• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نومبر کے آخری ہفتے میں دو اہم خبریں محرم الحرام کے پہلے عشرہ کے اختتام، سارک کانفرنس کے انعقاد، پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظموں کی متوقع ملاقات اور نیلوفر نامی سمندری طوفان کی بدولت وہ اہمیت حاصل نہ کرسکیں جن کی وہ مستحق تھیں۔ ان میں سےایک خبر ملکی اور دوسری بین الاقوامی سطح کی تھی۔
ملک میں ایک دو بچیوں کا اغوا عام ہے مگر ایک گروہ کا اغوا پاکستان کی تاریخ میں انوکھا واقعہ ہے۔ دراصل ان بچیوں کی صحیح تعداد بھی معلوم نہ ہوسکی۔ 30 نومبر کے جنگ کراچی نے خبر شائع کی کہ باجوڑ ایجنسی کی 33 بچیاں پولیس نے لیاقت آباد کے ایک مکان سے منگل کی رات کو برآمد کرکے 33 بچیوں کو ایس ایس پی سینٹرل کے دفتر منتقل کردیا۔ ایس ایس پی سینٹرل کا کہنا ہے کہ ان بچیوں کو صرف ان کے والدین کے سپرد کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق باجوڑ سے تعلق رکھنے والی ان بچیوں کی عمریں 8 سے 12 سال ہیں۔ تاحال یہ معلوم نہ ہوسکا یہ کون ہیں اور یہ پراسرار معاملہ کیا ہے۔ یہ صرف پشتو بولتی ہیں۔ پولیس نے موقع سے ’’حمیدہ‘‘ اور ’’ایوب‘‘ کو گرفتار کرلیا اوربچیوں کو دارلامان بھیج دیا۔ ان کی تصویریں بھی لی گئیں۔ گورنر سندھ نے وزیراعلیٰ کو فون کیا اور آئی جی سندھ کو معاملے کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا، اور سات بچیوں کو ان کے والدین کے حوالے کردیا گیا۔
ایک انگریزی اخبار کی خبر ہے کہ 20 کمسن بچیاں کراچی سے بنوں پہنچائی گئیں وہاں سے لیویز کی نگرانی میں باجوڑ پہنچائی جارہیہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما موقع پر پہنچ گئے تھے انہوں نے بچیوں کیلئے کھانے کا انتظام کیا اور ان کے اراکین اسمبلی نے ہمدردی کا اظہار کیا۔ یہ معاملہ بڑا سنگین ہے اس کی تفصیلی تحقیقات ہونا چاہئے۔ یہ محض تین افراد کی کارروائی نہیں ہے اس کی پشت پر ایک مافیا کام کررہا ہے۔ حیرت ہے کہ ان بچیوں کو ٹرک یا بس سے پشاور یا ڈیرہ اسمٰعیل سے کراچی لایا گیا ہواور اس طویل سفر میں کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ اتنی چھوٹی بچیاں ایک عورت مرد اور دوسروں کے ساتھ کہاں لے جائی جارہی ہیں ان کو لیاقت آباد پہنچانے اور سواری سے اتار کر گھر میں لے جاتے کسی نے دیکھا نہ نوٹس لیا اور پولیس وغیرہ کو اطلاع نہیں دی۔ لہٰذا اس کی تفصیلی تحقیقات ہونا چاہئے اور سندھ اور خیبر پختون کی حکومتیں اس معاملےکی کارروائی سے باخبر رہیں۔
موجودہ عہد میں پٹرول اور پٹرولیم کی مصنوعات زر سے زیادہ اہم ہوگئی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں کا سارا کاروبار تیل ہی سے چل رہا ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں بھی ساری ٹرانسپورٹ کارخانے، صنعتیں اس کی بدولت کار گزار ہیں۔ تیل کی مہنگائی سےملکوں کا مالیاتی بجٹ الٹ جاتا ہے۔ دنیا میں تیل چند ملکوں کی پیداوار ہے، ان میں سعودی عرب، مشرق وسطیٰ کے چھوٹے ملک اور امارات، ایران روس ،برطانیہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور برازیل کو سبقت حاصل ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ1954 میں یو ایس اے میں پیٹرول 34.33 سینٹ فی گیلن تھا۔ میں نے اس سال گاڑی خریدی تو پاکستان میں 3 روپے فی گیلن تھا بلکہ اگر ڈرائیور پیٹرول ڈلواتا تو اس کو پمپ والا دو انّی دیتا تھا۔ یہ گیلن کے نرخ تھے اور ایک گیلن چار لیٹر کے مساوی ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ قیمتیں بڑھتی رہیں حتیٰ کہ ایک وقت میں نیویارک میں 118 ڈالر فی بیرل ہوگیا پھر قیمتیں گریں اور عام طور پر پاکستان میں پیٹرول سو روپے فی لیٹر کے اردگرد گھومتا رہا۔ 29 نومبر کے اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ عالمی مارکیٹ میں تیل سستا ہوگیا اس کی قیمت امریکی منڈی میں ساڑھے سات ڈالر فی بیرل کم ہو کر چار سال کے کم ترین سطح 66 ڈالر فی بیرل ہوگئی اور توقع ہے کہ یہ رجحان 2015 تک چلتا رہے گا۔ اس کمی کی وجہ سے وزیراعظم نے اعلان کیا یکم دسمبر سے پیٹرول 84.53روپے اور ڈیزل 94.30 روپے فی لیٹر فروخت ہوگا۔ کچھ روز اعلان کیا گیا کہ پیٹرول کی مصنوعات اور کم ہوں گی۔ عالمی پالیسی ساز پریشان ہیں کہ تیل کی قیمتیں کب تک کم رہیں گی۔ سعودی عرب نے اوپیک کے ذریعہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے تیل کی پیداوار میں اضافہ نہ کریں بلکہ اس کا امکان ہے کہ اگر قیمتوں کا چکر چند ہفتے چلتا رہا تو تیل کی پیداوار گھٹادی جائے۔ بہرحال فی الحال تو پٹرول استعمال کرنے والوں کی عید ہوگئی لیکن حقیقی عید جب ہوگی جب درآمدی تیلکی قیمتوں میں کمی سے اشیائے صرف کی قیمتوں اور ٹرانسپورٹ کےکرایوں میں کمی ہوگی، ایک عام آدمی اسی دن کا منتظر ہے۔
تازہ ترین