• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے سال ایک ہمدم دیرینہ کالم نگار نے پوچھا ’’جنرل پرویز مشرف کے بارے میں حکومت کا طرز عمل کیا ہونا چاہئے‘‘۔ عفوودرگذر اور تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔ میں نے مختصراً جواب دیا ’’مگرآئین کا آرٹیکل چھ اور سپریم کورٹ کا تقاضہ؟‘‘ دوست نے ایک سوال اور داغا ’’آرٹیکل 6 حکومت کو ہرگز پابند نہیں کرتا کہ وہ آغاز کار آرٹیکل چھ پر عملدرآمد سے کرے اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگوں پر پائوں رکھنے کے بجائے زرداری حکومت اور نگران حکومت کی دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی کو مشعل راہ سمجھنا چاہئے، پرویز مشرف کو سزا دینا ضروری ہے تو اسےآزادی سے سیاست کرنے دی جائے یہ بدترین سزا ہوگی؟‘‘ دوست مطمئن تو شاید نہ ہوا خاموش ضرور ہوگیا۔
مجھے ذاتی طور پر پرویز مشرف سے کوئی ہمدردی ہے، نہ میں کبھی اپنے بعض ترقی پسند اور جمہوریت پرست دوستوں کی طرح فوجی آمر کی روشن خیال جدیدیت، وسیع المشربی اور عملیت پسندی کا مداح رہا اور نہ مجھے شریف برادران سے کوئی پرخاش ہے مگر ملک اس وقت جس ہیجان، اضطراب، بے چینی، سیاسی کشمکش کا شکار ہے اس کا اہم سبب پرویز مشرف فیکٹر ہے ایک عاصی اور طالب علم کے طور پر مجھے اس کا روز اول سے ادراک تھا کیونکہ ایک آرمی چیف کو غدار اور ملک کا باغی ڈیکلیئر کرنا ان لاکھوں سرفروشوں اور وطن کے محافظوں کو سرخ رومال دکھانے کے مترادف ہے جو دفاع وطن کے لئے سینہ سپر رہتے ہیں، فرمودۂ اقبال بھی ہمیشہ میرے پیش نظر رہتا ہے ؎
ہوصداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
کسی زمانے میں میاں شہباز شریف بھی پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرنے کے حامی تھے۔
ہیوی مینڈیٹ میں بلاشبہ بڑی طاقت ہوتی ہے مگر 1999ء میں اس کا حشر دیکھنے کے بعد بہت سوں کو یہ احساس ہوا کہ طاقت ہیوی مینڈیٹ میں نہیں عوام کی خوش دلانہ پشت پناہی اور سیاسی جماعت کی ہر سطح پر مضبوط و موثر تنظیم میں ہوتی ہے جب تک روٹی کپڑے، مکان، تعلیم، روزگار، علاج معالجے، بجلی، گیس، انصاف، امن اور عزت نفس کوترستے عوام حکومت کی کارگزاری سےمطمئن نہ ہوں اور حکومتی اقدام و پالیسی کو ذاتی انتظام کے بجائے قومی مفاد کا تقاضا تصور نہ کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ حکمرانوں کو اپنے بدلے چکانے کے بجائے ہماری فکر ہے اسوقت تک کوئی مہم جوئی الٹا گلے پڑ سکتی ہے اور یہ حکمرانوں کے گلے پڑ چکی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے حکمران خواہ فوجی ہوں یا سویلین، اپنے مخالفین سے نمٹنے اور انہیں تہس نہس کر کے اپنی دھاک بٹھانے پر توانائی، وسائل اور وقت زیادہ خرچ کرتے ہیں عوامی مسائل پر توجہ کم کردیتے ہیں اور ترجیحات کا تعین عوامی خواہشات اور ضرورتوں کے مطابق نہیں ہمیشہ اپنے سیاسی فوائد اور خاندانی وگروہی مصلحتوں کے تحت کرتے ہیں پروپیگنڈہ ہمیشہ یہی کیا جاتا ہے کہ حکومت عوام کے لئے چاند تارے توڑ کر لانے میں مصروف ہے۔ میاں صاحب پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے حوالے سے مفاہمت اور صلح جوئی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جس سے ان کے ناقدین کے علاوہ ہمدرد اور خیر خواہ بھی الرجک ہیں مگر پرویز مشرف، چوہدری برادران اور دیگر سیاسی و ذاتی مخالفین کے حوالے سے فراخدلی مفقود ہے۔ مفاہمت و درگذر تو درکنار وہ میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان کی میانہ روی کو بھی پسند نہیں کرتے بلکہ خواجہ آصف جیسے جنگجوئوں کے انتقامی جذبات کا لحاظ رکھتے ہیں خواہ اس کے نتیجے میں بے ننگ و نام جمہوریت کا بولو رام ہو جائے یا ہیوی مینڈیٹ کا دھڑن تختہ۔
بیک وقت کئی محاذ کھولنے اور اپنے سیاسی مخالفین کے علاوہ طاقت و اقتدار کے ایوانوں پر جلد از جلد غلبہ حاصل کرنے کی خواہش اور عادت کا نتیجہ سامنے ہے۔ عمران خان، ڈاکٹر طاہرالقادری اور چودھری برادران سنبھالنے نہیں جارہے تھے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی کفن پھاڑ کر بول اٹھی ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری نے عمران خان کے موقف کی تائید کر کے ان خوش فہموں کو حیران کردیا ہے کہ جو سابق صدر کو میاں صاحب کی انشورنس پالیسی خیال کرتے اور خورشید شاہ، نوید قمر، فاروق ایچ نائیک اور رحمان ملک کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کے منتظر تھے۔ ابھی شائد مزید سرپرائز ملے۔
اخبارات کے صفحہ اول و آخر پر وفاقی و صوبائی حکومت کے اشتہارات اور الیکٹرانک میڈیا پر تشہیری مہم سے متاثر ہونے والوں کی بات اور ہے ورنہ ہر شخص جانتا ہے کہ ایک سال کے دوران کاغذی منصوبوں پر وقت اور روپیہ ضائع بہت ہوا عملاً ؎
وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے
ثبوت یہ ہے کہ حکومت نے پورا سال لوڈشیڈنگ کو مسئلہ نمبر ایک بتایا خاتمے کے لئے بھاگ دوڑ بھی نظر آئی مگر رمضان المبارک میں لوڈشیڈنگ آٹھ سے اٹھارہ گھنٹے کی ہورہی ہے حالانکہ حکومت نے چار سو اسی ارب سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی پر ضائع کردیتے، بجلی کے نرخ دوگنے ہوگئے اور نندی پور پاور پراجیکٹ بھی چل گیا خواہ تین دن کے لیے ہی سہی۔
آئی ڈی پیز کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے مگر حکومت نے آپریشن کا فیصلہ کرنے سے قبل شمالی وزیرستان کی کل آبادی معلوم کی نہ یہ اندازہ لگا یا کہ کتنے لاکھ لوگ بے گھر ہوں گے۔ آبادی سات لاکھ بتائی گئی تھی بے گھر افراد کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے دوراندیشی اور منصوبہ بندی پر آدمی کیا تبصرہ کرے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے حکومتی عہدیداروں اوران کےسیاسی و صحافتی کارندوں کے بیانات کا موازنہ گرفتار پولیس و ایلیٹ فورس افسروں اور اہلکاروں سے کریں تو بے تدبیری، غلط بیانی اور عاقبت نااندیشی کی حد ہے مگر کوئی سبق سیکھنے اور درست حکمت عملی اختیار کر کے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے لانگ مارچ کا توڑ فوجی پریڈ، سانحہ ماڈل ٹائون کا جواب ڈاکٹر طاہرالقادری کوایف بی آر کے نوٹس اورپرویز مشرف فیکٹر کا مقابلہ خصوصی عدالت کی کارروائی جلد از جلد مکمل کرنے کی صورت میں کیا جارہا ہے۔ اعتدال، ہوش مندی، توازن اور رواداری سیاسی لغت سے خارج ہے۔
نظر یوں آتا ہے کہ حکومت محاذ آرائی کو بڑھا کر اپنی مظلومیت کا تاثر ابھارنا چاہتی ہے اور اپنی ناقص کارگذاری پر مظلومیت کا پردہ ڈالنے کے لئے کوشاں ہے مگر لوڈشیڈنگ، بدامنی، مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے عوام شائد اس دعوے پر یقین نہ کریں۔ احتجاجی تحریک کی ڈگڈگی بجی، اپوزیشن نے لانگ مارچ کا ڈھول گلے میں ڈالا تو پہلی ہی تھاپ پر پیپلز پارٹی کے جیالے اپنی نڈھال اور متذبذب قیادت کو دھمال ڈالنے پر مجبور کردیں گے اور عوام کے لئے لٹیروں کے احتساب، قاتلوں سے انتقام اوران کے سرپرستوں کی رخصتی کا نعرہ روز بروز پرکشش و دلفریب ہوتا جائیگا۔
انفراسٹرکچر بالخصوص پختہ سڑکوں، موٹر وے، میٹرو بسوں اور بلٹ ٹرینوں کو عوام حکمرانی کا جواز اور ترقی و خوشحالی کا پیمانہ سمجھتے تو انگریزوں سے زیادہ یہ کام کس نے کیا، ایوب خان کے دور میں کیا کچھ نہیں ہوا اور پرویز مشرف و شوکت عزیز کے عہد میں کسی قدر ڈنکا نہیں بجا۔ عوام کا احساس محرومی برقرار ہے تو سب بھاگ دوڑ بے کار۔ بے فیض و بے ثمر جمہوریت سے کسی غریب و مفلس کا پیٹ بھرتا ہے نہ کسی مرض کا علاج ہوتا ہے۔ میاں صاحب اور ا ن کے ساتھیوں نے کس شوق کی بلندی اور عوامی مقبولیت و امید پرسن کے ساتھ اقتدار سنبھالا تھا مگر عزم کی پستی اور بے سمت سفر نے کہا پہنچا دیا دل دکھتا ہے۔
آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
ہوئے خاک انتہا یہ ہے
تازہ ترین