• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج جب میں صبح سوکر اٹھا تو افق پرپھیلا ہوا روشنی کامینارہ مجھے اندھیرے کے دھند لکے میں میں ڈوبا ہوا نظر آیا اورجب میں نےملک میں پھیلی ہوئی انار کی،تشدد زدہ سیاست،اشتعال انگیز تقریریں اخبارات میں دیکھیں تو یہ سوچنے پرمجبور ہوگیا کہ کیاملت اسلامیہ کے عظیم ترین ملک کے عوام کو دشمنانان قوم نے نشانہ بنا لیا ہے اوراب اس ملک میں وہی حالات پیدا کئے جارہے ہیں جو مصر، الجزائر، یمن، انڈونیشیامیںبرپاہوئےاورجنہیں اُردن اور عراق میں تجرباتی طور پر دہرایاگیا،عوام ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے ۔بادشاہوں کی لاشیں سڑکوں پر گھسیٹی گئیں اورہزاروں لوگ پھانسی پرچڑھا دیئے گئے۔ان ملکوں کی سیاست تجارت اور دفاعی قوتیں آج تک سنبھل نہ سکیں۔ ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل انہیں کنٹرول کررہاہے اوروہ اس کے سامنے بالکل بے بس نظر آتےہیں۔میں نے جب اپنے وطن کااترا ہواچہرہ دیکھا تو کہاکہ کیامیرا وطن بھی دشمنوں کی سازشوں کامرکز بن چکاہے اوراسلام آباد کے میدان میں اب طاقت کے ذریعے فیصلے ہوا کریں گے؟ ہمارے سیاسی اکابرین اورخودساختہ نامور سیاستدان اسی لڑائی میں مصروف نظر نہیں آتے جس کامیں نے اوپر کی سطروں میں ذکر کیاہے۔ان میں اکثریت کاتعلق پاکستان بنانے کی قربانیوں سے نہ تھا۔انہوں نے قربانیوں کاحال صرف کتابوں میں پڑھاہے جنہیں مرضی کےلکھنے والوں نے اپنے جذبات اورخواہشات کے مطابق لکھا ہے۔ان لوگوں کا پاکستان بنتے وقت قربانیوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔وہ توجدوجہد پاکستان میں شاید بہت چھوٹی عمر کے ہوں اوراس کے بعد جومشکل حالات اس ملک کوپیش آئے اس میں بھی شایدان کادخل نہ تھا۔ پاکستان کی نوجوان قیادت عیش وآرام میںپلی ہوئی ہے اور سونے کاچمچہ منہ میںلے کر پیدا ہوئی ہے انہوں نے وہ موقع بھی نہیں دیکھا کہ جب پنجاب کاچیف منسٹر پانی پینے کےلئے برتن کوترس رہاتھا میرے غلام حیدر وائیں سے بہت اچھے تعلقات رہےہیں۔درویش منش انسانوںنے اپنے خون جگر کواس مٹی کےلئے دیا،اورآج مشرقی پاکستان کوکھوچکنے کے بعد بقیہ پاکستان کوبھی ’’سول وار‘‘ کی طرف دھکیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔’’میں سُخن فہم ہوں غالب کا طرفدارنہیں ،میں کوشش کرتا ہوں کہ میری آنکھ کے فریم میں جونظر آئے اسے بیان کروں اورجو ماضی میںمیں نے دوسرے ملکوں کے بارے میں دیکھا ہے اس کاذکر بھی کروں تاکہ نئی نسل کوحالات وواقعات سے آگاہی ہو۔ہمارا ملک ایک شاندار جدوجہد سے وجود میں آیا جہاں انصاف پرور عدلیہ،قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک منتخب پارلیمنٹ اوردیگر لاء اینڈ آرڈر قائم رکھنے والے ادارےقوانین اورضوابط موجود ہیں بلاشبہ اس ملک میں گزشتہ پچاس سال سے وہ طاقتیں صاحب اقتدار رہی ہیں جن کاعوامی جذبات سے اورقومی احساسات سے کوئی تعلق نہ تھا۔وہ جی حضوری ملک کوبارہا اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھاتے رہےلیکن اب صورتحال ذرا مختلف ہے اور اس بات کاتقاضا کرتی ہے کہ جدید دور کے جمہوری نظام کے ذریعےمعاملات کوطے کیا جائے۔مجھے پتہ نہیں کیوں یقین ہے کہ پاکستان میں کچھ خفیہ ہاتھ ہماری یکجہتی،بھائی چارہ اورمذہبی محبتوں کو’’سول وار‘‘ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ہمارے دانشوران قوم کواور مذہبی علماء کرام کواس طرف توجہ دینی چاہئے کہ ایسا کیوں ہورہاہے۔اوراپنے خیالات کےان حالات کو امن وامان، باہمی مذاکرات اور بھائی چارے میں تبدیل کرنا چاہئے۔ہمارا ملک بڑی انقلابی جدوجہد اور دنیا کی سب سے عظیم قربانیوں کے بعد قائداعظم بیرسٹر محمد علی جناح کی پرامن جدوجہد اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہوئے حاصل کیا گیا۔ قائداعظم کے رفقاء کار میں دیانتدار عوامی جدوجہد اور قانون پر یقین رکھنے والے ساتھیوں نے یہ ملک حاصل کیا اور اس ملک میں کوئی ایسی حرکت نہ ہونے دی جو دنیا میں ان کے کردار پر انگلی رکھ سکتی۔ وہ سب لوگ انتہائی شاندار، ایماندار اور اسلامی اخوت کے شاہکار تھے۔ آج کی سیاست میں کوئی ایک نام بھی ایسا ان جماعتوں میں شامل نہیں جو سیاست کررہی ہیں اور جسے اس معیار کا رہنما قرار دیا جائے۔ میں کیسے اعتبار انقلاب آسمان کرلوں۔ عوام کو اب خود ہی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ان کے لیڈر کیا سوچ رکھتے ہیں اور انہوں نے پاکستان بچانے کے لئے کیا کرنا ہے۔ فیصل آباد کے حالات نے ایک خوفناک صورتحال کا نقشہ تو ہمیں دکھا دیا ہے کہ ملک تیزی سے ’’سول وار‘‘میں تبدیل ہورہا ہے۔ آگے چل کر انجام گلستان کیا ہوگا کیونکہ یہ جدوجہد جو جمہوریت کے نام پر اور عوام کی بھلائی کے لئے کی جارہی ہے مجھے قوم کا کوئی منافع نظر نہیں آرہا۔ جمہوری معاشرے کے لئے ہم پچاس سال سے اس لڑائی کو دیکھ رہے ہیں۔ چند خاندانوں کے علاوہ جنہیں فائدہ پہنچا ہے عوام کو کچھ نہیں ملا۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان کے چاہنے والے تمام فریقین سرجوڑ کر عالم اسلام کے اس قلعے کی حفاظت کے لئے اقدامات کریں۔ ورنہ 16 دسمبر کو جو ہمارے ساتھ ڈھاکہ میں ہوا خدانخو استہ ہماری خود ساختہ سیاسی قیادت کو ان حالات پر گہری نگاہ رکھنی چاہئے کہ بیرسٹر محمد علی جناح کے بنائے ہوئے پرامن اور قانون پریقین رکھنے والے اس ملک کا کیا حشر ہوسکتا ہے اور مجھے یہ محسوس ہورہا ہے کہ اے وطن تیرا اترا ہوا چہرہ کیوں ہے؟
تازہ ترین