• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسز اندراگاندھی نے طاقت کواپنے ہاتھ میں رکھنے کےلئے اوربرصغیر کی سیاست کے مدوجزر کوسمجھتے ہوئے اپنے والد جوکشمیر نژاد تھے ان کے ساتھ رہ کربرصغیر کی سیاست کواچھی طرح سمجھ لیاتھا وہ بھارت کے افق پرنمودار ہوئیں اوربھارت کی وزیراعظم بن گئیں چونکہ اندرا گاندھی کواچھی طرح علم تھا کہ پاکستان کوطاقت اورفوجی قوت کے زورپر شکست دینا بے حد مشکل کام ہے۔انہوں نے پاکستانی سیاست کے محاذ پرکام شروع کر دیا۔ یہ بات غیر ملکی اخبارات نے لکھی کہ پاکستان کی سیاسی قیادت انتشار کاشکار اورآپس میں اختلافات اورسیاسی ناپختگی کاشکارتھی انہوں نے کامراج کوہٹاکرخود کانگریس کاصدر بننے کافیصلہ کیا۔پاکستان میںمسلسل غیر سیاسی حکومتیں عوامی مزاج سے کٹ کرحکومت کرتی رہیں۔
اندرا گاندھی پاکستانی سیاست میںاپنا کام کرتی رہیں۔ اورہمارے ’’سیاسی محاذ ‘‘ کواپنے انداز سے استعمال کرتی رہیں۔مشرقی پاکستان کے عوام کو (Expolite)کرکے بھارتی عوام کومطمئن کرنے کےلئے مشرقی پاکستان کوبھرپور جنگ کے ذریعے بنگلہ دیش میںتبدیل کردیا۔مگر ہماری ’’سیاسی نرسری‘‘ کویہ بات سمجھ میں نہ آسکی۔اس تمام عرصے میںپاکستان میں ’’سیاسی افراتفری‘‘ ہونے کی وجہ سے یہ بات سمجھ نہ آسکی کہ ہمارے ساتھ کیاہونے والاہے۔میں اس وقت مشرقی پاکستان میں تھا۔ہندوستانی قیادت نے اس قدر پروپیگنڈہ کیا کہ وہاں کے عوام مغربی پاکستان کےلیڈروں سے مطمئن نہ ہوئے اورتمام تر جدوجہد کے باوجود مشرقی پاکستان کوعوامی لیگ کی قیادت نے بنگلہ دیش میںتبدیل کردیا۔
مغربی پاکستان کے علاقائی سیاست دان صدر جنرل یحییٰ خان اوران کے ساتھی اقتدار کی جنگ میں مصروف تھے ۔ہندوستانی سیاست کی بالغ نظری دیکھئے کہ انہوں نے اپنی سیاسی پختگی اورہماری سیاسی نااہلی کوسامنے رکھ کرہمارےملک کے دوٹکڑے کردیئے یہ انتہائی المناک حادثہ تھا شاید اس وقت بھی ہمارے سیاسی رہنما ان حالات کوسمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے مخالفین ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہتے ہیں ہم تحریکیں چلانے میں غلط وقت کاانتخاب کرلیتے ہیں۔جس کابجائے فائدے کے نقصان ہوتا ہے شاید اب بھی یہی حالات ہیں ہم چاروں طرف سے سازشوں اورخطروں میںگھِر چکے ہیں۔میرا خیال ہے کہ مضبوط پالیسی کے بغیر ہم ان حالات کا مقابلہ نہیںکرسکتے۔جوہمارے رہنماؤں کے سمجھ میں نہ آنے والی پالیسی ہے ۔اب مقبوضہ کشمیر سے کنٹرول لائن پرفوجی جھڑپیں شروع کرکے ہم پردباؤ ڈالاجارہاہےکہ ہم سیکورٹی کونسل کی ممبر شپ کےلئے اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مخالفت نہ کریں۔اوربین الاقوامی دباؤ پرسکیورٹی کونسل کی نشست پرخود نمائندہ نہ بنیں جبکہ ایٹمی پاؤر ہونے کے باوجود اسلامی بلاک کےلئے پاکستان کانام تجویز کریں۔
اب یہ صورت حال بہت واضح شکل اختیار کررہی ہے۔اورمجھے ابھی تک اس صورت حال کوسامنے رکھ کر کوئی اقدامات ہماری وزارت خارجہ کی طرف سے کوئی سرگرم تحریک نہیں نظرنہیںآتی جبکہ ہماری ناسمجھ سیاسی قیادت اس مسئلے سے بالکل ہی لاتعلق ہے کہ کیاہونے جارہاہے اورکیا ہونے والا ہے۔اوریہ فوجی جھڑپوں کامقصد کیاہے۔جب بھی عالمی سطح پرکوئی میٹنگ ہوگی توپاکستان کومجبور کیاجائے گا کہ وہ ہندوستان کی مخالفت نہ کرے اوراسے سیکورٹی کونسل کاممبر منتخب ہونے دے۔ جبکہ یہ اسلامی بلاک کا جمہوری حق بھی ہے۔مگر ہمارے اتحاد ی امریکہ کواس مسئلے پربہت سوچ بچار کرکے فیصلہ کرنا چاہئے ہندوستان کے سیاسی محاذ،صحافتی اور الیکٹرانک محاذ پرمکمل ہم آہنگی رہتی ہے ہمیںآپس کی لڑائیوں سےفرصت نہیں ہے اورہم اس کبوتر کی طرح ہیں جوبلی کودیکھ کرآنکھیں بند کر لیتاہے ہمارے سیاسی رہنما عوامی جلسوں پارلیمنٹ کے فلور اورسفارتی محاذ پربالکل نروس نظر آتےہیں اورمستقبل کی سیاست سے اپنے آپ کوالگ تھلگ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ بات انہیں سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہاہے اورہمیں اس کاجواب کیادینا ہے ہم توجلسوں میں ایک دوسرے کے گریباں پھاڑ رہے ہیں اور’’صوبہ جاتی محاذ‘‘ پرسرگرم ہیں ۔ہمارے اکابرین کوشاید اس کاعلم نہ ہوکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کوگجرات سےاٹھا کرنئی دہلی کے سنگھاسن پرکیوں لایا گیاہے۔بدقسمتی سے مغربی قوتیں ہندوستان کوچین کےمقابلے پرلانے کےلئے’’بے چین‘‘ ہیں ۔حالانکہ ہندوستانی سیاست دان اوروہاں کے عوام جانتےہیں کہ وہ چین سے نہیں لڑسکتے۔ ہمارے یہاں دھرنوں کے ذریعے حالات خراب کرکے چینی صدر کوہندوستان کادورہ کروایا گیا۔ اورسفارتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے چین اوربھارت کے تعلقات بحال کرنے کےلئے بھرپور کوششیں جاری ہیں جبکہ بھارت نے’’ دلائی لامہ اورپنچن لامہ‘‘ کی قیادت میں تبت کی جلاوطن حکومت کوقائم کررکھاہے۔ہمارے سیاسی خودساختہ دانشوروں کوحالات کوسمجھ کرپاکستان کی بقاء کےلئے فیصلے کرنے چاہئیں مگر ہمارے جیالے اورمجاہد متوالے یہاں صوبہ جاتی جنگ لڑنے میںمصروف ہیں اورنوجوان ناسمجھ قیادت کے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف بیانات دینےمیں مصروف ہیں جس سے سول وار کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ نریندر مودی کوگجرات سے اٹھا کربین الاقوامی محاذ پرکیوں سرگرم کیاگیا ہے کہ شاید وہ بھارت کوچین کے مقابلے میںلاسکے۔جبکہ یہ طے شدہ امر ہے کہ ہماری سیاسی محاذ پرسازشوں کے ذریعے مداخلت کرنے والے سیاست دان ہندوستانی سیاستدانوں کوکبھی چین سےلڑنے کی ہمت نہیں ہوگی کیونکہ اس کاانجام وہ چین بھارت جنگ میں دیکھ چکےہیں البتہ سیاسی محاذ پرانہیں سلامتی کونسل کی نشست کےلئے سپورٹ ضرور مل جائے گی۔ہماری غیر جمہوری وڈیرہ شاہی سیاست کویہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ انجام گلستان کیاہوگا۔
تازہ ترین