• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جناب آصف علی زرداری ہمارے عہد کے ایک نمایاں سیاستدان ہیں اور شاید سب سے زیادہ متنازع بھی۔ ان کے چاہنے والے بھی بے شمار ہیں اور ان پر تنقید کرنے والے بھی کم نہیں۔ ان کی بہت سی پالیسیوں سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے۔کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے مزاحمتی کردار کو کافی حد تک تبدیل کردیا ہے جس نے اپنے وقت کے تمام فوجی ڈکٹیٹروں اور ان کے منظورِ نظر سیاستدانوں کے خلاف بحالی جمہوریت کی طویل جدوجہد کی اور قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ ایک ایسے زیرک سیاستدان کے روپ میں سامنے آئے جنہوں نے پیپلز پارٹی کے مزاحمتی کردار کو ایک نئی سمت عطا کی۔ اور اسے بحالیٔ جمہوریت کی تحریک سے بقائے جمہوریت کی جدوجہد میں تبدیل کردیا اور یوں ان کی حکومت پاکستان کی وہ پہلی منتخب جمہوری حکومت قرار پائی جس نے اندرونی اور بیرونی مقتدر حلقوں کی پے در پے سازشوں اور دبائو کے باوجود اپنی معیاد پوری کی۔ جو بذاتِ خود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔اگرچہ اس دوران ان کی حکومت بوجوہ عوام کی توقعات پر پوری نہ اتر سکی لیکن ان کے کریڈٹ میں یہ بات جاتی ہے کہ ان کی حکومت کے دوران پوری طرح جمہوری اصولوں پر عمل کیا گیا ۔ کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ ان کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ ذرائع ابلاغ اور تحریر و تقریر پرکوئی پابندی نہیں لگائی گئی ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی خوفناک کردار کشی کو بھی مسکراتے ہوئے برداشت کیا۔ صرف یہی نہیں ان کے دور میں ہونے والی آئینی ترامیم نے نہ صرف صوبائی خود مختاری کے دیرینہ مسئلے کو مثبت انداز میں حل کیا اور بہت سے امورمرکز سے لے کر صوبوں کو دئیے گئے بلکہ اپوزیشن کی مشاورت کے ساتھ ایک غیر جانبدارانہ نگران حکومت کے قیام کی روایت بھی ڈالی جس کے تحت عام انتخابات منعقد کئے گئے ۔ اگرچہ اس کے باوجود عام انتخابات میں دھاندلی کی شکایات سامنے آئیں لیکن بہر حال یہ ایک اچھا آغاز ہے جسکی وجہ سے بتدریج ہماراانتخابی عمل بہتر سے بہتر ہوتا جائے گا۔ صرف یہی نہیں اُنہیں اس جمہوری روایت کے بانی ہونے کا کریڈٹ بھی ملے گا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے عام انتخابات میں اپنے ’’ جائز تحفظات‘‘ کے باوجود اپنی شکست تسلیم کی اور اپنی اپوزیشن کو خندہ پیشانی کے ساتھ اقتدار منتقل کیا۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کو پھر سے متحرک کرنے کے سلسلے میں جناب آصف علی زرداری نے پارٹی کے پرانے نظریاتی کارکنوں کے ساتھ ملاقاتوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ۔ اسی حوالے سے پیپلز پارٹی کے انتہائی متحرک سیکرٹری اطلاعات لاہور برادرم فیصل میر اور محترمہ مہرین انور راجہ نے مجھے اور میری زوجہ کو زرداری صاحب سے ملاقات کے لئے مدعو کیا۔ تیس منٹ کی اس ون ٹو ون ملاقات میں مجھے زرداری صاحب کی شخصیت اور ان کے خیالات کو سمجھنے میں کافی مدد ملی۔ انہوں نے میری تنقید کو بھی مسکرا تے ہوئے سنا اور میرے تیکھے سوالات کا جواب بھی خندہ پیشانی سے دیا۔ پیپلز پارٹی کے روایتی کردار میں تبدیلی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں اس سلسلے میں مجھ پر بہت تنقید کی جاتی ہے ۔ لیکن ہمیں اس مسئلے کو حالات کے حقیقی تناظر میں دیکھنا چاہئے ۔ بحالی جمہوریت کے لئے پیپلز پارٹی کے ورکروں کی قربانیوں کو میں ہی نہیں ساری دنیا سلام پیش کرتی ہے۔ لیکن مجھے اس سے بھی مشکل ٹاسک ملا تھا اور وہ تھا بڑی مشکلوں سے بحال ہونے والی جمہوریت کو بچانا۔ جسے ختم کرنے کے لئے ہر طرف سے کوششیں کی جارہی تھیں کبھی عدلیہ کی طرف سے وار پہ وار کیا جاتا تھا، کبھی ہمیں میمو گیٹ اسکینڈل میں ملّوث کرنے کی سازشیں کی گئیں یہاں تک کہ ہمارے وزریرِ اعظم کو بھی عدلیہ کی طرف سے مستعفی ہونے پر مجبور کردیا گیا۔ جسکی مثال دنیا کی جمہوری تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ عوام کو تو ان سازشوں کا صرف 30فیصد تک علم ہے جو جمہوری حکومت کو ختم کرنے کے لئے کی جارہی تھیں۔ باقی میں جانتا ہوں یا خدا جانتا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں نے پیپلز پارٹی کا مزاحمتی کردار ختم کردیا ہے میں اُن سے پوچھتا ہوں کہ جمہوریت کو بچانے کے لئے میں نے جو کردار ادا کیا ہے کیا وہ مزاحمتی کردار نہیں تھا؟ کیا میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل گیا تھا؟ کیا میں نے کامیابی کے ساتھ جمہوری عمل کا دفاع نہیں کیا؟ حالانکہ اس دوران ہم عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جو کچھ کرنا چاہتے تھے وہ بھی نہ کر سکے جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا کیونکہ ہماری ساری توانائیاں جمہوریت کو بچانے میں صرف ہوتی رہیں۔ اگر ہم ناکام ہوجاتے تو ہم پر نا اہلی کا الزام لگانے والے تو شاید کسی چور دروازے سے اقتدار میں شامل ہو جاتے۔ لیکن پیپلز پارٹی ہی وہ پارٹی ہوتی جو ایک مرتبہ پھر بحالی جمہوریت کے لئے ماریں کھا رہی ہوتی۔ میں نے ایمانداری سے بی بی شہید کی مفاہمت کی پالیسی پر عمل کیا۔ یہاں تک کہ میمو گیٹ اسکینڈل میں میاں نواز شریف بھی ہمارے خلاف کورٹ میں چلے گئے جس کا مجھے بہت دکھ ہوا لیکن جب عمران خان اور طاہر القادری کی وجہ سے میاں نواز شریف کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوا تو میں نے اپنے ذاتی دکھ کو ایک طرف رکھ دیا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ مسئلہ نواز شریف حکومت کا نہیں ، جمہوریت کا ہے۔ جسے بچانا ہر پاکستانی کا فرض ہے کیونکہ جمہوریت کی پامالی کی وجہ سے ہی مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوا تھا۔ ہمیں بھی انتخابات میں دھاندلی کی شکایات تھیں لیکن اب ہمیں جمہوری کلچر کو اپنانا ہوگا ہمارا احتجاج بھی جمہوری اقدار کے مطابق ہونا چاہئے۔ اگر پاکستان کو دوبارہ جمہوریت سے دور کیا گیا تو خدانخواستہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔ ہم نے بی بی کی شہادت کے بعد بھی ’’کھپّے پاکستان‘‘ کا نعرہ دیا تھا اور پاکستان کے وفاق کو بچانے کے لئے اب بھی ہر قربانی دیں گے۔ میرا ایمان ہے کہ اگر اگلے پندرہ سال تک پاکستان مضبوطی سے جمہوریت پر کاربند رہا تو ہم ایک عظیم قوم بننے کی بنیادیں مستحکم کردیں گے۔ میں اپنا معاملہ عوام اور تاریخ پر چھوڑتا ہوں کہ میں نے پاکستان کو مضبوط کیا ہے یا کمزور۔ پارٹی پروگرام کے بارے میں میرے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ہم پیپلز پارٹی کو بائیں بازو کی ایک ترقی پسند پارٹی بنائیں گے کیونکہ اب عوام قربانیوں کے نام پر نہیں اپنے مسائل کے حل کے لئے ووٹ دیں گے۔ ہم تمام لبرل اور پروگریسو قوتوں کو ساتھ لیکر چلیں گے اور عوام کے بنیادی مسائل روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی یقینی بنانے والا پروگرام دیں گے۔ بلاول کی سیاست کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بلاول نوجوان اور تعلیم یافتہ ہے، اس کے اندر جوش اور ولولہ ہے۔ اب نوجوان ہی اس ملک کو غربت، جہالت، بیروزگاری اور مذہبی انتہا پسندی سے نکال سکتے ہیں۔ بلاول کے اندر اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کا وژن اور شہید بی بی کی جرأ ت ہے۔ وہ حقیقی نوجوان قیادت ہے جو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
آصف علی زرداری کے بطورِ سیاستدان کردار کو تو بقول زرداری صاحب تاریخ ہی متعین کرے گی لیکن میرا یہ خیال ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حیاتِ ثانیہ اور پاکستان کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے انقلابی پروگرام اور بائیں بازو کے ساتھ تعلق کو بحال کرے۔ اپنے ورکروں کو عزت اور وقار کے ساتھ فعال کرے جبکہ انہیں اپنے پروگرام کو نافذ کرنے کے لئے زرداری صاحب کے تجربے اور ہوش کے ساتھ ساتھ نوجوان بلاول بھٹو کے جوش کی بھی ضرورت ہے۔
تازہ ترین