہر بھی چلا گیا اور روزگار بھی نہ رہا ۔ چنانچہ چک سیدپورہ میں ماں باپ کے گھر لوٹ آئی۔ بیٹے کو مقامی اسکول میں داخل کرادیا اور خود ٹیوشن سینٹر کھولنے کی تیاری کرررہی تھی ، تاکہ بوڑھے والدین پر بوجھ نہ بنے۔
مگر بی ایس ایف والوں نے وہاں بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا گائوں کے قریب شوپیاں میں متعین22 Grenadiers یونٹ کی ڈیوٹی لگی کہ اس باغی کنبہ پر نظر رکھے اور پھر10اکتوبر1992کی وہ منحوس گھڑی آگئی۔ مذکورہ یونٹ کے سورما اگر وادیوں کی تلاش کے بہانے آدھی رات کو مہتاب کے گھرپر چڑھ دوڑے یہ تو محض بہانہ تھا ، وہ توکسی اور ہی مشن پر آئے تھے ۔ مہتاب کی حق گوئی کا حساب ابھی چکتا نہیں ہوا تھا ۔ ابھی ایک اور قیامت ان پر ٹوٹنا تھی۔ متاثرین کی تعداد نوتھی۔ جس میں معصوم بچیاں بھی تھیں اور سن رسیدہ عفیفائیں بھی اور ستم بالائے ستم کہ درندوں نے ماہتاب کے اکلوتے بیٹے کوبھی شہید کردیا تھا ۔ یہ صدمات اسے پاگل بنانے کیلئے کافی تھے ۔ صحتیاب ہونے کے بعد وہ چپکے سے اسپتال سےچلی گئی تھی۔ اور پھر ایسی غائب ہوئی کہ دوبارہ دکھائی نہیں دی۔ بس افواہیں پیچھے چھوڑ گئی۔ کسی نے کہا کہ مظفر آباد میں دیکھی گئی ہے کسی نے دریائے جہلم سے ملنے والی ایک لاوارث لاش کواسکے ساتھ منسوب کردیا، تو کسی نے یہ انکشاف کیا کہ اس حلیے کی ایک عورت وادی نیلم کے کسی سرحدی گاوں میں دیکھی گئی ہے اور یہ بھی کہاگیا کہ جدھر سے آئی تھی، ادھر لوٹ گئی۔ غرض جتنے منہ، اتنی باتیں ،مگر اس اندوہناک داستان کی صداقت سے انکار یوں ممکن نہیں کہ انسانی حقوق کے موقر امریکی ادارے ’’ایشیا واچ کی رپورٹ میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔


.
تازہ ترین