• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1917 ء میں انگریزوں نے بیت المقدس و فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد کیا تھا ۔ کوئی ایک دو دن کی بات نہیں ، ایک صدی کا قصہ ہے ، جی ہاں سو سال ہونے کو ہیں مسلمانوں کا قبلہ اول یہودیوں کے قبضے میں ہے ۔ ان سو سالوں میں ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا ۔
پچھلے ایک ہفتے سے جس بربریت کا مظاہرہ اسرائیل کر ر ہا ہے ۔ جارحیت کی انتہا کو بپتا کی شکل دینے کے لیے لغت میں مناسب الفاظ میسر نہیں ۔میں نے سوشل نیٹ ورک پر اسرائیل کے جبر کا شکار مسلمان بچوں کی تصاویر آویزاں کیں ۔ خواتین کے پیغامات موصول ہوئے ’’ بھائی خدا کے لئے تصاویر بدل دیں ، ہم سو نہیں پا رہی ‘‘ میں نے تصاویر تبدیل کر دیں ۔ یقیناً میری بہنیں نازک دل کی ہوں گی ، مظالم کی تصاویر دیکھ کر ان کا چین لٹ گیا ہو گا ۔ میں سوچوں میں گم ہو گیا کہ ہمیں ایک تصویر نے بے چین کر دیا ، مگر جہاں ایک نہیں درجنوں پھول جیسے چہرے بے گور و کفن پڑے ہیں ان کی مائیں اور بہنیں کس کیفیت میں ہوں گی ۔ رمضان کی ان با برکت ساعتوں میں ان پر کیا گزر رہی ہو گی ۔ وہ سحری کر پاتی ہوں گی ؟ افطاری کے وقت کوئی کھجور ان کے حلق سے نیچے اترتی ہوگی ؟
انٹرنیٹ پر انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے والی 20 سالہ بیٹی عصمت الحاج کی چیخ و پکار سنی نہیں جا رہی ۔ جو کہتی ہے گزشتہ پانچ سالوں میں یہ تیسرا حملہ ہے ۔ پہلی جنگ میں اسرائیلیوں نے کہا ہمارا ہدف عسکریت پسند ہیں ۔ دوسری میں ان کا موقف تھا کہ حماس کے اسلحے کے ذخائر ہمارا نشانہ ہیں اور اب ، اب یہ کہہ کر اس کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں وہ کہتی ہے اب ’’ ان کے پاس کوئی واضح مقصد نہیں ، وہ تمام نہتے فلسطینیوں کو مارنا چاہتے ہیں ۔ وہ کہتی ہے ہم رات کو جوتے اتار کے نہیں سوتے کہ حملے کی صورت میں کہیں محفوظ ٹھکانے تک پہنچنے میں دیر نہ ہو جائے ۔ اسرائیل کا وزیر اعظم نیتن یاہو امریکی صدر بارک اوبامہ کے دکھاوے کے بیان کہ ’’ جارحیت کو روک دو ‘‘ کا انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے جواب دیتا ہے کہ تنازعہ ( قبضہ برقرار رکھنے کے لئے ) کے خاتمے تک ابھی ہمیں مزید بہت کچھ کرنا ہے ۔ ‘‘ یعنی ابھی کئی اور معصوموں کے گلے کاٹنے ہیں ۔معروف صحافی نوم چومسکی کہتے ہیں ’’اسرائیل کے پاس دنیا کے جدید ترین زہریلے ہتھیار ہیں ۔ وہ یہ ہتھیار جدید ترین جنگی طیاروں اور بحری جہازوں سے فلسطینیوں کے گنجان آباد کیمپوں ، بازاروں ، سکولوں ، مسجدوں پر گراتا ہے ۔ وہ فلسطینی جن کے پاس اپنے دفاع کے لیے کسی قسم کے کوئی ہتھیار نہیں ، کوئی فوج ، کوئی توپ خانہ ، کوئی ہوائی جہاز ، کوئی بحری بیڑے ‘‘ کچھ بھی نہیں ۔ یہ جنگ نہیں ہے ، یہ ایک منظم نسل کشی اور قتل عام ہے ۔ ‘‘
علامہ اقبال نے کہا تھا ’’ یہ مسلمان جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود ‘‘جارج گیلوے مسلمان تو نہیں مگر شاید ہی کوئی موقع ہو کہ وہ مسلمان حکمرانوں سے بہتر انداز میں نہ بولا ہو ۔ گیلوے مسلمان حکمرانوں سے سوال کرتا ہے ’’کوئی بھی عرب یا مسلمان رہنماء فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے ؟ یا انگلی تک کھڑی کی ہے؟ عرب ملکوں کے حکمران کہاں ہیں؟عربوں کے قتل کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ مصر کا نیا ناصر، جنرل سیسی کہاں ہے؟میں عرب مسلمانوں ان کے رہنمائوں سے خلوص نیت سے سوال کر رہا ہوں کہ آپ کو شرم نہیں آتی؟اپنا محاسبہ کر لو اس سے پہلے کوئی تمہارا محاسبہ کر دے ‘‘۔شاید گیلوے کو نبی کریم ﷺ کا فرمان معلوم نہ ہو کہ جب آپ ﷺ نے کہا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب ساری دنیا کی قومیں امت مسلمہ پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکا دسترخوان پر ‘‘ آپ ﷺ نے سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ ’’ ایسا اس لیے ہو گا کہ یہ موت سے نفرت اور دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جائیں گے ‘‘ ۔
ایک جانب مسلمان حکمرانوں کا کردار ہے اور دوسری جانب مجھ سمیت امت کے ہر پیر و جوان سے سوال ہے کہ کیا ہم صرف ٹسوے بہانے کے لئے رہ گئے ۔ اس رمضان میں ہر مسلمان کم از کم ایک روپیہ روزانہ فلسطینیوں کے لئے وقف کر دے تو یک ارب بیس کروڑ روپے ماہانہ اور صرف رمضان میں 36 ارب روپے سے فلسطینیوں کی امداد کر سکتے ہیں کم از کم ان کو اتنی امداد بھی مل جائے تو انہیں کسی غلام مسلمان حکمران کی حمایت درکار نہیں ہو گی ۔
مسلمانوں کی بے حسی اور غزہ میں اسرائیلی ننگی جارحیت کے مناظردیکھ کر شاعر اسلام نعیم صدیقی خدا ، ان کو غریق رحمت کرے بہت یاد آ رہے ہیں جنہوں نے ایسے ظلم و جبر ہی پر کہا تھا کہ
میرے حضور دیکھیے پھر آ گیا مقام غم
بسایہ صلیب پھر بھرے ہیں ہم نے جام غم
کنارے نیل چھا گئی پھر ایک بار شام غم
میرے حضور دیکھیے
پھر ایک حادثہ ہوا پھر ایک کارواں لٹا
خود اس کے پاسبان تھے جو جن کے درمیان لٹا
بدست دشماں نہیں بدست دوستاں لٹا
میرے حضور دیکھیے
پھر ایک بار کوئے یار میتوں سے پٹ گئی
جنوں کی کھیتیاں پکی سروس کی فصل کٹ گئی
حضور کی سپاہ کی کور سب الٹ گئی
میرے حضور دیکھیے
ہر ایک صدی کے دشت میں ہمیشہ کارواں لٹا
ہمارے اپنے راہ زن ہمارے رہنما
ہمارے پیارے بھیڑیے ہمارا پیارا اژدہا
میرے حضور دیکھیے
صلیب جبر گڑ گئی وہ چوبدار آ گئے
صداقت حُسیں تیرے وہ جاں نثار آ گئے
بہت سے لاالہ خواں کنارے دار آ گئے
میرے حضور دیکھیے
فراعنہ کی سرزمیں ہمیشہ خوں بجام ہے
ہمیشہ خوں بجام ہے وہ پھر بھی تشنہ کام ہے
یہ ایک جہان بے سکوں جسے سکوں حرام ہے
میرے حضور دیکھیے
یہ انقلاب دیو ہے لہو کی بھینٹ مانگتا
یہ خود ہی مدعی بھی ہے یہ خود ہی صاحب قضا
یہ قافلے کا راہزن یہ قافلے کا رہنما
میرے حضور دیکھیے
کئی صدی کے دشت میں ہمیشہ کارواں لٹا
کئی صدی کے دشت میں یہ راستی کا کارواں
ادب کا فن کا علم کا یہ زندگی کا کارواں
رہِ خودی کے راہرو رہِ نبی کا کارواں
میرے حضور دیکھیے
ابھی تو ایسے کارواں کئی ہزار آئیں گے
اٹھیں گے چار سمت سے وہ بار بار آئیں گے
وہ بن کے ابرِ خوں فشاں بریگزار آئیں گے
میرے حضور دیکھیے
پھر ایک حادثہ ہوا پھر ایک کارواں لٹا
خود اس کے پاسبان تھے وہ جن کے درمیاں لٹا
بدست دشمناں نہیں بدست دوستاں لٹا
پھر ایک کارواں لٹا پھر ایک کارواں لٹا
میرے حضور دیکھئے
تازہ ترین