• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شدت پسندی کی آڑ میں جس قدر نقصان مسلمانوں کو پہنچایا گیا وہ شائد ہی کسی اور مذہب کو پہنچا ہو۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حادثے کے بعد ہمارے نہ چاہنے کے باوجود وہ وقت آگیا کہ شدت پسندی اور اعتدال پسندی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا۔ گزشتہ بیس سال میں عقیدے اور اختلاف رائے کی بنیاد پر پاکستان میں بہت سے لوگ قتل کئے گئے۔ قاتلوں کے ہاتھوں نے پاکستان کو بے پناہ نقصان پہنچایا اور خود ساختہ جمہوری حکومتیں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کو نہ روک سکیں۔ اس تمام عرصے میں ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے چلے گئے۔ اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے آج کل بھی عوامی رہنما جلسوں میں جو اشتعال انگیز اور ذاتی معاملوں پر گفتگو کرتے ہیں اس سے عوام میں شدت پسندی اور ایک دوسرے کا احترام نہ کرنے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ اور یہی ماحول خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ جن ملکوں کی خانہ جنگی میں تباہی ہوئی ہے۔ ان کے روزو شب دیکھ لیجئے کہ اسی قسم کی گفتگو نے ان ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اب ہمیں اس صورت حال کو بہت اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اس قسم کا ماحول پیدا نہ ہو اور ملک سول وار کی طرف نہ جائے۔
ہمارے ملک کے پرسکون ماحول اور ترقی کرنے والے حالات نے دشمنوں پر ایک خوف طاری کیا ہوا ہے کہ اگر اس ملک میں پرسکون ماحول اور آگے بڑھنے کی جدوجہد پوری ہوتی رہی تو یہ ملک ترقی کی دوڑ میں آگے نکل جائے گااور آج ایٹمی قوت بننے والا ملک ترقی کے زینے پر چڑھ جائے گا۔ کوئی ’’نادیدہ‘‘ ہاتھ ہمارے سیاسی لیڈروں کی ’’برین واشنگ‘‘ اس طرح کر رہا ہے کہ اس ملک کو خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا جائے۔ دنیا بھر میں حسن بن صباح نے جو فلسفہ اپنی حرکات کے ذریعے آگے بڑھایا تھا اس کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر وہ بہت خوش ہورہا ہوگا۔ یہ حسن بن صباح کا طریقہ کار ہے جو ہمارے ملک کو دوزخ میں تبدیل کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اسے تمام مکتبہ فکر کو ناکام بنانا ہوگا۔مضمون کی طوالت کے پیش نظر میں تما م حالات تفصیل سے نہیں لکھ سکتا مگر قوم کو اس صورتحال سے آگاہ کرسکتا ہوں۔ حسن بن صباح نے مشہور مفکر نظام الملک طوسی کو قتل کرنے کے بعد قلعہ الموت پر قبضہ کر کے خراسان مصر، بحرین کے علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا اور وہاں ایک جنت بنائی جس میں آسائش کی تمام سہولتیں حاصل تھیں علاقے کے نوجوانوں کو ہر قسم کا لالچ دیا جاتا اور ان کے ذریعے عالم اسلام کے بڑے بڑے قابل لوگوں ’’دانشوروں ، عالموں اور مقررین کو قتل کروادیا جاتا۔ انہیں کہا جاتا کہ اگر وہ اس مشن میں مارے بھی گئے تو جنت میں جائیں گے اگر یہ زندہ رہے تو میری یہ جنت تو ان کے لئے موجود ہے ، حسن بن صباح نے اسلام کے نام پر اس کی شکل کو مسخ کردیا تھا۔
اسکے جانباز ’’ فدائین‘‘ کہلاتے تھے انہوں نے نظام الملک طوسی اور بہت سے نامور لوگوں کو جو مسلمانوں کو فکری رہنمائی دے سکتے تھے قتل کرادیا۔ نتیجہ یہ نکلا منگول حکمرانوں نے عالم اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ انہیں رونے والا بھی کوئی نہ رہا۔ کیا آج بھی یہی صورتحال نہیں ہے؟ عقیدے اور مذہب کے نام پر پاکستان کے نامور علماء کرام اور قابل لوگوں کو قتل نہیں کرایا جارہا۔ کیا آج بھی پاکستان میں عقیدے کی بنیاد پر قابل اور لائق ترین لوگ قتل نہیں کئے جارہے جو ہمیں فکری رہنمائی اور جدید جدوجہد سے بہرہ ور کرتے۔ ہم نے انہیں اللہ میاں کے پاس بھیج دیا۔’’ اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر ‘‘ گذشتہ بیس سال میں عقیدے کی بنیاد پر اور اختلاف رائے کی وجہ سے ان لوگوں کو قتل کیا گیا جو قوموں کا عظیم سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان شدت پسند قاتلوں کے ہاتھوں پہلے ہم ایک قوم تھے مگر اب اپنے سیاسی لیڈروں کی حرکات کی وجہ سے ایک بکی ہوئی منتشر قوم ہوگئے ہیں۔ جس کا ادراک شاید ہمارے سیاسی رہنماؤں کو نہیں کہ ہم کس طرف جارہے ہیں اور ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ایک غیر مکمل معاشرے میں تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اور ایک دوسرے کے خون کی پیاسی قوت بنتے جارہے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کی اشتعال انگیز تقریروں اور تحریروں نے ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں ہمارے حصے بخرے کرنے کی باتیں عام ہیں’’کہتی ہے ہم کو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘ ہمارے مختلف نظریات میں بکھرے ہوئے سیاسی لیڈروں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کی جارحانہ تقریروں نے معاشرے کو تقسیم اور بے حال کر دیا ہے۔ کس سے فریاد کریں۔ نائن الیون کے بعد دنیا میں تہذیبوں کے درمیان کھل کر جنگ شروع ہوچکی ہے ایک طرف سائنس ٹیکنالوجی ، وسیع القلبی اور دوسری طرف تمام دنیا شدت پسندی کے خلاف متحد ہوچکی ہے۔ ایک طرف ہمارے سیاسی نابالغوں نے بغیر سوچے سمجھے ماحول کو گرما دیا ہے جو جلدہی سول وار کی شکل اختیار کرلے گا۔ انڈونیشیا جیسے عظیم ملک کو اسی قسم کی لیڈر شپ نے سول وار میں تبدیل کر دیا تھا جس میں 22 لاکھ افراد قتل ہوئے تھے اور اسی مرحلے میں اسلامی حکومتوں کے کردار کو دیکھ رہا ہوں کہ کیا ہمارا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ دنیا میں تہذیبوں کے درمیان عالمی جنگ شروع ہوچکی ہے کیا ان حالات میں ہم دنیا سے الگ تھلگ رہ سکتے ہیں؟ جو لوگ کہتے ہیں کہ طاقت ہی اصل سچائی ہے وہ پچھلے حالات پر غور کرلیں۔ جہاں ان ملکوں کی وہ قیادت بھی دم توڑ چکی ہے جس نے وقت کے مخالف روش اختیار کی تھی اور عوام کی فکری رہنمائی سے محروم رہے تھے۔ ہماری اسلامی قوتیں اور مملکتیں فلسطین کے مقام پر اسرائیل کے ظلم و تشدد کو نہ روک سکیں مگر اس پر عالم اسلام کی طرف سے کوئی مؤثر احتجاج سامنے نہیں آیا اور او آئی سی، (OIC)بھی سوتی رہی پاکستان کے موجودہ حالات فرانس کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ وہاں جمہوریت کے نام پر عوام کو مسلسل دھوکا دیا جاتا تھا۔ آج فرانس یورپ کی بہت بڑی طاقت ہے اگر پاکستانی سیاستدانوں نے حالات سے کوئی سبق نہ سیکھا تو ہمارے دشمن ہمیں تباہ و برباد کردیں گے اور قائد اعظم کی قبر پر کوئی نوحہ خواں بھی نہ رہے گا۔ہوش کرو۔
تازہ ترین