• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شیخ رشید کی اس بات میںکہ ایک قبر اور دو لاشیں، کوئی وزن نہیں ، احتجاج بھی ہوتے ہیں استعفے بھی اور واپسی بھی۔ خود کو لایعنی باتوں میں قید نہ کریں۔ احتجاج پُر امن مگر پارلیمنٹ کے سامنے منتقل ہو چکا ۔حالات بند گلی میں ہیں۔ منجدھار میںپھنسی کشتی کو کنارے لگانا سب کا فرضِ منصبی ہے۔ عمران کا جملہ ایمپائر کی جب انگلی اُٹھ جائے توبیٹسمین کو جانا پڑتا ہے ذو معنی ہے ۔ خان صاحب یہ کرکٹ نہیں سیاست کا میدان ہے اس کے دونوں طرف بیٹسمین ہیں۔ ایمپائر سامنے نہیں مگر سب کو دکھائی بھی دیتا ہے اور اس کی چاپ سب کو سنائی بھی دیتی ہے ۔
اس وقت مختلف النوع خبریں گردش میں ہیں۔ ٹیکنوکریٹ حکومت کی باتیں بھی ہورہی ہیں ،وزیر اعظم کو کمزور کرکے کچھ مہلت دیئے جانے کی بھی اور ان ہائوس تبدیلی کی بھی ۔قادری اور عمران خالی ہاتھ تو نہیں لوٹیں گے کچھ زادہِ راہ ان کے پلو میں بھی ڈالنا ہو گا ۔عمران اور قادری do or dieکے مقام پر کھڑے ہیں۔سول نافرمانی کی تحریک symbolicنظر آتی ہے عملی نہیں حکومت کو الٹی میٹم اس بات کا اظہار ہے سول نافرمانی کی عملی شکل قریب ترین مستقبل میں تو کوئی نہیں۔عمران خان کہہ چکے تھے ممکن ہے اتوار میچ کا آخری دن ہو۔ہجوم کو آگے کا کوئی راستہ دکھانے یا لانگ مارچ کے خفیہ اسٹیک ہولڈرز سے مشورے کے بعدایسا کہنا ضروری ہو گیا ہے، ورنہ ایک تو سول نافرمانی کی تحریک کیلئے عرصہ درکار ہے، دوسرے اس کی کامیابی کے امکان بہت معدوم ہیں۔ برِ صغیر میں سول نافرمانی کی تحریک برطانوی حکومت کے خلاف کامیاب ہوئی تھی ،وہ غیر ملکی تھی اور سارے ہندوستانی عوام اپنی قیادت کے ساتھ کھڑے تھے، آزادی کا مطالبہ تھا ۔دوسری مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی تھی ۔عوامی لیگ نے1970کے الیکشن میں کلین سویپ کیا تھا ایک بھی صوبائی سیٹ کسی اور پارٹی کو نہیں ملی تھی مرکز میںصرف دو سیٹوںپر عوامی لیگ مخالف نورالامین اورراجہ تری دیو جیتے تھے۔پوری بنگالی قوم عوامی لیگ کے ساتھ کھڑی تھی ۔ عمران خان اور قادری صاحب کی ایسی پوزیشن نہیں۔ انہوں نے لفظ سول نافرمانی محض استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔اس طرح کی نعرے بازی پہلے بھی ہوتی رہی ہے ،عمران کا پیغام ان لوگوں کیلئے ہے جو ان سے متفق ہیں زبردستی تو کسی سے نہیں۔ وزیراعظم کو بھی ایوان اقتدار کی استراحت سے باہر آنا ہو گا،معاملات اتنے سیدھے نہیں جتنے انہیں نظرآتے ہیں ،پردے کے آگے پیچھے بہت کچھ ہے۔ لاہور میں بھی انتظامیہ پہلو بچاتی نظر آئی اور خبریں ہیں اسلام آباد کی انتظامیہ کا رویہ بھی مختلف نہیں۔ 3جولائی سے قبل حالات وزیراعظم کے کنٹرول میں تھے صرف 4حلقوں کی دوبارہ گنتی کا سوال تھا ،حیرت ہے آپ جیتے ہیں تو آپ کی بلا سے دس بار گنتی کروا لیں،آپ کا دامن تو صاف ہے۔ حکومت خیبر پختونخوا میں بھی مشکوک حلقے کھلوائے ۔ 14لاشوں کی ایف آئی آر کے اندراج کی بات ہے۔ تو سیدھا سادہ قانون ہے وقوعہ کی ایف آئی آر کا اندراج وقوعہ کے متاثرین کے ورثا کا حق ہے ،ان کا جو بھی موقف ہے قانون اسے درج کرکے تفتیش کا پابند کرتا ہے۔ وزیراعظم کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا ۔حقائق کا ادراک کرنا ہوگا۔
زرداری صاحب کے تعاون پر تکیہ حقائق کو تبدیل کرنے کےلئے کافی نہیں۔ پارلیمنٹ سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لے لیںلیکن مسئلہ پارلیمنٹ کے اعتماد کا نہیں اسلام آباد میں کھڑے احتجاجیوںکے دبائو کا ہے اشتعال بڑھنے کا ہے۔ زرداری صاحب کا مشورہ گونگلوں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہے اس میں کوئی حکمت اور دانائی چھپی نہیں۔پارلیمنٹ کا اعتماد تو زیر بحث ہے ہی نہیں، ایشو تو دھاندلی ہے ،مقدمے کا اندراج ہے خراب گورنس ہے ،قومی امانت کی حفاظت ہے ،کرپشن لوٹ مار ہے لایعنی اور غیر پیدا واری منصوبے ہیں۔اور جمہوریت کی صفیں کسی آئینی ترمیم کے ذریعے لپیٹنے کا شک ہے۔حکومت کا موقف ترقی کو نہ روکا جائے، جو حکمرانوں کے علاوہ اور کسی کو نظر نہیں آتی۔
ریڈ زون میں داخلے پر حکومت نے مزاحمت نہ کرکے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ۔پارلیمنٹ سپریم کورٹ پرائم منسٹر ہائوس عوام کی ملکیت ہیں پھر عوام کا جانا منع کیوں ۔یہ کہنا استعفیٰ سے فلاں کی سیاست ختم ہو جائیگی اور نرم شرائط ماننے پر فلاں کی تو یہ غیر حقیقی ہے ، جب مطالبات نہ مانے جائیں تو لوگ سڑکوں پر آتے ہیں ۔مقاصد حاصل ہوجائیں تو واپسی ہوتی ہے ۔احتجاج میں مطالبات بڑھا چڑھا کر ہی رکھے جاتے ہیں، سب حاصل کرنا مقصد نہیں ہوتا۔اس وقت حالات بند گلی میں اورتمام راستے اسی گلی میں گُم ہو جاتے ہیں۔مگر کچھ تو کرنا ہوگا،گرداب میں پھنسی کشتی کو نکالنا ہو گا ۔ عمران کا جملہ ایمپائر کی انگلی اُٹھ جائے تو بیٹسمین کو جانا پڑتا ہے ۔ایمپائر کو باہر آنا ہو گا انگلی اُٹھا نا ہو گی ،ایسا نہ ہو حالات ایمپائر کی انگلی سے بھی نکل جائیں۔عمران سمیت سب کو سمجھنا ہو گا دشمن پوری تیاری کر چکا ہے ۔
تازہ ترین