• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پانچ سال اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف کہتے رہے ہم جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل نہیں ہو نے دیں گے۔اب وہی الفاظ سابق صدر آصف زرداری دہرا رہے ہیںجنھوں نے پانچ سال جمہوریت کے نام پر قائم سول حکومت کے مزے لوٹے ۔سابق صدر کے ہم رکاب صوبائی قومی اور سینیٹ کے ممبران بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے اس جمہوریت کا بھانڈہ بیچ چوراہے کے پھوڑ دیا ہے انہوں نے یہ انکشاف کسی کے اشارے پر ہی کیا ہوگااور یقینا اس کا کوئی سیاسی پس منظر ہو گا مگر جیالوں ،متوالوں، پیاروں، غمگساروں کے لئے چتاونی، حکومتیں نہ آپ کے ووٹوں سے بنتی ہیں، نہ ٹوٹتی ہیں یہ عمل کہیں اور ہوتا ہے ۔محترمہ فرماتی ہیں این آر او میں طاقتوروں نے یہ طے کروایا تھا متواتر تین الیکشنوں کی تکمیل تک ملک میں مارشل لا نافذ نہیں ہو گا۔ قارئین سن مارشل لا کا حکم بھی کہیں اور سے آیا کرتا تھا۔ پاکستان کی طرف سے یہ ضمانت ڈی جی آئی ایس آئی متوقع آرمی چیف نے دی تھی جو بعد6سال تک رہے اور وعدہ نبھاتے رہے ۔سابق حکمرانوں نے ہاتھوں پنجوںسے قومی خزانہ لوٹا مگر ضامن ٹس سے مس نہ ہوئے۔ حیرت ہے این آر او میں کسی بھی ضامن نے پاکستان کے عوام کے حقوق کی بات نہیں کی صرف ایلیٹ کے اقتدار کو تحفظ فراہم کیا ،ظاہر ہے ضامنوں کو اپنے مفاد کا تحفظ درکار تھا ۔ایلیٹ اور ضامنوں کامفاد مشترک، عوام کے مفادسے متصادم پھر عوام کے مفاد کی بات کون کریگا۔ سابق صدر امریکہ کے دورے پر ہیںاورمحترمہ شہلا رضا کا کہنا ہے وہ ضامنوں کو یاد کروانے گئے ہیںمیاں صاحب کے پانچ سال اور میرے دس سال، مگر کرنٹ سیاسی سیناریو سے معلوم پڑتا ہے جو پا لیا سو پا لیا آگے خانہ خالی ہے ۔میرا استفسار یہ ہے ۔این آر او تو بے نظیر بھٹو کے ساتھ ہوا تھا آصف زرداری توڈیل کا حصہ ہی نہیں تھے پھر سابق حکمران کس کو کیا یاد دلانے گئے ہیں کہیں ایساتو نہیں بےنظیر بھٹوسے این آر او نقلی تھا اور اصلی پس دیوار، زرداری صاحب سے ہوا تھا ۔سمجھ داروں کی رائے ہے 1987کے بعداقتدار کے نئے سیٹ اپ میں جنرل ضیاء کیلئے جگہ نہیںتھی وہ ایوان اقتدارسے جانے کوتیار نہیں تھے لہٰذاانہیں مجبورا اوپر بھیجنا پڑا ۔ ممکن ہے ضامنوں نے دو بار بے نظیربھٹوکووزیراعظم بنواکر جان لیا ہو ان تلوں میں مزید تیل نہیں۔ مقدرلکھنے والوں کوتواپنا مفاد عزیز ہوتا ہے ۔حیرت ہے ایک چھوٹے سے ملک کے سابق صدر کو ایسا شاندارپروٹوکول نائب صدر جو بائیڈن بنفس نفیس استقبال کیلئے موجود تھے۔ ایسے استقبال کی روائت تو سابق امریکی صدور کیلئے بھی نہیں ۔ کلنٹن صدراوبامہ کی دوسری تقریب حلف برداری میںشریک تھے عام مدعوئین میں بیٹھے تھے تقریب کے آخر میں کیمرے نے تھوڑی سی لفٹ کروائی۔ زرداری صاحب کے استقبال سے تو لگتا ہے اگرہمارے صدر ممنون حسین نے امریکی دورے کا عندیہ امریکی سفارت خانے بھجوا دیا تو سفیر محترم سوال نہ کر بیٹھیں یہ صاحب کون ہیں۔ صدر صاحب تو پہلے ہی امریکہ میں ہیں۔
میں بار ہا لکھ چکا ہوں جو حکومت عوام کو ڈلیور نہیں کرتی ووٹوںکے نام پر بنی ہو یا کسی طاقت کے زور پر وہ سول بھی ہوسکتی ہے مگر جمہوری نہیں۔جودانشور، تاجر، جاگیردار، صنعتکار اقتدار میں شریک ہیں یا کسی طور مستفید ہو رہے ہیں وہ سول حکومتوں کو جمہوری کہتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں جمہوریت کیلئے لمبا سفر درکار ہو تا ہے ہمیں تو ابھی تخلیق ہوئے صرف67سال ہوئے ہیں اوپر سے بار بار کے مارشل لائوں نے سول حکومتوںکو کام کرنے کا موقع نہیں دیا ۔ یہ بوگس دلائل ہیں۔ 1963میں سنگا پور برطانیہ سے آزاد ہوا ۔ 1965میںملائیشیا کی پارلیمنٹ نے اسے اپنی معیشت پر بوجھ تصور کرتے ہوئے متفقہ قراردادکے ذریعے اتحاد سے الگ کر دیا ۔لی کوان نے پہلے وزیر اعظم کے طور پر قیادت سنبھالی اور چند سالوں میں بغیر کسی نیچرل وسائل کے سنگا پور کو دنیا کی بڑی اکانومی میں تبدیل کر دیا۔ اس وقت سنگا پور دنیا کی مصروف ترین تجارتی حب تصور ہوتا ہے یورپ سے افراد ملازمت کرنے آرہے ہیں۔ لی کا شمار دنیا کے بہترین دماغوں میں ہوتا ہے۔ قوم سے محبت تھی۔ ذات یا خاندان سے نہیں،کوئی ذاتی خاندانی جائیداد بنک بیلنس نہیں۔قوم سے محبت ہی سرمایہ حیات ہے۔ 1963میں ہی ملائیشیا آزاد ہو ا،بغیر کسی بڑے نیچرل وسائل کے مہاتر محمدنے ایشین ٹائیگربنا دیا۔ ہانگ کانگ بھی یہی قصہ ہے۔ وینزویلا کو ہوگو شاہویز نے چارسالوں میں بہترین اکانومی میں بدل دیا۔برازیل چار سالوں میں مزدور رہنما صدرلولا کی قیادت میں ترقی پذیر ممالک سے آگے نکل گیا۔2014میں ورلڈکپ فٹ بال کی میزبانی سے 64ارب ڈالر کمائے ۔ یہ وہ معیشتیں جو صرف وسائل کی مینجمنٹ سے دنیا کی بہترین معیشتوںمیں تبدیل ہوئیں۔ مگر ان کے لیڈرقوم کے ہم حال تھے ہم خیال تھے۔ اکیسویں صدی میں ایکویڈور کا صدر اپنے ذاتی کچے مکان میں رہتا ہے۔
ہمارے ارباب سیاست اورارباب اقتدار مثالیں حضرت عمرؓ کی دیتے ہیں رہتے ہیں محلات میں ہیںاور باتیں انقلاب کی کرتے ہیں۔ مارشل لا انقلاب ،جمہوری انقلاب،ہم نے چہروں کی تبدیلی کا نام انقلاب رکھ دیا۔ کون لائے گا انقلاب ہزاروں ایکڑز مین پر پھیلے محلات کے مکین،لگژری کاروں جہازوں غیر ممالک میں اثاثہ جات اکائونٹس کی حامل ایلیٹ کلاس۔نام نہاد اپوزیشن، ارب پتی حضرات انقلاب لائیں گے اور کس کے خلاف، اپنے خلاف انقلاب لائیں گے وسائل پر تو یہی اشرافیہ قابض ہے۔ سب ایلیٹ ہے اور اقتدار میں حصہ دار جھگڑا اقتدار کے کیک کے بڑے ٹکڑے کا ہے عوام کے مسائل اورحقوق کانہیں ۔
دیہاتوں میں ایک سے دو گھنٹے بجلی آتی ہے اور حکمران جہاں پائوں رکھ دیں وہاں بجلی جاتی ہی نہیں ۔بیچارے عوام توّہم اور شخصیت پرستی کا شکار۔میں ایک جگہ بیٹھا ہواتھا ۔ایک صاحب کہنے لگے قوم کوبجلی کی ضرورت ہے یہ بسیں چلا رہے ہیں۔ ایسے ہی ہے جیسے بھوکے کے آگے کھلونے رکھ دیئے جائیں، چالیس ارب روپے لاہور کی ایک سڑک پر لال رنگ کی بسیں دکھانے ،کرپشن کمیشن کیلئے لگا دئیے۔ یہی سرمایہ دریائوں پر قدرتی کیری اوور ڈیمز کو پکا کرنے کیلئے لگا یا جاتا ،بجلی بھی پیداہوتی، بارشوںکا پانی فصلوں کے لئے دستیاب ہوتا اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے تحفظ بھی ملتا۔
تازہ ترین