• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لوگ سوچ سوچ کر پاگل ہوگئے، دانشور اور تجزیہ کار دلائل تراش تراش کرتھک گئے مگر یہ معمہ آج تک حل نہ ہوا کہ پاکستان میں جمہوریت بحالی اور منتخب حکومت قائم ہوتے ہی لوٹ مار، اقربا پروری اور لاقانونیت کے علاوہ نااہلی کا بازار کیوں گرم ہو جاتا ہے اور سیاستدان اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر قومی وسائل پر ندیدوں کی طرح ٹوٹ کیوں پڑتے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر اور جی ڈی پی کے اشاریئے گھٹنے اور قرضے بڑھنے کیوں لگتے ہیں؟
ہمارے دانشوروں، سیاسی رہنمائوں اور سادہ لوح کارکنوں نے بدترین سیاسی و خاندانی آمریت کو ملکی ترقی اور قومی استحکام کا ذریعہ قرار دیکر ہمیشہ یہ راگ الاپا کہ 1958ء سے 1999ء تک پاکستان میں مارشل لاء ہمیشہ امریکی مرضی سے اس کے علاقائی و بین الاقوامی مفادات کے تحت نافذ ہوئے جبکہ جمہوریت ہمیشہ سیاستدانوں کی جرات مندانہ جدوجہد، بعض جمہوریت پسند جرنیلوں کے اندرونی دبائو اورعوام کی بے مثالی قربانیوں کے طفیل بحالی ہوئی۔
یہ جھوٹ اس قدر تواتر سے بولا گیا کہ نوجوان نسل اس پر ایمان لے آئی اور یہاں فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک ہر فوجی آمر کو امریکہ کا گماشتہ اور ان کے گملوں میں پروان چڑھنے والے سیاستدانوں کو جمہوری دیوتا، عوام کا نجات دھندہ سمجھا جانے لگا حتی کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اوپن ہونے والی اس سیکرٹ دستاویزات کو بھی کسی نے اہمیت نہ دی جن میں سیاستدانوں کے امریکی عہدیداروں سے راز و نیاز، یقین دہانیوں اور نیاز مندی کا ذکر تفصیل سے موجود ہے۔
جنرل پرویز مشرف 2007ء میں کچھ اپنی غلطیوں اور کچھ امریکہ بہادر کی ناراضگی و بے مہری کے سبب گرداب کا شکار ہوئے اور امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا کے دبائو پر محترمہ بے نظیر بھٹو سے مذاکرات و مفاہمت پر مجبور تو باخبر حلقوں کو پتہ چلا کہ ملک میں اب فوجی آمریت کے بجائے این آر او مارکہ جمہوریت کا دور دورہ ہوگا۔ امریکہ غیر مقبول فوجی حکمران کو تو شائد برداشت کر لے مگر دوغلی پالیسی پر عمل پیرا باوردی صدر ناقابل قبول ہے اگر مقبول سیاستدان اطاعت گزاری اور نمک حلالی پر آمادہ ہیں تو ڈبل گیم کھیلنے والے غیر مقبول حکمران پر تکیہ کرنا کونسی دانشمندی ہے؟ جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور دیگر فیض یافتگان این آر او و دستخط کنندگان میثاق جمہوریت یہاں جمہوریت کا بول بالا اور انکل سام کے THE WRONG ENEMY کا منہ کالا کرنے کی بھرپور اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں۔
The wrong enemy کارلوٹا گال Carlotia کی کتاب ہے جس میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی ڈبل گیم کا ذکر ہے دو ہفتے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو سے قربت رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما منور انجم نے جناب عطاء الحق قاسمی کے گھر 2023 تک مارشل لاء نہ لگنے کی وجوہات بیان کیں اور اس ضمن میں امریکہ، برطانیہ، امارات اور فوجی قیادت کی ضمانتوں پر روشنی ڈالی تو میں نے خاص توجہ نہ دی مگر پیپلز پارٹی سندھ کی رہنما شہلا رضا نے یہی بات دہرائی اور آصف علی زرداری کے دورہ امریکہ کو اس سلسلے کی کڑی قرار دیا تو یہ عقدہ کھلا اور ہمیں یقین ہوا ہم کو اعتبار آیا کہ 1988ء کی طرح 2008ء کی جمہویت بھی پاکستانی عوام کے لیے انکل سام کا تحفہ ہے۔ پاکستانی عوام کی امریکہ سے نفرت کی ایک وجہ شائد یہ تحائف ہی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے پیامی نے راز کھولا تو ماضی کے کئی واقعات قومی یادداشت کی سکرین پر فلیش ہونے لگے۔ بحریہ کے سربراہ ایڈمرل سروہی کی یکطرفہ ریٹائرمنٹ کے بعد صدر اسحاق خان کا توثیق سےانکار اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا رات گئے صدر جارج بش سینئر کو فون کہ وزیراعظم کے احکامات پر عمل کرائیں جبکہ امریکی صدر بے چارے پوچھتے ہی رہ گئے کہ کون سر وہی، کون سے احکامات اور میرا ان سے کیا لینا دینا؟ محترمہ! توبہ توبہ خدا خدا کیجئے۔
ستمبر 1999ء میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا دورہ واشنگٹن اور آئی ایس آئی چیف خواجہ ضیاء الدین کے ساتھ امریکی زعما سے ملاقاتیں، جن کے سبب سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے طاقتور حلقوں کو انتباہ کیا کہ وہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے سے باز رہیں اور 2007ء میں امریکی وزیر خارجہ کے دبائو پر جنرل پرویز مشرف کی ابوظہبی میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے تاریخی ملاقات جس نے آرمی چیف کی وردی اتارنے اور آصف علی زرداری کو منصب صدارت تک پہچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی لسلسلے کی کڑی تھیں۔
امریکہ اور نام نہادعالمی برادری پر اعتماد کرتے ہوئے فوجی مداخلت کے خلاف جن دلائل کا سہارا ان دنوں ہمارے سیاسی دانشور اور تجزیہ کار لیتے ہیں 1999ء میں میاں نوازشریف کے ساتھی بھی یہی دلائل شدومد سے دہرایا کرتے تھے۔ ستمبر 1999ء میں بیجنگ جاتے ہوئے دوران سفر سید مشاہد حسین نے شریک سفر ہم آٹھ صحافیوں کو انہی دلائل سے گھائل کیا اور سفیر پاکستان ریاض کھوکھر کے گھر پر بھی یہ بحث جاری رہی مگر جنرل پرویز مشرف اوران کے ساتھیوں نے مداخلت کی ٹھانی تو کوئی دلیل کارگر ہوئی نہ امریکی و عالمی دبائو نظر آیا البتہ لاہور میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے جو مسلم لیگ کا سیاسی قبلہ اورقلعہ ہے۔
ثابت یہ ہوا کہ پاکستان میں مارشل لاء تو کوئی خودسر جرنیل اپنی، اپنے ادارے کی مرضی سے، امریکی پیشگی اجازت کے بغیر لگا سکتا ہے بلکہ لگا دیتا ہے توثیق بعد میں آسانی سے ہو جاتی ہے مگر جمہوریت ہمیشہ واشنگٹن کی مرضی اور پسند کے مطابق بحال ہوتی ہے یہ کتنا عرصہ چلے گی اس کی ضمانت بھی امریکہ دیتا ہے یا پھر برطانیہ اور کوئی تابعدار فوجی جرنیل اس لیے ہمارے سیاسی حکمران عرصہ اقتدار میں امریکہ کی خوشنودی کے لئے کوشاں اور گارنٹر قوتوں کو راضی رکھنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔
زرداری صاحب تونجی محفلوں میں کہہ بھی دیا کرتے تھے کہ ہمیں اقتدار امریکہ کی مہربانی سے ملا ہے یا پاکستان کے مقتدر حلقوں کی کلیرنس اور ضمانت پر۔اس لئے جیالے اپنی قربانیاں اور عوام اپنی پرچیاں سنبھال کر رکھیں، ہم سے صلہ طلب نہ کریں مگر ان کے مخالفین ذرا وکھری ٹائپ کے جمہوریت پسند ہیں وہ یہ راز کھلنے نہیں دیتے کہ بیرونی مداخلت اور اندرونی ضمانت کے بغیر ایسی نام نہاد جمہوریت مسائل زدہ ملک میں زیادہ دن نہیں چل سکتی اندر اور باہرکی مداخلت اور گارنٹی ہی اقتدار کے بقا و استحکام کی شاہ کلید ہے ؎ نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں۔
یہ امریکی گارنٹی کا اعجاز ہے کہ ہمارے حکمران عوام کو ڈھورڈنگروں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں نہ ان کا کوئی مسئلہ حل کرتے ہیں، اپوزیشن اور میڈیا کی چیخ و پکار بھی رائیگاں جاتی ہے اور سنگین ترین بحران میں بھی ان کے سیر سپاٹے جاری رہتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ امریکہ و برطانیہ راضی تو کیا کریگا عمران اور قادری ۔امریکی کھونٹے پر ناچنے والوں کا اہتمام تک بھول جاتے ہیں۔ مگر کیا لوڈشیڈنگ، بدامنی، بھتہ خوری، اقربا پروری ، لوٹ مار، مہنگائی اور بے روزگاری سے عوام کا جینا حرام کرنے والی یہ این آر او مارکہ جمہوریت 2023ء تک بہرصورت برقرار رکھنا پاکستان، اس کے مفلوک الحال، مظلوم عوام اور دفاع و سلامتی کی ذمہ دار پاک فوج کی مجبوری ہے؟
اگرتنگ اور بجنگ آمد پر تلے عوام سڑکوں پر آگئے تو جوبائڈن انہیں روکیں گے یا امریکہ و برطانیہ پاک فوج کو حکم دیں گے کہ وہ سامراج اور اشرافیہ کی پسندیدہ بےفیض، بے ثمر، بے ننگ و نام جمہوریت کی حفاظت کریں جس نے ایک نیوکلیر ریاست کا یہ حال کر دیا ہے کہ افغانستان کارروائی کی دھمکی دیتا ہے تو میاں نوازشریف محمود خان اچکزئی کو بھیج کر حامد کرزئی کا منت ترلا کرتے ہیں کل کلاں کو بھارت نے آنکھیں دکھائیں تو کون نریندر مودی سے بات کریگا؟
بہرحال چونکہ ہماری قسمت میں شائد حقیقی جمہوریت اور اچھی حکمرانی نہیں اس لیے ہمارے حکمران، سیاستدان اور ان کے ہمنوا مطمئن ہیں کیونکہ تاحال ضامنوں نے ہاتھ کھڑا نہیں کیا وہ ان کے پشتی بان ہیں؎
دیکھئے پاتے ہیں، عشاق بتوںسے کیا فیض
ایک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
تازہ ترین