• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مروجہ عالمی معیشت نے جمہوری اور فلاحی ریاست کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور neoliberal پالیسی کے زیرِ اثر نئی معاشی اور سیاسی قوتیں وجود میں آئیں جنہوں نے روایتی جمہوری اور معاشی نظام کو بحران میں مبتلا کر دیا۔ جمہوری نظام جو وہاں موجود ہے نئے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے نااہل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے رہنما تبدیل شدہ صورتِ حال سے پوری طرح آگاہ نہیں اور وہ اُسی نظام کو پاکستان کے لیے بھی مشعلِ راہ سمجھتے ہیں جو شدید مالی اور بیروزگاری کے بحران میں مبتلا ہے۔
مغرب کے رہنما اور معاشی منتظمین بھی بحران کا حل اسی جمہوری دائرے میں ڈھونڈ رہے ہیں جو وہاں پچھلی صدیوں میں پروان چڑھا تب وہاں وہ سرمایہ داری نظام تھا جس کی قیادت صنعتی سرمایہ داروں کے پاس تھی لیکن 1980ء کی دہائی کے بعد صورتحال بدل چکی ہے۔ اب سرمایہ دارانہ ممالک میں طاقت صنعتی سرمایہ داروں کے ہاتھوں سے نکل کر مالیاتی سرمایہ داروں (Finance Capitalist) کے پاس پہنچ چکی ہے۔ مگر نئے سرمایہ دارانہ نظام کے دور میں سماج اور سیاست کی طاقت اُن ہی سیاسی پارٹیوں کے پاس ہے جو پرانے سرمایہ دارانہ نظام میں پروان چڑھیں، اور اسی کلچر کی حامل ہیں جب سیاسی طاقت صنعتی سرمایہ کاروں اور تب رائج مشینوں سے آشنا لیبر کے ہاتھ میں تھی۔ اب یہ دونوں طبقات یعنی صنعتی سرمایہ دار اور روایتی لیبر اپنا بہت سا اثر و نفوذ کھو چکے ہیں اور ان کی جگہ مالیاتی سرمایہ کار اور کمپیوٹر آشنا افرادی قوت نے لے لی ہے۔ روایتی سیاسی طاقتیں جو ابھی تک موثر ہیں، تنگ نظر قوم پرستانہ نظریات اور مفاد کی حامی ہیں جبکہ مالی اور معاشی نظام کی عالمی حیثیت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ نئے نظام کی مشکل یہ نہیں کہ اس کو چلانے والے بدستور تنگ نظر قوم پرست ہیں۔ علاوہ ازیں مسئلہ یہ بھی ہے کہ عالمی مالی اور معاشی نظام کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کوئی عالمی انتظامی ڈھانچہ نہیں۔ وہاں یہ احساس موجود ہے۔ مگر بڑے ملکوں (G-8 اور G-20 ملکوں) کی قیادتیں کوئی عالمی انتظامی ڈھانچہ قائم کرنے پر متفق نہیں جس سے قومی معیشت پر ان کا کنٹرول کمزور ہو جائے۔ گویا بحران اس تضاد کی وجہ سے ہے جو روایتی قوم پرستی اور نئی عالمی معیشت اور عالمی گائوں کے تقاضوں کے مابین پایا جاتا ہے۔
یہ مسئلہ جلد حل نہ ہوگا چنانچہ مغرب میں معاشی اور جمہوری نظام کو جو مشکلات درپیش ہیں وہ کچھ عرصہ جاری رہیں گی اگر وہ بظاہر حل ہو جائیں تو یہ حل عارضی ہوگا۔ مستقل حل یہ ہے کہ نئے سرمایہ دارانہ نظام نے جس بحران کو اُبھارا ہے اُس کی جڑوں اور بنیادی وجوہ کو دُور کیا جائے۔ خیال رہے کہ مالی بحران اور بیروزگاری معاشی بیماری کی علامتیں ہیں، وجوہ نہیں۔ وجوہ یہ ہیں کہ دولت کی طبقاتی اور علاقائی تقسیم میں غیرمعمولی ناہمواری کو دُور کیا جائے جسے نئی عالمی معیشت نے بڑھایا۔ گویا حل G-8 اور G-20 ملکوں کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر منصفانہ نظام کی جانب پیش رفت سے ہے۔
سوال کیا جا سکتا ہے کہ ہم صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ نہیں، اس لیے ہمارے لیے روایتی جمہوری قواعد اور ڈھانچہ بے ربط نہیں۔ غور سے دیکھا جائے تو یہ دلیل صحیح نہیں۔ مغرب میں صنعتی ترقی میں لوٹ مار بڑا کردار تھا۔ مغربی ممالک نے اپنی کالونیوں اور مقبوضہ علاقوں کو بے حساب لوٹا۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں بیرونی ممالک سے لوٹ مار کی دولت نہیں آئے گی بلکہ یہاں حکمران طبقات اپنے ملک اور عوام کو ہی لوٹ کر دولت بیرونِ ملک منتقل کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے معاشرے، معیشت اور سیاست پر جن طبقات کا قبضہ ہے وہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کا رویہ نہیں رکھتے۔ بلکہ اُنہوں نے ان اداروں کو کرپٹ کر دیا ہے جو جمہوریت کے پنپنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بھارت میں جمہوری ڈھانچہ اس لیے برقرار ہے کہ وہاں ریاست نظریاتی انتشار میں مبتلا نہیں۔ وہاں صنعتی ترقی کا عمل پہلے شروع ہوا۔ صنعتی سرمایہ کاروں نے جمہوری عمل میں اہم رول ادا کیا۔
ہماری ضرورت یہ ہے کہ ہماری سماجی اور سیاسی طاقت کرپٹ اشرافیہ کے ہاتھ سے نکلے اور اُن طبقات کو منتقل ہو جائے جن پر کرپشن کا الزام نہیں۔ متوسط اور پڑھے لکھے عوام کو سیاست میں شرکت ملے۔ جس قدر ممکن ہو تبدیلی کا یہ عمل جلد ہو۔ جمہوری عمل کو مستحکم کرنے کے لیے معیشت کی منصفانہ خطوط پر استواری مددگار ہوگی۔ دولت کی پیداوار اور تقسیم کا دائرہ جتنا وسیع ہوگا معاشرے میں انصاف اتنا ہی بڑھے گا۔
تازہ ترین