• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک روایت بن گئی ہے کہ جانے والے سال کی سیاست، معیشت، امن و امان، جرائم، مہنگائی، کھیلوں وغیرہ کی پیش رفت کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ان ہی پہلوئوں سے آنے والے سال کی توقعات کا اندازہ لگایا جاتا ہے، ان کی حیثیت خوابوں کی سی ہوتی ہے، کچھ کی تعبیریں مل جاتی ہیں اور چند ادھورے رہ جاتے ہیں۔ 2014 کا سال ایک لحاظ سے بہت عجیب رہا۔ سونے اور پیٹرول ان دونوں اشیا کی قیمتوں میں معمولی ردوبدل تو ہر روز ہوتا ہے مگر غیرمعمولی فرق بہت عرصے کے بعد نظر آیا۔ گو نا سونا کھانے پینے کی چیز نہیں اور اس کا استعمال بھی محدود ہے مگر ہر ملک، مالیاتی ادارے، خاندان اور نجی افراد اس کے حصول کے لئے سر توڑ کوششیں کرتے ہیں۔ اس کےلئے جنگیں بھی ہوتی ہیں، بھائی بھائی کو قتل کردیتا ہے۔ سونے کی مقدار ہی سے دولت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ بھارت زیادہ مال دار ملک نہیں مگر سونے کا سب سے بڑا خریدار وہی ہے، حالانکہ اس کے ہاں سونے کی کان بھی ہے۔ ستمبر 2009 میں عیدالفطر کے قرب کے باوجود وہاں سونے کی طلب کم رہی مگر جنوری سے جولائی 2008 کے سات ماہ میں 220.4 ٹن سونا درآمد ہوا، ریکارڈ ہے کہ ایک سال 309میٹرک ٹن سونا درآمد ہوا تھا۔ دراصل ہر چیز کی قیمت گرسکتی ہے، جبکہ سونے کو دیمک لگ سکتی ہے اور نہ زنگ اور اس کی طلب بین الاقوامی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے عالمی بنک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ایشین ڈیولپمنٹ بنک، بنک آف انگلینڈ، نیویارک بنک، ریزو بنک آف انڈیا، اسٹیٹ بنک آف پاکستان، ہر ملک کے مرکزی بنکوں کے ذخائر میں زیادہ مقدار سونے ہی کی ہوتی ہے۔
پچھلے زمانے میں سونے کی اشرفی 15روپے اور گنی (ساورن) 21روپے کی ہوتی تھی، قیام پاکستان کے وقت ایک تولہ سونے کی قیمت 25/24روپے تھی، پہلے یہ تولہ، ماشہ اور رتی کی شکل میں تولہ جاتا تھا، اب اونس کی شکل میں اس کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ جنوری 2014 میں ایک اونس سونے کی قیمت امریکی ڈالر میں 1230.3تھی۔ اپریل میں کریمیا کی جنگ کی وجہ سے 1379، جون میں 1243، اگست میں 1.339 اور نومبر میں 1142.3 ڈالر ہوگئی۔ لندن کی صرافہ مارکیٹ میں 1.1177 ڈالر فی اونس کے بجائے 1.172ڈالر فی اونس ہوگئی ابھی اور کم ہوگی۔
تیل کی قیمتیں فضائی کرایوں سے زیادہ نزولی ہیں۔ اس لئے ان میں زیادہ ردوبدل ہوتا ہے دوسری شے پیٹرولیم کی مصنوعات ہیں۔ بیسویں صدی کے اوائل تک ان کی کوئی اہمیت یا زیادہ طلب نہ تھی۔ بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں دوسری عالمی جنگ اور ہوائی جہازوں کے بڑھتے استعمال سے ان کی اہمیت بڑھنے لگی اور اکثر ملکوں میں پیٹرول راشن سے ملنے گا۔ مگر اس کی قیمت زیادہ نہ تھی قیام پاکستان کے اولین دور میں یہ دو روپے گیلن کے حساب سے ملتا تھا، یہی نرخ تقریباً ڈیزل کا تھا مٹی کا تیل بوتل کے حساب سے فروخت ہوتا تھا اور ایک بوتل کی قیمت ساڑھے تین آنے موجودہ 25پیسے سے کم تھی۔ 1958 میں پشاور میں اکیڈمی برائے ترقی دیہات قائم ہوئی۔ منتخب شدہ نئی فیکلٹی کے ممبران ایک سال امریکہ میں ٹریننگ مکمل کرکے پشاور پہنچے تو ان کو زیرتعمیر یونیورسٹی ٹائون کے بنگلوں میں ٹھہرایا گیا۔ جہاں گیس نہ تھی، تیل کے چولہے استعمال ہوتے تھے، چنانچہ ہر مہینے کمپنی کا ملازم ہتھ گاڑی لے کر آتا اور ایک پیپا پانچ روپے میں بھرتا تھا، پیٹرول کی مصنوعات گیلن کے بجائے لیٹر کے ذریعہ فروخت ہونے لگیں اور حکومت نے ان کو اپنی نگرانی میں لے لیا اور پیٹرول کی مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنے لگی۔ میں نے چند چیزوں کی قیمتیں نوٹ کی تھیں جو یہ ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ بے انصافی مٹی کے تیل میں ہوتی ہے۔

سپر پیٹرول
ڈیزل
مٹی کا تیل
ہائی اوکٹین
جون 1993
14.27
4.48
6.0
15.97
جون2001
33.65
13.50
15.5
33.0
یکم ستمبر2005
48.46
36.0
35.23
52.70
دسمبر2014
84.53
77.98
83.13
94.09
(یہ نئی قیمتیں ہیں)
24دسمبر کو تیل کی قیمتوں میں جو کمی ہوئی ہے اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں تخفیف سے حکومت کو 70ارب کا نقصان ہوا ہے، اس نقصان کی تلافی کیلئے حکومت نے پیٹرولیم کی مصنوعات پر 5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کردیاہے۔ یعنی 17فی صد کو بڑھاکر 22فیصد کردیا ہے اس سے 25ارب روپے اضافی آمدنی متوقع ہے۔ جبکہ عوام نے 108روپے لیڑ کے حساب سے پیٹرول خریدا ہے۔ حکومت نے نئی پٹرولیم پالیسی بنانے کا فیصلہ کیا ہے اب تک 2012 کی پالیسی پر عمل ہورہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ نئی پالیسی سے عوام کو کتنا فائدہ پہنچتا ہے۔
تازہ ترین