• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ کے سینئر سیاست دانوں کا ایک اجلاس اگلے روز کراچی میں پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) سندھ کے صدر اور وفاقی وزیر پیر صدرالدین شاہ راشدی کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا،جس میں تین سابق وزرائے اعلیٰ سندھ ممتاز علی بھٹو ،لیاقت علی خان جتوئی اور ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے علاوہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی الہٰی بخش سومرو اوردیگر سیاست دانوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں ہورہی ہیں ۔ بعض رپورٹوں کے مطابق سندھ کے یہ سینئر سیاست دان پہلے صوبے کی سطح پر اوراس کے بعد مرکز کی سطح پر ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے کے لئے کوششیں کررہے ہیں ۔ ان رپورٹس میں کسی حد تک صداقت بھی ہوسکتی ہے کیونکہ نہ صرف سندھ بلکہ دیگرصوبوں کے بھی کئی سینئر سیاست دان ایسے ہیں جنہیں ایک سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہے ۔ ان سینئر سیاست دانوں کا پاکستان کی سیاست میں انتہائی اہم کرداررہا ہے اور اب بھی وہ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سینئر سیاست دانوں کی اس وقت کسی بڑی سیاسی جماعت میں کوئی مناسب ’’ ایڈجسٹمنٹ ‘‘ نہیں ہے مذکورہ اجلاس میں زیادہ تر وہ سیاست دان شریک تھے،جو حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کیساتھ رہے لیکن وہاں انکی وہ پذیرائی نہیں ہوئی، جو ہونی چاہئے تھی ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سیاست دان مسلم لیگ (ن)کی قیادت سے ناراض ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو سینئر سیاست دانوں کیساتھ ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے ۔
آج کل ہر پارٹی میں یہ نعرہ لگایا جا رہا ہےکہ نوجوان قیادت کو آگے لایا جائے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ سینئر لوگوں کو نظر انداز کردیا جائے۔ سیاسی جماعتوں میں نئے خون کا آناضروری ہے لیکن نوجوان نسل کو سینئرلوگوں سے رہنمائی کی بھی ضرورت ہے ۔ 18 اکتوبر کو کراچی میں پیپلز پارٹی کے جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے سینئررہنما چوہدری اعتزازاحسن نے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو یہ مشورہ دیا کہ نوجوانوں کو آگے لایا جائے اور50 سال سے زیادہ عمرکے لوگ اب پیچھے بیٹھ کر کام کریں ۔ چوہدری اعتزاز احسن کی اس بات سے خود جلسے کے شرکاء نے اتفاق نہیں کیا اگر وہ اتفاق کرتے تو اعتزاز احسن کی بات پر تالیاں بجاتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ بلاول بھٹو زرداری کےاردگرد اگرچہ اس وقت نوجوانوں کی ٹیم ہے اور وہ بہت جذباتی انداز میں اپنے بیانات دے رہے ہیں لیکن انہیںجلد اندازہ ہو جائے گا کہ سینئر لوگوں کے تجربات کی اہمیت کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لئے ہر ممکن راستہ اختیار کریں گے ۔ اس کیلئے بھی انہیں سینئر لوگوں کی رہنمائی کی ضرورت پڑے گی۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی نوجوان قیادت کو آگے لانے پر زور دے رہے ہیں اوراس وقت ان کی مقبولیت کا عروج ہے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا یہ ہے کہ غبارے سے ہوا جلد نکل جائے گی۔ آصف علی زرداری کی یہ بات اس لئے قرین از قیاس لگتی ہے کہ عمران خان سینئر لوگوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ سب سے زیادہ غلطی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کر رہی ہے، جس نے اپنے سینئر لوگوں کو بہت زیادہ نظر اندازکیا ہے اور یہ لوگ ایک الگ پلیٹ فارم بنانے پر مجبورہورہے ہیں ۔ موجودہ ہیجان انگیز سیاسی ماحول زیادہ دیر تک نہیں رہے گا ۔ اس کے بعد تمام پارٹیوں کے معاملات سینئر لوگوں کے ہاتھ میں دوبارہ چلے جائیں گے۔
سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ مختلف مسلم لیگی دھڑوں سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاست دانوں کو عزت اور وقار کے ساتھ اپنے پاس لے آئیں اور ان کے تجربات سے فائدہ حاصل کریں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے لئے ممتازعلی بھٹو اور ڈاکٹر ارباب رحیم جیسے سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملانا شاید ناممکن ہے لیکن وہ لیاقت علی خان جتوئی اور اس طرح کے سینئرسیاست دانوں کو اپنی ٹیم میں شامل کرسکتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف بھی ان کے سیاسی تجربات اور اثر ورسوخ سے فائدہ حاصل کرسکتی ہے۔ لیاقت علی جتوئی کا تعلق سندھ کے ایک انتہائی محترم سیاسی خانوادے سے ہے ۔ ان کے والد عبدالحمید خان جتوئی کا سندھ کی سیاست میں بہت بڑا مقام ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک مکمل سیاسی ادارہ تھے۔ اس خاندان کا اپنے علاقے میں بھی بہت زیادہ سیاسی اثر ورسوخ ہے ۔ لیاقت علی خان جتوئی خود ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت ہیں ۔ وہ پاکستان کی سیاست کے نشیب و فراز کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کے اندرون اور بیرون ملک اہم شخصیات اوراداروں کے ساتھ اچھے مراسم ہیں ۔ وہ سیاست کے ساتھ ساتھ سفارت کاری کے فن سے بھی آگاہ ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے نہ صرف امن وامان کی صورت حال کو بہتر بنایا بلکہ سندھ میں اہم ترقیاتی منصوبوں کو بھی مکمل کیا ۔ جب انہوں نے یہ منصب سنبھالا تھا تو کراچی میں امن و امان کی صورت حال بہت زیادہ خراب تھی اور سرکاری حکام اس شہر میں سفر نہیں کرسکتے تھے لیکن لیاقت علی جتوئی کے اقدامات کی وجہ سے صورت حال تبدیل ہو گئی اور آج ان کا دور حکومت امن و امان کے حوالے سے نسبتاً ایک بہتر دور تصور کیا جاتا ہے۔ لیاقت جتوئی کی طرح پورے ملک میں ایسے سینئر سیاست دان موجود ہیں ، جن کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ کوشش کی جائے کہ ان سینئر سیاست دانوں کو ایک الگ سیاسی پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت محسوس نہ ہو کیونکہ صرف یہ سینئر سیاست دان ہی نہیں بلکہ کئی موثر سیاسی جماعتیں بھی ایسی ہیں ، جو ان سینئر سیاست دانوں کے ساتھ کسی سیاسی اتحاد میں شامل ہو سکتی ہیں ۔ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔ یہ ممکنہ سیاسی اتحادان سیاسی جماعتوں یا سیاسی رہنماؤں کے لئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے ،جنہیں اس وقت یہ زعم ہے کہ انہیں کسی کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا کے کئی جمہوری ممالک میں پاپولر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اس طرح کے سیاسی اتحادوں نے لوگوں میں حیرت انگیز پذیرائی حاصل کی ہے۔ پیرصدرالدین شاہ راشدی کی رہائش گاہ پر ہونے والے اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ وسیع تر سیاسی اتحاد کے قیام کے لئے آئندہ اجلاس جلد ہوگا اور یہ سیاست دان مختلف سیاسی ایشوز پر مل کر کام کریں گے ۔ خاص طور پر بدامنی ، کرپشن اور ناقص حکمرانی کے خلاف تحریک چلائی جائے گی ۔ ان کے ان اہداف کو غیر سنجیدگی سے نہ لیا جائے آئندہ اجلاس میں ملک بھر کے سینئر سیاست دان شریک ہوسکتے ہیں اور یہ بھی امکان ہے کہ متحدہ مسلم لیگ کا قیام عمل میں آجائے ۔
تازہ ترین