
منڈیاں قائم ہوئی تھیں۔ ان میں سب سے بڑی سہراب گوٹھ پر واقع ہے اس کو نہ صرف ملک کی بلکہ ایشیا کی سب سے بڑی منڈی کہا جاتا ہے۔ یہ ساڑھے چھ سو ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی، حکومت نے اس کو بہتر بنانے کے لئے پانی، بجلی اور دوسری سہولیات فراہم کیں، مثلاً بینک، ہوٹل، دکانیں، مویشی کے علاج معالجے کی سہولتیں، مساجد وغیرہ۔ اس علاقے کو 21بلاکوں میں تقسیم کیا گیا، بڑے جانوروں کی فیس داخلہ ایک ہزار اور چھوٹے جانوروں کے لئے 600 روپے رکھی گئی، ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ سیاست اور معیشت سے وی آئی پی کلچر ختم کرنے کے مشورے ہورہے ہیں اور یہاں 3بلاک وی آئی پی مویشیوں کے لئے مخصوص کئے گئے، ان سے ایسے مویشی مراد تھے جن کی قیمتیں لاکھوں میں تھیں ان ہی میں ’’گلابی ببلو‘‘ شامل تھا۔
عید سے چار روز پہلے ایک ٹیم نے منڈی کا سروے کیا تو اس کو بتایا گیا کہ اب تک یہاں ڈھائی لاکھ بڑے جانور جیسے گائے بیل، اونٹ اور 70ہزار چھوٹے جانور بکرے، دنبے، بھیڑ داخل ہوچکے ہیں جانوروں کی قیمتیں ان کے وزن تنومندی اور خوبصورتی پر منحصر ہوتی ہیں، ایک متوسط گائے 30 سے 60ہزار ایک بکرا 15ہزار سے 25ہزار کے درمیان اور اونٹ لاکھ، سوا لاکھ میں مل جائے گا۔
ویسے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بڑی رقم مویشی کی خریداری پر صرف ہوتی ہے اور مویشی دیہات سے آتے ہیں اس لئے عید الاضحٰی پر دیہاتی مال دار ہوجائیں گے، مگر یہ نظریہ سو فیصد درست نہیں کہ اوّل تو انہیں قربانی کے جانوروں کو پالنے میں کئی ماہ غیرمعمولی اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں، پھر ٹرک وغیرہ سے مویشی منڈیوں تک پہنچانا پڑتا ہے، سرکاری فیسوں کے علاوہ غیرسرکاری بھتے بھی بھرنا پڑتے ہیں، شہروں میں مویشی کے لئے سبز اور خشک چارہ، بھوسہ وغیرہ مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے واپسی پر ڈاکوئوں اور رہزنوں کے سامنے کا خطرہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے، پھر ان ساری ادائیگیوں سے جو رقم بچ جاتی ہے اس سے مکان تعمیر کرلیتا ہے، ٹریکٹر وغیرہ خرید لیتا ہے اپنے بچوں کو اعلٰی تعلیم کے لئے یورپ اور امریکہ بھیج دیتا ہے جو زیادہ عیش و تفریح کرکے زاد راہ ختم ہوجانے پر واپس آجاتے ہیں۔
یہ سمجھنا کہ عید الاضحٰی پر شہریوں کو کچھ نہیں ملتا ایک بڑا مغالطہ ہے، عید سے کافی پہلے چھرے، چھریوں اور کلہاڑیوں کی تیاری، ان کی سان گری، بغدے، رسیوں، پٹوں، جانوروں آرائشی ہاروں، گھونگھروں، سیٹوں کا سامان سب شہر والے تیار کرتے ہیں، مویشی اور گوشت کی نقل و حمل میں شہری ٹرانسپورٹر خوب کماتے ہیں۔ قصائی زیادہ تر شہری ہوتے ہیں، جو گائے کے 8 سے دس ہزار بکرے کے دو تین ہزار، بھیڑ کے پندرہ سو وصول کرلیتے ہیں، پھر ان ہی کے بھائی بند قیمہ بنانے، پائے بنانے کے فی کلو کے نام سے رقم وصول کرتے ہیں یوں شہریوں کے حصے میں 40فیصد رقم آجاتی ہے، قربانی کی کھال کو فروخت کرنے کی اجازت نہیں اس لئے سیاسی جماعتیں، اسپتال، یتیم خانے، فلاحی ادارے یہ کھالیں وصول کرنے میں بڑی سرگرمی دکھاتے ہیں، دباغتی کارخانوں (ٹینریز) کے مطابق اس سال 8ملین جانور ذبح ہوں گے ان میں 2.5 ملین گائیں، 4ملین بھیڑیں، اور ایک ملین بکرے کی کھالیں ہوں گی، گائے کی کھال کی قیمت 3800 روپے، بکری اور بھیڑ کی 375 روپے ہوگی، اور کھالوں کی تجارت 11بلین تک پہنچ جائے گی (یہ اعداد میں نے ٹینریز سے حاصل کئے ہیں) رہا جہاں تک مسئلہ عید الفطر کا تو سوائے زکوۃ کی اس معمولی رقم کے جو سفرا کے ذریعہ دیہات کے اداروں میں پہنچ جائے ساری رقم شہر کے اداروں تک ہی محدود رہتی ہے، کپڑوں، سلے ہوئے ملبوسات، جوتے اصلی اور نقلی زیورات، عیدیاں، میٹھائیاں، ہوٹل بازیاں سب شہری چونچلے ہیں اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ عیدالاضحٰی اور عیدالفطر میں دونوں میں دیہی عوام محروم ہی رہتے ہیں اور خوشیوں کی مالی جھولیوں سے شہریوں ہی کے دامن بھرتے ہیں۔