• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علاّمہ اقبال نے اپنی شہرہ آفاق نظم ’’شکوہ‘‘ میں یہ کہا تھا کہ
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
یہ شعر تقریباََ ایک صدی پہلے کہا گیا تھا۔ اس دوران دنیا میں بہت کچھ ہوا۔ بڑی جنگیں ہوئیں جن میں دوسری عالمی جنگ بھی شامل تھی۔ کئی ایک نئے ملک وجود میں آئے جن میں اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا ملک پاکستان بھی تھا۔ لیکن مسلمانوں پر مسلسل برق گرتی رہی ۔ کہنے والوں نے کہا کہ اس کا سبب قرآن و سنّت سے ہماری دوری ہے، چنانچہ ہم نے 73کے آئین میں اسلامی شقیں شامل کردیں۔ لیکن ’’برق زنی ‘‘ کم ہونے کی بجائے اور بڑھ گئی ۔ ایک بات نہ تو حضرت علاّمہ اقبال کو سمجھ آئی اور نہ ہم نے سمجھنے کی زحمت گوارا کی کہ غیر مسلم جن پر رحمتیں برستی ہیں ۔وہ کیوں برس رہی ہیں؟
کوئی مانے یا نہ مانے یہ بات تو طے ہے کہ آج اگر دنیا پر خدا کی رحمتیں برس رہی ہیں تو وہ بقول کسے ایک ایسے طبقے کے لوگوںپر برس رہی ہیں۔ جو گرجا گھروں اور مندروں میں بھی کم کم ہی جاتے ہیں اور اکثر نے تو اپنے گرجاگھروں کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کر دیا ہے یا دیگر مذاہب کودے دیا ہے کہ وہ چاہیں تو اس میں مسجدیں بنا لیں یا رفاہ عامہ کے ادارے ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ دنیا کی امامت اُن کے ہاتھ میں ہے جو بے پردہ ہیں، جہاں عورتیں مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کام کرتی ہیں، جہاں انسانوں کو سب کچھ کہنے ، سننے اور کرنے کی آزادی ہے مگر وہاں کے قانون کے اندر رہ کر۔ اور وہاں کا قانون بھی کیا ہے انسانوں کا بنا یا ہوا جسے انسان بدلتے رہتے ہیں۔ خدا کی رحمتیں قومی حمیّت اور غیرت سے محروم اُن قوموں پر برس رہی ہیں جو اپنی قومی اور نسلی شناخت کو خود اپنے ہاتھوں ختم کر رہے ہیں۔ وہ اس خوف سے اپنی آبادی کی شرح کو منفی حد تک لے گئے ہیں اور اپنی آبادی کو مسلسل کم کئے جارہے ہیں کہ زیادہ آبادی کا بوجھ غربت اور انسانی مسائل کا سبب بنتا ہے۔ انہیں اس بات کی مطلق پروا نہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی قومیّت اور مذہبی اکثریت آہستہ آہستہ اقلیّت میںتبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ وہ بڑی فراخدلی سے دوسرے ممالک اور مذاہب کے لوگوں کو اپنے معاشروں میں سموتے چلے جارہے ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے اپنے اپنے دساتیر میں اپنے اپنے مذاہب کو بھی ریاست سے علیحدہ کردیا ہے۔ خدا اور بندے کے تعلّق کو ریاست نے اپنے ذمے لینے کی بجائے خود انہی پر چھوڑ دیا ہے۔ معیشت ہماری تباہ، ثقافت ہماری تباہ(ویسے ہم گانے بجانے اور شعر و ادب کی ثقافت کو ثقافت مانتے بھی نہیں) امن و امان ہمارا تباہ، گلیاں کوچے ، بازار اور گھر ہمارے غلاظت اور گندگی سے اٹے ہوئے آخر کونسی کل ہماری سیدھی ہے؟ 77کے بعد جنرل ضیاء نے حقیقی اسلامی نظام کے لئے جو جو جتن کئے اس کے بعد تو اس معاشرے پر رحمتوں کے نزول میںکوئی رکاوٹ باقی نہیں رہنی چاہئے تھی۔ لیکن اس کے نظامِ زکواۃ و عشرنے جہاں کرپشن کے نئے دروازے کھولے وہاں ہم زکوۃ کی لازمی کٹوتی سے بچنے کے لئے جھوٹے سر ٹیفکیٹ جاری کرنے کے ریکارڈ بھی قائم کر دئیے ۔ ہر بُرائی ، ہر جھوٹ ، ہر نا انصافی اور ہر استحصال کو مذہب کے نام پر جائز کردیا گیا۔ امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں جہادکیا گیا۔ عوام کے بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق مذہب کے نام پر سلب کر لئے گئے اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔زبان اور حلئے سے مذہبی تاثر دینے کے باوجود ہمارے معاشرے پر رحمت نہیں برستی کیونکہ اسکی وجہ ہماری منافقت اور جہالت ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہم ابھی اسلامی معاشرہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ مذہب کے ساتھ زبانی وابستگی سے صرف غیر مذہبی معاشرے بنتے ہیں۔ جہاں عملی طور پرخدائی اصولوں کی توہین کی جاتی ہے۔ دنیا میں اسلام سمیت تمام مذاہب نے معاشروں میں اپنے اپنے مثبت اثرات گہرائی میں چھوڑے ہوئے ہیں۔ اب مذہب اور ریاست کے ملاپ کا مطلب صرف مذہبی اجارہ داروں کی عملداری ہے۔ جو ہم کر رہے ہیں۔ اس سے معاشرہ ترقی ، سکون اور خدائی رحمت سے اور محروم ہوتا جائے گا اور بالآخر اپنا وجود کھو دے گا۔۔ خود کو حمت کا حقدار بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم استحصال کو روکیں اور مذہب اور سیاست کو الگ الگ کردیں۔ انسانی توقیر کو بحال کریں۔
تازہ ترین