• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وقت کی رفتار کبھی نہیں رکتی حالات کچھ بھی ہوں وقت کی تیزی اپنی رفتار سے جاری رہتی ہے زندہ قومیں اور ان کے رہنما وقت کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور آسمان کی بلندیوں کو چھولیتے ہیں مگر ہمارے سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتوں کی اکثریت ایک انچ بھی آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتیں، عوام کو جو تکالیف اور مسائل نصف صدی پہلے پاکستان میں تھے آج بھی اس سے زیادہ شدت سے کھڑے ہیں، مگر ہمارےسیاسی رہنماؤں اور دانشوروں کی اکثریت ان حالات کو شاید سمجھنے سے قاصر ہے کہ ہمیں اس چیلنج سے کیسے نمٹنا ہے اور اس شاندار جرأت مند بہادر قوم کو کس طرح ترقی یافتہ ملکوں کے ہم پلہ کھڑا کرنا ہےیہ توکچھ خدا کاکرم ہےکہ ہم زندگی کےمیدانوںمیں ترقی کر رہے ہیں، مگر ترقی کا وہ معیار نہیں جو ہونا چاہئے۔ ہماری نئی نسل اللہ کے کرم سے آج بھی مختلف میدانوں میں کامیابی حاصل کر رہی ہے بلکہ نوبل پرائز اور دنیا کے بہت سے میدانوں ہیں اپنا لوہا منوا رہی ہے۔ جبکہ کسی سیاسی جماعت رہنما اور سول ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ان کی رہنمائی اور مدد نہیں کی جاتی جیسے ابھی ملالہ یوسف زئی کو عالمی اعزاز ملا ہے اور بہت سی کامیابیاں بغیر حکومت کی معاونت پاکستانی شہریوں اور نوجوانوں نے حاصل کی ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن جدوجہد کے ذریعے حکمرانوں کی وکٹ پر کھیلتے ہوئے یہ ملک حاصل کیا جو آج ایٹمی قوت بھی ہے اور دنیا کی ساتویں بڑی فوج اور ترقی پذیر ممالک میں اپنی ساکھ بھی رکھتا ہے۔ مگر قوم کو جس طرح جمہوریت کے نام پر ہمارے نام نہاد سیاسی رہنماؤں نے برباد کیا ہے آج ہم دنیا میں یہ بات دعوے سے نہیں کہہ سکتے کہ ہمارا ملک ایک بہت آئیڈیل جمہوری ملک ہے۔ چونکہ جمہوریت کے نام پر سوسائٹی کے اعلیٰ حلقوں نے جو مفادات حاصل کئے ہیں عوامی ترقی کو کوئی کامیابی اور سکون فراہم نہ کر سکے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں نے کوئی ایسا قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا جسے ان کے کارکن سینوں پر لگا کر فخر سے سڑکوں پر چل سکیں اگر کچھ سیاسی کارکنوں نے بہت اچھی اننگز کھیلی ہے اور سچ بولنے کی صلاحیت اور طاقت حاصل کی ہے تو وہ جی حضوریوں کی آنکھوں میں معتوب ٹھہرے اور انہیں کوئی ان کی جماعتوں میں اہمیت بھی نہ مل سکی۔ یہ اس ملک کی بہت بڑی بد نصیبی ہے کہ جو لوگ تمام ’’اعمال‘‘ گزار کر دوسری جماعتوں میں چلے جاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر اپنے پرانے رہنماؤں کو اور ان کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں انہیں پذیرائی مل جاتی ہے اسی لئے سیاسی جماعتوں میں ترقی کا عمل فروغ نہیں پاسکا۔ سیاسی رہنما اپنے اپنے کارکنوں کی کوئی تربیت گاہ نہیں بناسکے اور نہ ہی پرانی لیڈر شپ کی قربانیوں کے تاریخی کردار سے آگاہ کر سکے کہ انہیں کس طرح معاشرے سے قریب ہونا ہے اور لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہو کر اپنی جماعت اور غریب عوام کی خدمت کرنی ہے۔ آج کل ہمارے ملک میں جلسوں جلوسوں کی شدت زوروں پر ہے اور وہ کارنامے ہو رہے ہیں جن کا الزام ایک دوسرے جماعت کے لوگوں پر لگا کر دامن جھاڑ لیا جاتا ہے حالات کیسے درست ہونگے، کیونکہ سیاسی جماعتوںکی اکثریت اپنے کارکنوں کی تربیت پرتوجہ ہی نہیں دیتی۔یہ بات دعوے سے کہتا ہوں کہ بہت سی جماعتیں اوران کی لیڈر شپ بغیر کسی نظم وضبط کے صرف کاغذوں کے سہارے چلتی ہیں۔ ایک میز ایک کرسی اور ایک پیڈ یہ کل اثاثہ ان کے پاس ہوتا ہے ایک زمانہ تھا۔ ایک کالم انچ کی خبر اخبار میں چھپوانا مشکل کام تھا مگر اس قسم کے خود ساختہ لیڈروں کی تصاویر بیانات آج تین کالمی پٹیوں کے ساتھ چھپتے ہیں، اسی لئے نظم وضبط ختم ہوتا جارہا ہے۔ سیاسی جلسے اور جلوسوں میں جو ہنگامہ آرائی ہوتی ہے وہ رہنماؤں کی کارکنوں پر عدم توجہ کا شاہکار لگتی ہے ابھی ابھی مختلف چیلنجز اور خاص طور پر جیو کے کارکنوں کیساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں وہ انتہائی افسوسناک ہیں بلکہ صحافی حضرات کےلئے قابل توجہ ہیں ملک میں ’’زرد صحافت‘‘ اور صحافی برادری کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے اور جو لوگ صحافی حضرات کے ساتھ اس قسم کی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں انہیں منظر عام پر لا کر اخبارات میں ان کی سرگرمیوں کو شائع نہ کیا جائے اور اس کا رد عمل بہت اچھا ہوگا۔ ویسے تو پاکستان بننے کے بعد صحافی حضرات کے ساتھ وڈیروں جاگیرداروں اور خود ساختہ کاغذی لیڈروں نے جو کیا ہے وہ المناک حقیقت ہمارے سامنے ہے۔ پی آئی اے کا ایک جہاز سینئر صحافی حضرات کو لے کر مصر جا رہا تھا جو 1960 میں صحرائے سینا میں گر کر تباہ ہوگیا اور بہت سے سینئر اعلیٰ ترین دماغوں سے ہم محروم ہوگئے۔ اس کے بعد مختلف غیر جمہوری حکومتوں کے رویے کی وجہ سے اخباری کارکنوں کا اپنے اہل خاندان کے لئے خوراک اور تحفظ کا مسئلہ بھی ایک سوال ہی رہا۔ کوڑے لگتے رہے سزائیں جھیلتے رہے معاشرے کے سرکش طبقوں کا مقابلہ کرتے رہے مگر عوامی حقوق کا تحفظ کرنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ گزشتہ دنوں جب پر ہجوم قسم کے جلوس ہوئے اور میں جو کچھ ہوا لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور لوگ ان اخباری کارکنوں ان کے گھر والوں سے کیا چاہتے ہیں اور کس قربانی کی توقع رکھتے ہیں لیڈر فیصلہ خود کرلیں۔
تازہ ترین