• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہتے ہیں ظلم تو ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، مگر فلسطین میں تو بڑھتا ہی جا رہا ہے اور خونِ جمنے کی بجائے بہتا ہی جا رہا ہے شہداء اور زخمی بچوں کی تصاویر دیکھ کر لہو لہو دل، زخم زخم جگر، ہر کسے سوگوار ہرآنکھ اشکبار۔یہ رد عمل عوام کا ہے لیڈر ،حکمران سب خاموش ۔ بات فلسطینیوں کی ہو رہی تھی میں فلسطینی بچوں کے لئے نوحہ کناں تھا اور میری فیس بک فرینڈمیگان مِل یہودیوں کیلئے اشک بار۔ میں نے پوچھا محترمہ آپ عیسائی ہیں یہودی نہیں پھر جبر کا ساتھ کیوں۔ فرمانے لگیں 11ماہ سے حماس اسرائیل پر راکٹ برسا رہی تھی کیا ان راکٹوں سے پھول برستے تھے۔ میں نے کہایقینا پھول تو نہیں برستے تھے مگر اسرائیل کی ہلاکتوں کا بھی تو کہیں ذکر نہیں ۔ خود اسرائیل کا تو ایسا کوئی الزام نہیں وہ تین یہودی لڑکوں کا اغوا اور قتل حماس پر ڈالتے ہیں آپ کے آنسوئوں سے بہنے والے راکٹوں کا ذکرتو وہ بھی نہیں کرتے ۔2012 کی لڑائی میں بھی حماس کے راکٹوں کاچرچا تو بہت ہوا مگر یہودیوں کی اموات کا کوئی ذکر نہیں سچ یہ ہے کہ اسرائیل راکٹوں کو فضا میں ہی تباہ کر دیتا ہے عام یہودی انہیں محض نیند میں خلل قرارا دیتاہے جبکہ فلسطینیوں کے خون کی ارزانی کا ذکریہودی کنٹرولڈ میڈیا پربھی پڑھا سنا گیا ۔ میگان کا الزا م ہے کہ فلسطینی عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا تے ہیں تاکہ ان معصوموں کے قتل کے نام پر میڈیا متوجہ ہو ۔ نہیں محترمہ فلسطینی اوریہودی کمزور ترین اور طاقتور ترین غیر متوازن جنگی فریق ہیں فلسطینیوں کی ہلاکتیں نتائج کی آواز ہیں کوئی سنے یا نہ سنے۔ فلسطینی اپنے دفاع میںلڑ رہے ہیں اپنا وطن حملہ آوروں سے بچا رہے ہیں ۔ یہ یکطرفہ موقف ہے، میگان نے کہا ۔ یہودیوں کی ہزاروں سالہ تاریخ ،پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کی آمد، یہودیوں کا پیغمبروں سے اختلاف ۔ پیغمبرِاسلام کے ان سے معاہدے اور جنگیں ثبوت ہیں یہودی مشرق وسطیٰ کے رہائشی ہیں۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں فلسطین بھی ترک مقبوضات میں شامل تھا ۔ ترکوں نے یہودیوں پر ظلم ڈھائے اور وہ یورپ منتقل ہو گئے ۔ ترکوں نے فلسطین کی زمین عرب اور ترک جاگیرداروں کو الاٹ کر دی جو غریب عرب کاشتکاروں کے ذریعے کاشت کرتے۔ انیسویں صدی کے آغازمیں یہودی نیشلزم کا احیا ہوا ۔ یہودیوں نے وطن واپسی کیلئے جیوش مانیٹری فنڈ قائم کیا اور غریب یہودیوں کو واپسی کی ترغیب دی ۔ یہودیوں نے جاگیرداروں سے منہ مانگی قیمت پر زمینیں خریدیں۔ گھر تعمیر کئے اور ماڈرن ٹیکنالوجی سے صحرا کی بنجر زمینوں کو نخلستانوں میں تبدیل کردیا ۔ تمھارے موقف سے اختلاف کے باوجود میں کہتا ہوں تاریخ یہاں تو ختم نہیں ہوجاتی ،جب یہودیوں نے خریدی زمینوں سے تجاوز کیا تو یہودی نیشلزم کے مقابل عرب نیشلزم کا احیاء ہوا جس سے عرب یہودی تصادم کی بنیاد پڑی جو تا حال جاری ہے ۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین سمیت عرب علاقوں پر فرانس اور برطانیہ نے قبضہ کر لیا ۔ جرمن اقتدار پر ہٹلرقابض ہوگیا جویہودیوں سے شدید ترین نفرت کرتا تھا ۔اس نے یہودیوں کا ہولو کاسٹ کیا یہودی جرمنی اور دیگریورپی ممالک سے فلسطین آنے لگے۔ ہٹلر یہودیوں اوربرطانیہ فرانس کا دشمن تھا لہٰذا دشمن کا دشمن دوست کے مصداق برطانیہ فرانس نے یہودیوں کی مزید پذیرائی کی اور انہیں تحفّظ کے نام پر عربوں پر مسّلط کیا ۔ امریکہ نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گراکر دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ کیا اور سپرپاور کا ٹائٹل ہتھیا لیا۔ صحرائے عرب کو تقسیم کرکے اپنی پسند کے حکمران تعینات کئے ،یہودی ریاست کو مزیداستحکام دیا اورعرب یہودی تصادم کوبڑھاوادیا مگر توازن برقرار رکھا ۔ 1967میںاسرائیل نے6 دنوں میں مصر کے صحرائے سینا اور شام کی گولان پہاڑیوں پر قبضہ کر کے عرب دنیا کو بدترین شکست سے دوچار کیا ۔1973کی جنگ میں عرب ممالک نے بہتر پرفارم تو کیا مگر وہ تمام مقبوضہ علاقے واپس نہ لے سکے ۔ صدر سادات نے روسی بلاک ترک کر دیا ۔1978میں امریکی صدر جمی کارٹر نے اسرائیل اور مصر کے درمیان کیمپ ڈیوڈ میں امن معاہدہ کروادیا ،مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا،اسرائیل نے مصر کے علاقے واپس کر دئیے، امریکہ نے مصر کے تمام قرضے معاف کردیئے اور دو ارب ڈالر سالانہ امداد دینے کا وعدہ کیا ۔ شام تاحال گولان کی پہاڑیاں واپس نہیں لے سکا ۔مسلم ممالک میں ترکی ایران اردن اور مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھاہے ۔ یاسر عرفات نے بھی اسرائیل سے میڈرڈ ،اوسلو اور کیمپ ڈیوڈمیں امن کیلئے مذاکرات کئے اور اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ شیئرنگ میں امن کا نوبل انعام حاصل کیا ۔ مذاکرات کی میز پرسب اس وقت بیٹھے جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ اسرائیل کو ختم نہیں کر سکتے ۔ میدان جنگ میں بازی ہارنے والے مذاکرات کی میز پر نہیں جیت سکتے ،یہ سبق بھی عربوں نے اس وقت سیکھاجب چڑیاں کھیت چُگ چکیں۔عرفات کے مذاکرات کے مخالف فلسطینیوں نےحماس کے نام سے نئی تنظیم بنا لی جو اب فلسطینی غزہ کے علاقے پرحکمران ہے ۔اسرائیل کا موقف ہے حماس کے حامیوں نے غزہ میں اسرائیل کے علاقے پر قبضہ کرکے بستیاں آباد کر رکھی ہیں جن کی تعداد 800کے قریب ہے متواتر وارننگ کے باوجود فلسطینیوں نے بستیوں کی تعمیر نہ روکی ۔اب انہی بستیوں میں حماس کے جنگجو آباد ہیں جو آسانی سے اسرائیل میں گھس آتے ہیں اور کارروائیاں کرکے و اپس چلے جاتے ہیں۔ تین اسرائیلی نوجوانوں کااغوا اور قتل نئی جنگ کی وجہ بنا ۔ یاد رکھیں حماس فلسطین کے ایک انچ پر بھی اسرائیلی قبضے کو تسلیم نہیں کرتی پھرغزہ کی بستیاں ناجائز کیسے۔ اسرائیلی نوجوانوں کا اغوا اورقتل یکطرفہ اسرائیلی موقف ہے حماس نے تسلیم نہیں کیا ،جنگ زدہ علاقہ ہے کوئی اور بھی اغوا کار ہوسکتا ہے ممکن ہے یہ اغوا بھی اسرائیلی جاسوس ایجنسیوں کا نہتے فلسطینیوں کے خلاف جنگی کاروائی کیلئے بہانہ سازی کا شاخسانہ ہو۔ محض شک کی بنا پر کمزوروں پر حملہ کر دینا جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات والا معاملہ ہے ۔ ترکی عالم اسلام کی لیڈری میں دلچسپی لے رہا ہے اور مصر عالم عرب ، دونوں میں بیان بازی اور پوائنٹ اسکورنگ کا مقابلہ چل رہا ہے ۔دونوں نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے اور یہ فیصلہ واپس لینے کی کسی میں ہمت نہیں۔ مصر نے سیز فائر کا فارمولا دیا ہے جس میں شرط عائدہے کہ حماس پہلے اسرائیل کو تسلیم کرے،سب کو معلوم ہے سیز فائر فارمولا کہاں سے آیا ہے ۔ ہلاکتیں580 سے تجاوز کر چکی ہیں زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ،اسرائیل کی زمینی کارروائی اور فضائی حملے جاری ہیں ۔یورپ سمیت کینیڈا آسٹریلیامیں مظاہرے ہو رہے ہیں،عوام مظلوموں کے ساتھ ہیں اور حکمران ظالموں کے ساتھ۔ برطانیہ میں لاکھوں مظاہرین نے بھرپور احتجاج کیا، مگر کیمرون حکومت اسرائیل کو مزید ہتھیار سپلائی کر رہی ہے ۔امریکہ میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں مگر اوباما نے مسلم سفراء کی افطار پارٹی میں اسرائیل کی وحشت کو دفاعی اقدام قراردیا ہے ۔میکسیکو واحد ملک ہے جس نے احتجاجا اسرائیل سے اپنا سفیرواپس بلا لیا ہے ۔حیرت ہے عالم اسلام خاموش ہے مگر یہودی ریاست کے اندر سے یہودی مظالم کے خلاف اسرائیلی احتجاج کر رہے ہیں اسرائیل کے جھنڈے بھی جلا رہے ہیں۔ بھارت میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کیا گیا مگر پاکستان میں خاموشی کیوں ۔
تازہ ترین