• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رمضان کا مہینہ آیا تھا، مہنگائی کا تحفہ ساتھ لایا تھا، عید آئی، کروڑوں کی مراد بر آئی۔ عام دنوں میں کاروباری سرگرمیاں جس سطح پر ہوتی ہیں۔ رمضان میں ان کا ڈیوڑھا اضافہ ہوجاتا ہے اور ملکی معیشت ایک نیا رخ اختیار کرلیتی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس ماہ کاروباری حجم 500 اور 600ارب کے درمیان پہنچ جاتا ہے۔ اس ذیل میں سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ اس بڑھے ہوئے حجم کی سرمایہ کاری کون کرتا ہے۔ اس کے بہت سے ذرائع بھی پیدا ہوجاتے ہیں ان میں زکوٰۃ فطروں، فدیوں کی رقوم (اگرچہ یہ شرعی اہداف سے بہت کم ہوتی ہیں) کے ساتھ اسٹیٹ بنک کے فراہم کردہ نئے نوٹوں کی 67ارب کی رقم افراد کی 11 مہینوں کی جمع پونجی،بھتے، سرکاری اہلکاروں کی عیدیاں، پیشگی تنخواہوں کی رقم اے ٹی ایم سے نکالی جانے والی رقوم اور ایس کے نجی قرضے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس سے کون سے طبقے زیادہ مستفیض ہوتے ہیں، دراصل اس میں مختلف طبقات ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کاروں اوراسکوٹروں کی کمپنیوں کے گو یونٹ کم فروخت ہوتے ہیں مگر۔ حجم میں ان کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ دوسرا نمبر کپڑوں کے تاجروں اور ملبوسات فروشوں کا ہے اس میں خواتین کے ملبوسات فروش سبقت لے جاتے ہیں، مردانہ کپڑے سینے والے درزیوں کی وہ اہمیت نہیں رہی جو شیروانیوں کے زمانے میں تھی البتہ خواتین کے کپڑے سینے والوںکی مانگ بڑھ گئی ہے جو خواتین کی فرمائشوں پر نئی وضع قطع کے کپڑے سیتے ہیں۔ ان ہی کے ساتھ جوتوں کی طلب میں اضافہ ہوگیا۔ خواتین لباس کی مناسبت سے سینڈل اور جوتے خریدتی ہیں۔ مرد زیادہ تر دیسی جوتوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ساتھ ہی چمڑے کی مصنوعات جیسے بیگ، پرس اور ہینڈز بیگز کی طلب بھی بڑھی ہے۔ جہاں تک غذا کا تعلق تو اس میںکھجور کو فوقیت حاصل ہے۔ ہر چھوٹا بڑا کھجور سے روزہ افطار کرنا چاہتا ہے۔ بازار میں نہ صرف عراقی اور ایرانی کھجور بلکہ اب تو سعودیہ کی مشہور کھجور ’’عجوہ‘‘ اور کلمے والی کے ساتھ آب زم زم بھی ملنے لگا ہے مگر ان کی قیمتیں نسبتاً زیادہ نہیں ہوتیں۔ کچھ غذائیں چکن، بیسن، کالا اور سفید چنا اور خوردنی تیل کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ تلی ہوئی چیزوں میں پکوڑے، چکن، قیمہ اور آلو کے سموسے، مرغ چھولے، کچوری، پانی کے بتاشے ، چاٹ،کباب، دہی بڑے، تلی ہوئی مچھلی افطار کیلئے اور پھینی اور کھجلے سحری کیلئے درکار ہوتے ہیں۔ دودھ کی طلب بھی تقریباً دگنی ہوجاتی ہے۔ کمپنیوں کی جانب سےڈبوں میں دودھ کی فروخت سے پانی ملے دودھ کا رواج کم ہوگیا ہے مگر ختم نہیں ہوا اور یہی سستا اور غریبوں کا سہارا ہے۔ مشروبات میںسافٹ ڈرنکس سرفہرست ہوتی ہیں پھر شربت، جوس، لسی اور ستو کا نمبر آتا ہے۔ ان تمام اشیاء کا کاروبار کرنے والے خوب جائز اور ناجائز منافع کماتے ہیں۔ سنگھار میں بچیوں اورخواتین کیلئے مہندی اور چوڑیوں کی اہمیت ہے۔ مہندی کیلئے کون کے استعمال نے سہولت پیداکردی ہے اور خواتین باہمی طور پر مہندی لگا کر بچت کرلیتی ہیں۔ بیوٹی پارلر میں آرائش جمال کے درجنوں طریقے موجود ہیں اور چارجز بھی ہزاروں تک پہنچتے ہیں۔ ہوٹلوں اور کلبوں میں افطار ڈنر کا ایک نیا رواج چل پڑا ہے۔ نہ صرف خوش حال افراد بلکہ متوسط طبقہ بھی اپنے اہل و عیال اور یار دوستوں کے ساتھ باہر افطار و ڈنر کو پسند کرتا ہے۔ فائیو اسٹار ہوٹل اور کلب ڈہائی ہزار فی کس تک طلب کرتے ہیں۔ یہاں غذائی اشیاء بڑے پیمانے پر ضائع بھی ہوتی ہیں۔ بغیر ریزویشن جگہ نہیں ملتی۔ متوسط درجے کے ہوٹلوں میں بھی اب اپنی باری کیلئے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ غریبوں کیلئے لنڈا بازار بھی بھرم رکھنے کا بہت بڑا سہارا ہیں۔کروڑوں روپے کی مالیت کے یہ کپڑے ہر سال ملک میں درآمد ہوتے ہیں۔ اب تو ان کی قیمتیں بھی بہت چڑھ گئی ہیں پھر بھی یہ اترنیں غریب گھرانوں کی عورتوں اور بچوں میں خوشیوں کے پھول کھلانے کا باعث بن جاتی ہیں۔ بات کھانے پینے اور ملبوسات وغیرہ تک محدود نہیں رہتی۔ میڈیا بالخصوص ٹی وی، ریڈیو ، اخبارات، اشتہاری کمپنیاں، ہر قسم کے ٹرانسپورٹ والے سب ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے نظر آتے ہیں۔ دراصل رمضان میں غریب سے غریب آدمی کا گھریلو خصوصاً غذائی بجٹ بڑھ جاتا ہے اس کے برخلاف صنعتی اداروں کی پیداوار اوقات کار میں تخفیف، کارکنوں کی کارکردگی میں کمی کی وجہ سے گھٹ جاتی ہے۔ مقامی تجارت میں توسیع ہوتی ہے مگر رمضان میں بالخصوص ایک ہفتے کی طویل تعطیلات کی وجہ سے بین الاقوامی تجارت ٹھپ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سرکاری ریونیو کی آمدنی میں بھی کمی آجاتی ہے۔ دکانوں اور اسٹوروں میں غیر فروخت شدہ مال کے ڈھیر لگ جاتے ہیں جس کو آئندہ مہینوں میں 50/40 کی سیل یا دوسری ترغیبوں سے ٹھکانے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جن تاجروں نے ملوں، بڑے اسٹوروں سے ادھار مال خریدا تھا ان کو قرضوں کی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عام حالات میں عید کے دو تین ہفتوں کے بعد حالات معمول پر آجایا کرتے ہیں گو بیشتر اشیاء کی قیمتیں کم نہیں ہوتیں۔ اس مرتبہ 14اگست کو یوم آزادی ہے۔ حکومت اور عوام اس کو جوش و خروش سے منانے کے خواہاں ہیں۔ مگر بعض حلقوں سے انقلاب کی دھمکیوں نے سب کو پریشان کردیا ہے۔ ہونا کچھ نہیں مگر ایک انجانا سا خوف طاری ہے اس لئے اب 14اگست کی تاریخ گزرنے کے بعد اطمینان کا سانس لیا جائے گا جب صورتحال نارمل ہوگی۔
تازہ ترین