• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس پر ایک گرما گرم بین الاقوامی بحث جاری ہے کہ ایک زیادہ پیچیدہ، بدلتی ہوئی دنیا میں حکمرانی کے چیلنج پر کیسے پورا اترا جائے۔عالمگیریت اور طاقت کے پھیلاؤ نے آج کاروبارحکومت کو زیادہ مشکل بنادیا ہے۔ اس چیلنج کو ان نئی ٹیکنالجی نے اور زیادہ بڑھا چڑھا کردکھایا ہے جنہوں نے معلومات کے بے مثال بہاؤ تشکیل دئیے ہیں اور ہمیشہ بڑھتی ہوئی عوامی توقعات میں مزید اضافہ کیا ہے۔
ایک بہت تیزی رفتاری سے بھاگتی دوڑتی دنیا میں ہرجگہ حکومتیں بہت سست روی سے توقعات پرپوری اترتی دکھائی دے رہی ہیں۔ حکومت پر اعتماد میں کمی اب دنیا میں ہر جگہ کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس نے21 ویں صدی میں حکمرانی پر جاری عالمی بحث کو مزید تیز کردیا ہے اور یہ کہ ریاستیں اس آزمائش کا سامنا کرکے اور نئی جہتیں بروئے کار لا کر کس طرح زیادہ باصلاحیت بن سکتی ہیں۔
ایک نئی کتاب دا فورتھ ریوولیوشن (چوتھا انقلاب) حال ہی میں اس بحث میں کود پڑی ہے۔ اس کے دونوں مصنفین جون مکلتھویٹ (دا اکانومسٹ کے ایڈیٹر ان چیف) اور ایڈریان وولڈرج صحافی ہیں جنہوں نے اس بحث میں واضح موقف اپنایا ہے۔ان کے مطابق اگلی دہائی کا سب سے بڑا سیاسی چیلنج حکومت کو ٹھیک کرنا ہوگا کیونکہ ریاست ہر جگہ مشکل میں ہے۔ خاص طور پر مغربی ریاست وسط عمر کے بحران کا سامنا کررہی ہے ۔ گنجائش سے بڑی اور نااہل بن چکی ہے، نیز بجٹ خساروں اور نفس پرست قانون سازوں کا شکار ہوگئی ہے۔ مصنفین نے اس پر کافی بصیرت افروز باتیں کی ہیں کہ آخر کیوں مغرب میں موجودہ سیاسی نظام ایک قابل حکومت فراہم نہیں کررہے اور آخر کیوں ریاست کا نیا تصور پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
کتاب میں ایک اور کام کی یاد دلائی گئی ہے جو دو سال قبل انٹیلی جنٹ گورننس فار دا 21 فرسٹ سنچری کے نام سے شائع ہوئی تھا ۔ اس میں بھی مغربی ممالک کے درمیان سیاسی خرابی کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس نے دلیل کے لئے مشرق کے تجربے کا حوالہ دیا مثلاً چین کےاہلیت کی بنیاد پرترقی نظام نے ایک موثر حکومت فراہم کی ہے، جس نے حکمرانی میں ایک طویل مدت تصور کو اپنایا ہے۔ اس سے ایک پرزور دلیل پیدا ہوئی کہ مشرق و مغرب دونوں سے بہترین معمولات کو اکٹھا کرکے مخلوط سیاسی نظام تشکیل دیا جائے جو ذی علم جمہوریت کو قابل احتساب میرٹ و کریسی کے ساتھ مجتمع کرے تاکہ ایک عاقل حکمرانی سامنے آسکے۔
دا فورتھ ریولوشن میں بھی مغرب کے سیاسی جمود کے حوالے سے اس کتاب کے خدشات کی باز گشت سنائی دیتی ہے اور ایسے کسی بھی خیال کو یکسر مسترد کردیا گیا ہے کہ مغربی سیاسی نظریات دنیا کو شکل دیتے رہیں گے ۔ دونوں نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ابھرتی ہوئی دنیا بالخصوص ایشیا حکمرانی کے متاثر کن ماڈل پیش کررہا ہے جو ان ممالک کو غیر معمولی ترقی سے ہمکنار کررہے ہیں۔ تاہم نئی کتاب نے اس مباحثے میں ایک مختلف زاوئیے سے شرکت کی ہے اس پر بات کرکے اور تجویز دے کر کہ آج کے دور میں ریاست کا کیا کردار ہونا چاہئے۔ اس کا نقطہ آغاز یہ ہے کہ مغرب کے زیادہ تر حصے میں عوام کا اس طریقے سے اعتماد ختم ہورہا ہے جس کے ذریعے ان پرحکومت کی جارہی ہے۔ یہ ابھرتی ہوئی دنیا میں بھی ایک چیلنج ہے لیکن ایسا یہاں ہے کہ حکومت میں بہتری لانے کے لئے نئے چونکا دینے والے خیالات ڈھالےجارہے ہیں اور ان پرعمل درآمد کے لئے فعال اصلاحات کی جارہی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مشرق نہ صرف معاشی طور پر بلکہ ریاست کی تعمیر میں بھی آگے بڑھ رہا ہے۔
چین کا اپنے رہنماؤں اور اعلیٰ سول سروس گروپ کی تربیت پر زور دینا حکومت کرنے کے فن میں طاق ہونے کی کوششوں کی ایک مثال ہے۔ ایشیا مختصر سے عرصے میں وہ کام کررہا ہے جسے پورا کرنے میں مغرب کو صدیاں بیت گئی تھیں۔ سیکڑوں سالوں سے مغرب کو سیاسی نظریات کا سرچشمہ ہونے کی حیثیت سے باقی دنیا پر ایک فوقیت حاصل تھی۔ لیکن اب چین سے منسلک چیزوں کو مختلف انداز میں مقابلے کی وجہ سے مزید ایسا نہیں رہا لیکن وہ اپنی سب سے جدید شکل میں سنگاپور میں ملتا ہے۔ مصنفین کا خیال ہے کہ چین کا غیرمعمولی عروج سرکاری سرمایہ دارانہ نظام اور استبدادی جدیدیت کا نتیجہ ہے، جو اس کے متبادل نمونے کے دوپہلو ہیں۔ ایشیائی ممالک نے اس اصول پر عمل درآمد کیا ہے کہ حکومت کامیابی کی عالمی دوڑ کا اہم ترین حصہ ہے۔ نتیجتاً ایشیائی ماڈل میں حکومت سوچی سمجھی، سنجیدہ اور منظم ہوتی ہے جو مغرب سے بالکل مختلف ہوتی ہے جہاں حکومت افراتفری کا شکار، بے قاعدہ اور کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہوتی ہے (سوائے نورڈک ممالک کے)سنگاپور ماڈل مغرب کی ’’سب کچھ جو تم کھاسکتے ہو‘‘ والی مہنگی فلاحی ریاست کا بالکل الٹ ہے۔ یہ ایک دبلی پتلی اور موثر حکومت ہے جو کاروبار دوست ماحول پیدا کررہی ہے، اور جہاں سماجی بیمہ نہ کہ سماجی معاونت خدمات کی فراہمی کو منتظم کرتا ہے۔ محنت کی قدر ہے اور لوگوں سے سرکاری خدمات کی ادائیگی کی توقع کی جاتی ہے۔مصنفین کا کہنا ہے کہ اس ماڈل کی اب ایشیا سے باہر بھی تقلید کی جارہی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ چین کا عروج اور ورطہ حیرت میں ڈال دینے والی سماجی منتقلی ہے جس نے ایشیائی ماڈل کو زیادہ پرکشش بنادیا ہے۔ ایک جگہ تو چین اور معاشی طور پر اس کے پیچھے آہستہ آہستہ چلتے بھارت کا بھی موازنہ کیا جاتا ہے۔ بھارتی ریاست بیک وقت بہت بڑی بھی ہے اور بہت کمزور بھی ۔ بہت بڑی اسلئے کہ وہ ہر چیز کو سرخ فیتے میں لپیٹ کر ختم کردیتی ہے۔ بہت کمزور اسلئے کہ وہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مکمل یا کسی حد تک ناکام ہے۔
ایشیائی ماڈل کاملیت سے بہت دور ہے۔ چین کئی طریقوں سے جدوجہد کررہا ہے لیکن مصنفین دو خصوصیات کی نشاندہی کرتے ہیں جو ملک کو ایک پر امید سمت میں لے جارہی ہیں۔ریاست بطور ایک سرمایہ کار سربراہ جو معیشت کا انتظام نہیں سنبھال رہی بلکہ اس کی رہنمائی کررہی ہے اور اس کی جانب سے میرٹ و کریسی کی ترویج جواعلیٰ سطح پر قیادت میں باقاعدہ تبدیلیوں کو یقینی بناتی ہے، لیکن کسی قلیل المیعادی اور سیاسی تعطل کے بغیر جو مغربی جمہوریتوں کو محدود بنا دیتے ہیں۔ پھر چین محض آئندہ الیکشن کے چکر کی بجائے دیرپا بنیادوں پر سوچتا اور عمل کرتا ہے۔ کتاب میں بنیادی بحث اس بات پر کی گئی ہے کہ کس طرح مغربی ریاستیں بالخصوص یورپ اور امریکہ غیر حقیقت پسند عوامی توقعات اور متناقض مطالبات والے جمہوریت کے خطرات سے بچتے ہوئے ہیں، گنجائش سے زیادہ اور خراب کارکردگی والی حکومتوں کے اپنے موجودہ مسائل سے خود کو نکال سکتی ہیں۔
مصنفین جدید وقتوں میں مغربی ریاستوں کی تاریخ کو ساڑھے تین انقلابات کے تجربات پر مشتمل بیان کرتے ہیں۔ پہلے کا نتیجہ ایک وفاقی قومی ریاست کی صورت میں نکلا جس پر ہوبیسیان نظرئیے کا اثر تھا کہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری تحفظ فراہم کرنا ہے۔ دوسرے انقلاب نے ایک لبرل ریاست کو جنم دیا جب کہ تیسرے نے فلاحی ریاست کا نظریہ پیش کیا۔ تھیچر ریگن کے نصف انقلاب نے ریاست کے حجم میں کمی کی کوشش کی لیکن ناکام ہوگیا۔چوتھا انقلاب جس کے اگلے محاذ بنیادی طور پر ایشیا میں منتقل ہوگئے ہیں مغرب کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے اگر اس کی حکومتوں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہ لیا اور ریاست دوبارہ ایجاد نہیں کی۔ مصنفین کا خیال ہے کہ یورپ اور امریکہ حد سے زیادہ بڑی اور خراب حکومت اور ہمیشہ تقاضے کرتی عوام کے بوجھ تلے دبےمچل رہے ہیں۔ یہاں حجم میں اضافہ اور جمہوری تجاوزات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں نے ان مطالبات سے نظام پر گنجائش سے زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے لیکن ساتھ ہی لوگوں کو بھی برہم کردیا ہے کہ حکومت کی کارکردگی اتنی خراب ہے۔ تاہم مصنفین کا ماننا ہے کہ مغرب تبدیلی پر مجبور ہوجائے گا کیونکہ وہ قلاش ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ قرضے اور آبادی یہ تبدیلی لے کر آئیں گے (بوڑھی آبادی کو ریاست کی مدد درکار ہوگی)۔ امریکہ کے پاس یہ چارہ ہے کہ: ان استحقاق کو لگام ڈالنی ہوگی، ٹیکسوں کو غیر معمولی حد تک بڑھانا ہوگا ورنہ پھر ایک کے بعد ایک بحران میں پھنستے جانا ہوگا۔ مغرب کو اسے ضرور یہ حل کرنا ہوگا جسے کتاب میں 7 مہلک گناہ قرار دیا گیا ہے۔ ان میں گنجائش سے بڑی حکومتوں میں استطاعت سے زیادہ ذمہ داریاں، خصوصی مفادات کو بہت زیادہ طاقت سونپنا، قوانین اور اختیارات میں بھرپور اضافہ جو لوگوں کی زندگیوں کو چلانے کیلئے بنائے گئے اور سیاسی جمود اور تعطل ۔ نورڈک ممالک نے پہلے ہی حد سے زیادہ بڑی اور جذبات سے مغلوب حکومت سے سبق سیکھ لئے ہیں۔ انہیں تبدیلی پر مجبور ہونا پڑا کیونکہ پرانا ماڈل نہیں چل سکا، پھر انہوں نے ریاست کو دوبارہ بنایا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو چھوٹا بھی کیا کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سوئیڈن جیسے ممالک نے فلاحی ریاست کے مرکزی حصوں پر نئی سوچ کا اطلاق کیا اور مقام ترسیل پر عوامی اشیاء (مثلاً تعلیم اور صحت) مفت فراہم کیں، لیکن قابلیت کو یقینی بنانے کیلئے مقابلے کے سرمایہ دارانہ طریقے استعال کئے۔ باقی یورپ اور امریکہ بھی حکومت کو کارآمد بنانے کیلئے ان مثالوں سے سیکھ سکتے ہیں۔ اسے سکیڑو لیکن زیادہ قابل بھی بنائو۔ کتاب کا مرکزی استدلال یہ ہے کہ ایک چھوٹی لیکن مضبوط ریاست ایک بڑی لیکن کمزور ریاست سے کہیں زیادہ بہتر ہے، اس وجہ سے نہیں کہ کمزور اور بڑی ریاست کے اخراجات ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔
اور ملک کو دائمی مالیاتی بحران کا شکار کردیتے ہیں بلکہ اسلئے کہ وہ بنیادی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکام ہوجاتی ہے۔
مصنفین کا کہنا ہے کہ چوتھا انقلاب آسان نہیں ہوگا۔ لیکن ان کا اصرار ہے کہ وہ ناگزیر ہے کیونکہ مغرب میں فلاحی ریاست اور جمہوریت پر عملدرآمد اپنی تباہی اور اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارنے جیسا بن گیا ہے۔ مصلحین کو غیر فعالیت کی مہنگی قیمت کی وجہ سے پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے اور اس موقع اور انعامات کے لئے بھی جو ان ریاستوں کے منتظر ہیں جو معاشرے میں سب سے زیادہ اختراعی قوتوں کی باگ ڈور سنبھال لیتی ہیں۔ کتاب میں اختلاف کرنے کے لئے بہت سا مواد موجود ہے، باالخصوص جہاں وہ بے جا تعمیم کرتی ہے۔ لیکن بہت ہی کم لوگ اس نکتے سے اختلاف کریں گے کہ جو ممالک قابل حکومت فراہم نہیں کرتے وہ زوال پذیر ہوجاتے ہیں۔ بلا شک و شبہ مستقبل ان قابل ریاستوں اور قوموں کا ہے جو حکمرانی کا ہنر سیکھتی ہیں۔
تازہ ترین