• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری نئی وفاقی حکومت نے ڈیڑھ سال میں کوئی ایسا عوامی کارنامہ انجام نہیں دیا جس پر فخر کیا جائے۔ مہنگائی بڑھی ، لوڈ شیڈنگ اور امن و امان کی حالت بہتر نہ ہوسکی۔ ڈالر پھر 103 روپے کی سطح پر آگیا۔ یہ درست ہے کہ اس کو ایک طرف شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری طرف دو جماعتوں کے دھرنوں سے نمٹنا پڑا۔ ایک دھرنا دوبارہ الیکشن کے مطالبے پر شروع ہوا۔ مطالبات تبدیل ہوتے رہے اور وزیراعظم کے استعفے پر آکر اٹک گیا۔ دوسرا انقلاب کی حمایت میں شروع ہوا۔ دھرنوں کے دوران حکومت پر دبائو کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال ہوئے، سول نافرمانی، بجلی ، گیس اور پانی کے بلوں اور ٹیکسوں کی عدم ادائیگی، بیرونی پاکستانیوں کو ٹیکسوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے رقم کی ترسیل وغیرہ، دوسرے دھڑے نے شرکاء کو دھمکی دی کہ دھرنے سے واپسی قابل قتل ، گو نواز گو کا نعرہ ، مالیاتی نوٹوں پر اس نعرے کا اندراج، جب معلوم ہوا کہ یوں نوٹ مسترد ہوجائیں گے تو یہ حکم واپس، نوٹ، ووٹ اور سپورٹ سے دھرنے کی حمایت کریں۔ 21؍ اکتوبر کو 60دن رات کے دھرنے کے پورا ہونے کے بعد عوامی تحریک کے سربراہ نے اپنے دھرنے کے ختم کرنے کا اعلان کیا اور دھرنے والوں کو اپنے گھروں کو جانے کی اجازت دی۔ اب ہر شہر میں دو۔ دو جلسے ہوا کریں گے۔ 25 دسمبر کو کراچی میں جلسہ ہوگا۔ دھرنے کے اختتام کے اعلان پر دھرنے کی شریک خواتین گلے مل کر زاروقطار رونے لگیں اور بعض مرد بھی آب دیدہ دکھائی دیئے۔ کیا یہ آنسو ان مراعات کے تھے جو ان کو حاصل تھیں؟ خیال تھا کہ کپتان بھی ان کی پیروی کریں گے مگر دوسرے دن گجرات کے عظیم الشان جلسے میں اعلان کیا کہ 30نومبر کو اسلام آباد میں جلسہ کریں گے اور محرم کے بعد ہر شہر میں دو دو جلسے کریں گے۔ وہ جب تک زندہ ہیں وزیراعظم کے استعفےٰ کے لئے بیٹھے رہیں گے۔
ان دھرنوں سے بین الاقوامی اور ملکی سطح پر سیاست ، معیشت اور مالیات کو زبردست نقصان پہنچا۔ جس کی تلافی میں کافی وقت لگے گا، البتہ پیپلز پارٹی کے اولین نعرے سے جس طرح عوام بیدار ہوتے تھے اسی طرح ان کے عمل سے نوجوان اور خواتین میں بیداری کا شعور جاگ گیا۔ وہ علاقے جہاں خواتین گھر سے باہر قدم رکھتے جھجکتی تھیں وہاں اب ان کو سیاست میں حصہ لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
دھرنوں کے دوران حکومت کے سارے کام ٹھپ ہوچکے تھے۔ جیسا کہ صدر مملکت نے کہا ’’پاکستان کو جتنا خراب کیا جاسکتا تھا ، کرلیا گیا ، اسے ملکی ترقی کے لئے اچھے کام بھی نہیں کرنے دیئے جارہے‘‘ اب حکومت دھرنوں کے دبائو سے باہر آئے اور ترقیاتی کاموں کو پورا کرنے کا بیڑہ اٹھائے۔ اس میں سب سے اہم مسئلہ سیلاب سے تباہ ہونے والے دیہی مکانات کی تعمیر کا ہے۔ کیا آنے والے سرد موسم میں بھی ان کو کھلے میدانوں ، کپڑوں کے خیموں اور اسی طرح عارضی رہائشوں میں زندگی گزارنا اور موسم سرما کی بیماریوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنا ہوگا۔
دھرنوں کے دوران صنعتی ، تجارتی کاروباری اداروں کو مشکلات اور مندی کا سامنا کرنا پڑا البتہ تعمیرات (مکانات) کے شعبے نے ہار نہیں مانی اس کے اشتہارات ، اشتہاری سپلیمینٹ ، ترغیبی مضامین ، اخباروں میں کثرت سے شائع ہوتے رہے۔ روٹی کپڑا مکان بڑا دل فریب نعرہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے اسی نعرے سے کامیابی کا آغاز کیا تھا۔ روٹی کپڑے کے ساتھ رہائش کا سوال بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ملک میں 90لاکھ رہائشی یونٹوں کی کمی ہے۔ ہر سال 3لاکھ یونٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ سال میں ایک لاکھ یونٹس ہی تیار نہیں ہوتے، تعمیراتی کمپنیوں کی جانب سے تمام جدید سہولتوں سے آراستہ فلیٹ سپر فلیٹ ، اپارٹمنٹ، مکانات، بنگلوں، فارموں، پلاٹوں کے اعلانات ہوتے ہیں۔ اول تو یہ بڑے شہروں تک محدود ہوتے ہیں دوسرے ان کی قیمتیں اتنی اونچی ہوتی ہیں کہ اوسط آمدنی والے قسطوں میں بھی ان کی ادائیگی نہیں کرسکتے۔ مکان کی خریداری تو دور کی بات ہے ان کے لئے تو ان کا ماہانہ کرایہ ادا کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ آٹھ دس ہزار ماہانہ آمدنی والے فرد کے لئے چھ، ساتہزار کا مکان کرایہ پر لینا بھی ممکن نہیں۔ شہروں میں اندرون ملک سے آنے والے کچی آبادیوں میں رہائش اختیار کرتے ہیں اور اس طرح وقتاً فوقتاً کچی آبادیوں کو لیز دینے کے باوجود ان کی تعداد بڑھتی ہی رہتی ہے۔ اس لئے اکثر کم آمدنی والوں کے لئے کم لاگت والے مکانوں کی بحث چھڑتی ہے۔ بعض ایسی کالونیاں بنی ہیں۔ کچھ رقم پیشگی لے کر قسطوں پر یہ الاٹیز کے سپرد کردی گئیں مگر کچھ لوگ یہ قسطیں بھی نہ دے سکے اور ان کی جائیدادیں نیلام ہونے لگیں یوں الاٹیز رہائش اور بچی کچھی پونجی سے دونوں ہاتھ دھو بیٹھے، بعض نے مال دار لوگوں کو فروخت کرکے نفع کمایا۔
اس ساری تصویر کا کینوس شہری آبادی ہے۔ دیہات میں حالت اور بھی بری ہے وہاں زیادہ تر مکان کچی اینٹوں اور گارے کے بنائے جاتے ہیں۔ تیز بارش اور سیلاب میں یہ مکان آسانی سے ڈھے جاتے ہیں اور بعض اوقات مکینوں اور ان کے مال و اسباب کو تباہ کردیتے ہیں۔ ان کی بحالی کے لئے بعض وقت تو کوئی امداد ملتی ہی نہیں اور اگر ملتی ہے تو وہ اتنی کم ہوتی ہے کہ اس میں ایک آدھ کمرہ پختہ بنانا مشکل ہوتا ہے لہٰذا پھر وہی گارا اور کچی اینٹیں ان کا سہارا بنتی ہیں۔ بعض دیہات میں دردمند اصحاب نے دس بیس مکانات بنا کر غریبوں کی مدد کی ہے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی جانب سے دیہاتیوں کو کوئی قرض نہیں ملتا اور نہ ابھی تک کوئی ایسا فارمولا بنا جس میں معمول کے اجزا کے سوا ایسے اجزا ہوں جن سے تعمیر کی لاگت کم ہوسکے۔ یہ کام بلڈرز ، تعمیرات کے انجینئر انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے محقق کرسکتے ہیں مگر کسی کو اس جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ بہرحال یہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا اولین فریضہ ہے کہ وہ ان کی امداد کے لئے قدم آگے بڑھائیں، سختی سے اس کی نگرانی کریں، پٹواریوں اور دیہی محکموں کے افسروں پر نہ چھوڑیں تاکہ امداد مستحقین تک پہنچ جائے۔
تازہ ترین