• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں مرکزی حکومت،صوبائی حکومتیں، سول ایڈمنسٹریشن اوردیگر عوام کوبھلائی دینے والی تنظیمیں سرکاری سطح پرموجود ہیں،مگر ایسا معلوم ہوتا ہےکہ تقریباََ تمام ہی سوتی رہتی ہیں یاکام کی رفتار وہ نہیں ہوتی جوہونی چاہیے۔عوام چیختےرہتے ہیں مگر کوئی سنتا ہی نہیں۔شکرہے کہ الیکٹرونک چینل کچھ نہ کچھ دکھادیتے ہیں اوربیچارے عوام حیرت زدہ ہوجاتےہیں کہ یہ بھی ہورہاہے۔کہیں مردار گوشت مارکیٹ کوسپلائی ہورہاہے کہیںسکولوں کابرا حال ہے ،کہیں ہسپتالوں میںصورتحال ابتر ہے کہیں جعلی دوائیاں لوگوں کوموت کی نیند سلارہی ہیں۔تازہ دم دستے ہونے کے باوجود تخریب کاری رکنے کانام نہیں لیتی۔لاہور کاحالیہ سانحہ جس میں تقریباََکافی لوگ اللہ کوپیارے ہوگئے اوربے شمار لوگ زخمی ہوکر زندگی بھر کےلئے اپنے قیمتی جسمانی اعضاء سےمحروم ہوگئے ۔جبکہ ’’وارننگ‘‘ بھی جاری کی گئی مگر پھر بھی اتنا بڑاسانحہ ہوگیا۔ٹی وی چینلز پریہ بھیانک حادثہ دیکھ کراعصاب جواب دے گئے کہ کیا لکھیں کیانہ لکھیں۔ایسا لگتا ہے کہ ہرحادثے کے بعد’’نوٹس لے لیاہے‘‘ کی خبر چلادی جاتی ہے اورپھر پتہ نہیں لگتا کہ کیاہوا کتنے لوگوں کوسزائیں دی گئیں اورذمہ داری کاتعین کیاگیا۔کہ کس کی غفلت سے یہ حادثہ رونما ہواہے۔ہربڑے حادثے کے بعد مختلف قسم کی خبریں دکھائی جاتی ہیں مگر آج تک کسی بھی ذمہ دار آدمی کوسزانہیں دی گئی کہ یہ ذمہ دار ہے جبکہ پڑوسی ملک ہمارا دوست بھی نہیں پھر اس قدر کوتاہیوں کے مظاہرے کیوں ہوتے ہیں۔ پاکستان تمام تخریب کارقوتوں کامرکز کیوںبنتاجارہاہے۔کون ذمہ دارہے اورکہاں سے یہ سازشیں پروان چڑھ رہی ہیں۔جیسے ہی ہمارا ملک آگے بڑھنے لگتاہے تواس قسم کی حرکات تخریب کارکرکے دنیا کااعتماد ہمارے اداروں پر’’ڈانواں ڈول‘‘کردیتےہیں تمام دنیا کے وہ ادارے وافراد جوہمارے ساتھ کاروبار اورہماری معیشت کومضبوط کرنا چاہتےہیں اس قسم کے ہولناک واقعات کے بعد پیچھے ہٹ جاتےہیں۔ہمارے مذہب کی بنیاد امن،بھائی چارہ، انسانی بھلائی پررکھی گئی ہے مگر آج تمام ہمارے ہم مذہب ملکوں کی حالت پتلی نظر آتی ہے۔ایسا کیوں ہے جبکہ مضبوط عالمانہ نظام بھی موجود ہے۔جہاں بچوں اورنوجوانوں کومذہبی تعلیمات سے بہرہ ور کیاجاتاہے۔مسلم تنظیمیں اورجید علماء کرام برائیوں کیخلاف جہاد میں سرگرم عمل بھی رہتےہیں مگر ناجانے کیوں اثر نہیں ہوتا۔سب سے زیادہ براحال مسلم مملکتوں کاہی کیوں ہورہاہے۔مسلم عوام یہ مقدمہ کس کے نام درج کرائیں۔جبکہ تمام دانشور،علماء کرام اوراعلیٰ حلقے جوبھی کوشش کرتے ہیںاس کانتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔
میں نے ایک واقعہ پڑھا تھا کہ ایک ’’غیر مسلم‘‘ شخص ہمارے مذہب کی شائستگی،شرافت اوراچھائیوں سے فیض یاب ہونےکےلئے مسلمان ہونا چاہتا تھا۔اس کےلئے وہ مختلف مساجد اورمدرسوں کے دروازوں پرحاضر ہوا۔ جہاں لکھا ہواتھا کہ یہ مسجد فلاں فرقے کی ہے اوریہ مدرسہ فلاں مکتبہ فکر کاہے۔یہ شخص بغیر مسلمان ہوئے واپس چلاگیا اوراسلام کی فکر میں داخل نہ ہواکیونکہ کہیں بھی یہ نہیں لکھا تھا کہ یہ مسلمانوں کی مسجد یامدرسہ ہے۔پاکستان میں ہزاروں مساجد،مدرسے اوراسلامی تنظیموں کے ادارے موجود ہیں مگر ہرایک کی اپنی اپنی ’’ڈفلی‘‘اوراپنا اپنا’’راگ‘‘ ہے اسی لئے لاہورجیسے واقعات کاایک تسلسل جاری ہے یہاں تک کہ ہمارے بھائی گدھے اورمردہ جانوروں کاحرام گوشت بھی ہمیں کھلانے پرمامور ہیں۔جس سے بڑی بڑی بیماریاں جنم لے رہی ہیں جب بیمار دوائیاں خریدنے جاتےہیں تووہ بھی نمبردو ہی ملتی ہیںجن سے مریضوں کوفائدے کی بجائے نقصان ہوتاہے خدااوررسولؐ کے متوالے اس کےنام پرکیاکچھ کرتےہیں آج تک میں نے یہ نہیں پڑھا کہ کسی کوبھی اس سلسلےمیں عبرت ناک سزادی گئی ہو جعلی دوائیوں کی، جعلی ضروریات زندگی کی تمام چیزیں مارکیٹوں کی زینت بنی ہوئی ہیں وہ ادارے جن پرحکومت کروڑوں روپیہ خرچ کرتی ہے جن کے افسروں کے شان اورٹھاٹھ دیکھ کراہل یورپ شرماجائیں۔مگران سےخلق خدا فیض یاب نہیں ہوتی۔میں دیانتداری سےیہ بات کہتاہوں کہ اس ملک میں تمام برائیوں کی جڑ پھیلانے والی اکثریت سیاست میں حصہ لے کراقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے اورآبھی جاتی ہے کوئی ایسا ادارہ نہیں جوان ’’خودساختہ‘‘ سیاسی بازی گروں کوصفحہ ہستی سے مٹادے۔اگر کوئی حکومت یا اہل علم لوگوں کی تنظیم اس قسم کی کوشش بھی کرتی ہے تو اسے ہی صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔جیسے ابھی مشہور بین الاقوامی سماجی رہنما عبدالستار ایدھی کے ساتھ ہوا ہے اہم لوگ یہ جانتے ہیں کہ کس نے کیاہے مگر ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہیں۔لوگوں کویاد ہونا چاہئے کہ ظلم بڑھتا ہے تومٹ جاتا ہے۔اگر کوئی اصلاحی کام کرکے اپنانام بڑھاتاہے توہم اس کا جینا بھی حرام کردیتےہیں ہمارے ملک میں اس قسم کے جرائم عظیم لوگوں کےخلاف تواتر سےجاری ہیں پاکستان کے غریب عوام اپنا مقدمہ کون سی عدالت میں پیش کریں انہیں سمجھ میں نہیں آتا۔آخر میں رودھو کربیٹھ جاتےہیںاور یہ ملک ایک قدم اورپسپائی کی طرف چلاجاتاہے۔’’ہمارے یہاں تویہ رواج بھی ہے کہ کوئی اچھا ہے تواچھا کیوںہے‘‘ خداخیر کرے!
تازہ ترین