• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز پاکستان میں ہمیشہ سیاسی تصادم کے نتیجے میں غیر سیاسی قوتوں کو کامیابی ملی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو ماہ سے وہ غیر سیاسی قوتیں جو ہمیشہ فوج کے کندھوں کو استعمال کر کے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتی ہیں ایک بار پھر سرگرم عمل ہوگئی ہیں۔ان غیر سیاسی قوتوں کا خیال تھا کہ اگر وہ چند ہزار افراد کو لے کر اسلام آباد پہنچ جائیں گے تو ان کو ان کی سوچ اور فکر میں کامیابی ملے گی لیکن پاکستان کی مسلح افواج نے بالخصوص سپہ سالار قوم جنرل راحیل شریف نے انتہائی حکمت اور تدبر سے ان قوتوں کی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ لیکن یہ سمجھ لینا کہ یہ سازشیں مکمل طور پر ختم ہو گئی ہیں کسی بھی طور پر درست نہیں ہے ۔ پاکستان جن حالات کا شکار ہے اور مستقبل قریب میں پاکستان کے اردگرد جو حالات پیدا ہونے والے ہیں ان کے تناظر میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ غیر مستحکم اور کمزور پاکستان ہی ان قوتوں کا خواب ہے جو افغانستان اور ہندوستان کے مسئلے پر پاکستان پر اپنی پالیسیاں مسلط کرنا چاہتے ہیں اگر ہم گزشتہ دو ماہ کے دوران پیدا ہونے والے حالات و واقعات کا جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی جو سازش کی گئی اس میں کافی حد تک وہ قوتیں کامیاب ہوئیں جو نہیں چاہتی تھیں کہ پاکستان میں چین کے صدر آئیں یا جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف عالمی رہنمائوں سے مل کر اس خطے کی صورتحال پر واضح طور پر پاکستان کا مؤقف بیان کر سکیں اور منوا سکیں۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف پاکستان کی سیاست میں 14 اگست کے بعد جو مسلسل تلخی پیدا ہو رہی ہے اور جو سیاسی قائدین ایک دوسرے کے بارے میں جملے استعمال کر رہے ہیں وہ بھی کوئی مثبت سمت اشارہ نہیں دے رہے ۔ سیاسی ماحول میں تلخی ماضی میں بھی پیدا ہوتی رہی ہے لیکن جس انداز سے یہ تلخی اس وقت مختلف جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان پیدا ہو گئی ہے اور ہو رہی ہے وہ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل چاہنے والوں کے لئے قابل تشویش ہے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ، طاہر القادری اور ان کے بعض ساتھیوں نے سیاسی قائدین کے بارے میں جو انداز اختیار کیا وہ شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے اور اب نظر ایسا آ رہا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت کی پگڑی کسی دوسری جماعت کے کارکنوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہے گی اور اس شدت کی آگ کی تپش اب تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں کو بھی محسوس ہونے لگی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عمران خان ، شیخ رشید اور طاہر القادری اپنے خطبات کے جوش میں وہ جملے بھی ادا کر رہے ہیں جو بہر حال مہذب معاشروں میں اپنے بد ترین دشمنوں کے لئے بھی استعمال نہیں کیے جاتے اور اسی طرح کے کچھ جملے مسلم لیگ نواز کے بعض وزراء کی طرف سے بھی ادا کیے گئے ہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ عمران خان جن کو پاکستان کے لاکھوں عوام نے ووٹ دیئے ہیں اور نوجوانوں میں ان کی مقبولیت بعض دیگر قائدین سے کہیں زیادہ ہے ، جو لہجہ اور رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں اس کے مضر اثرات معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں ۔ عمران خان نے عید کی رات اپنی خطابت کے جوش میں جو کلمات رسول اکرم ؐ سے منسوب کر دیئے وہ بھی قابل افسوس ہیں۔ ان واقعات کو کئی دیگر جملوں کے استعمال سے بھی بیان کیا جاسکتا تھامگر افسوس کہ طاہر القادری اور عمران خان اپنی خطابت کے جوش میں اسلام، پاکستان،اکابرین اسلام ، خلافت راشدہ کے دور کے بارے میں ایسے جملے ادا کر دیتے ہیں جو اہل اسلام اور اہل پاکستان کیلئے تکلیف دہ ہوتے ہیں ۔ جس سے ان قائدین کو بہر حال گریز کرنا چاہئے ۔
پاکستان کا سیاسی ماحول جس انداز میں تلخ ہوتا چلا جا رہا ہے اس کے نتائج کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے مفید نہ ہیں نہ ہو سکتے ہیں۔آج اگر عمران خان اور طاہر القادری کےکارکنان دیگر جماعتوں کے قائدین کا گھیرائو کر کے ان پر نعرے بازی کریں گے تو کل دیگر جماعتوں کے کارکن بھی جب یہی رویہ اختیار کریں گے تو اس سے تصادم کی راہ ہموار ہو گی اور یہ تصادم گلی گلی ، محلے محلے میں نفرتوں کو جنم دے گا جس کا فائدہ سیاست دانوں کو نہیں غیرسیاسی عناصر کو ہو گا۔ وہ غیر سیاسی عناصر جو سیاسی قوتوں کے اتحاد اور سپہ سالار قوم جنرل راحیل شریف کے فوج کو سیاست میں شریک نہ کرنے کے عزم کی وجہ سے اس بار ناکام ہوئے ہیں مستقبل میں اس سیاسی تصادم کا فائدہ اٹھانے کی ایک بار پھر کوشش کریں گے۔ عمران خان ہوں یا نواز شریف ، آصف زرداری ہوں یا مولانا فضل الرحمٰن سب کو ایک بات جان لینی چاہئے کہ جمہوریت چلے گی تو پاکستان آگے بڑھے گا اور جمہوریت کا تسلسل مفاہمت میں ہے محاذ آرائی میںنہیں ہے۔محاذ آرائی کرنے والے اور محاذ آرائی چاہنے والے غیر سیاسی اور غیر جمہوری رویوں کے ترجمان ہیں اور ان غیر سیاسی عناصر کی ناکامی اسی صورت ممکن ہے جب پاکستان سے محبت کرنے والی سیاسی و جمہوری قوتیںاپنی انائوں کو قربان کر کے آپس میں یکجا ہو کر معاملات کی اصلاح کے لئے مذاکرات کی میز پربیٹھیں اور قوم کو مزید بحران میں ڈالنے کی بجائے بحران سے نکالیں اور اب و ہ وقت آ گیا ہے کہ اس میں تاخیر نہ کی جائے اور تلخ سیاسی فضا کو ختم کر کے ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت سے بات چیت کے راستے کو ہموار کیا جائے وگرنہ خدانخواستہ نہ صرف سیاسی اور جمہوری کلچر کو نقصان ہو گا بلکہ سیاسی تصادم سے پاکستان کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس کی ذمہ داری ان عناصر پر ہو گی جو پارلیمنٹ اور جمہوریت کا راستہ چھوڑ کر تشدد کا راستہ اختیار کررہے ہیں اور کریں گے۔
تازہ ترین