• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جن سینئر حضرات نے برطانوی دور میں برصغیر کی جامعات میں بیسویں صدی کی تیسری یا چوتھی دہائی میں گریجویٹ کلاسوں میں معاشیات پڑھی ہو وہ انیسویں صدی کے پے درپے ہولناک قحطوں سے واقف ہوں گے جن میں بارش نہ ہونے اور فصلوں کی تباہی سے لوگ اور مویشی بھوک و پیاس سے مرنے لگتے تھے اور امدادی غلہ، پانی اور چارہ وقت پر نہیں پہنچتا تھا۔ خود بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں دوسری جنگ عظیم میں برما پر جاپانیوں کے قبضے سے وہاں سے موٹا چاول بنگال آنا بند ہوگیا اور مقامی پیداواروں کو ساہوکاروں نے اپنے گوداموں میں محفوظ کردیا تو صوبے میں سنگین قحط کی صورت پیدا ہوگئی اور روزانہ سینکڑوں افراد و مویشی ہلاک ہونے لگے۔
وائسرائے ہند کو اپنی ٹیم کے ساتھ ہوائی جہازوں سے چند گھنٹے کے لئے سینڈوچز ، ابلے ہوئے انڈے اور پانی لے کر وہاں جانا پڑا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے شہاب نامہ) ہمارے ہاں بھی تھر کے علاقے میں غذائی قلت ہوگئی مور مرنے لگے پھر مرد، عورت اور خصوصاً کم سن اور نوزائیدہ بچوں کی حیرت ناک بڑھتی ہوئی اموات کو غذائی قلت سے تعبیر کیا گیا۔
جب بات بہت بڑھ گئی تو وزیراعظم نے متعلقہ افراد کی ایک کانفرنس مٹھی میں بلائی تاکہ مسئلے کو حل کرنے کے لئے باہمی تجاویز پر غور کیا جائے۔ ظہرانے میں روسٹ چکن، تلی مچھلی، کباب ، بریانی ، گاجر کا حلوا، سافٹ ڈرنکس تھیں۔ وزیراعظم نے ظہرانے میں شرکت سے انکار کردیا البتہ شرکائے کانفرنس ان لزائز سے محظوظ ہوئے۔ یہاں غذا پہنچانا چند گھنٹے کی بات تھی جبکہ صوبہ سندھ کے پاس 3لاکھ ٹن گندم بھی موجود ہے جس کو وہ برآمد کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔ اخبار میں روزانہ کم سن اور نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کی خبریں شائع ہورہی تھیں، ان کے لئے دودھ ،پانی ، بچوں کی غذائیں، دوائیں ضروری تھیں جو غالباً مطلوبہ مقدار میں نہ بھیجی گئیں۔ بچوں کے بعد بچوں والی مائوں اور عورتوں کا نمبر تھا۔ یہاں عورتوں کو مٹی کے گھڑوں کو سر پر رکھ کر ، چھوٹے بچے کو گود میں لے کر 5/4 میل ننگے پائوں چل کر ان تالابوں یا جوہڑوں سے پانی لانا پڑتا ہے جن سے مویشی نہ صرف پانی پیتے ہیں بلکہ اپنی فطری ضروریات کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔
اخبار جنگ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ہر اہم معاملے کو عوام اور حکومت کی نظروں میں لانے کے لئے پہل کرتا ہے۔ چنانچہ تھر کے مسئلے پر اداریے کے علاوہ 26؍ دسمبر سے9 ؍جنوری کے درمیان اس نے 9مضامین شائع کئے۔ پہلا مضمون جی این مغل کا تھا جس میں انہوں نے آج سے پندرہ سال قبل کی پس ماندہ حالت کے ساتھ ہی سرحد پار کے تھر کا ہمارے تھر سے موازنہ کیا ہے۔ یہاں روشنی کے لئے لالٹین استعمال ہوتی تھی وہاں سینما میں فلم چل رہی تھی۔ وہ اب پھر گئے تو ان کو کوئی غیرمعمولی تغیر نظر نہیں آیا۔
دوسرا مضمون بین الاقوامی سطح کے صحافی اور دانش ور غازی صلاح الدین کا تھا جو ہیومن رائٹس کمیشن کے رکن کی حیثیت سے وہاں گئے۔ شکایات سنیں اور مٹھی میں ایک پریس کانفرنس بھی کی (مٹھی میں کانفرنس کا کیا فائدہ وہاں کے مقامی اور آس پاس کے لوگ تو اندرونی اور بیرونی حالات سے پوری طرح باخبر ہیں، مگر علم کی کم مائیگی اور سرمائے کے فقدان نے ان کی زبان بستہ اور چشم کشادہ کر رکھی ہے اور یوں تھر کے کوئلے کو جس سے 200سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے زمین میں دفن کر رکھا ہے۔ بات تھر کے کوئلے تک محدود نہیں۔ بلوچستان کا سونا اور دیگر معدنیات خیبر پختونخوا کا زمرد، مرمر اور دوسری دھاتیں ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ریزرو کردی گئی ہیں۔ تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجاسم۔ مغل رب نے اپنے ایک اور کالم میں صحرائے تھر کی دفاعی اہمیت کی جانب توجہ دلائی ہے۔ رحمت علی رازی نے حکمرانوں کی بے حسی کا رونا رویا ہے۔ محترم رضا عابدی نے تھر میں مرنے اور جینے کے راز واشگاف کئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ تھر کی معیشت ان عورتوں کی بدولت چل رہی ہے جن کو نہ پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہے اور نہ ایک جوڑے سے زیادہ کپڑے۔ ان کی زندگیاں بچے پیدا کرنے، ان کو پالنے، پانی بھرنے ، دودھ دوہنے، روٹیاں تھوپنے اور خاوندوں کی خدمت میں گزر جاتی ہیں۔
دو حالیہ خوش خبریوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا پہلا بحریہ ٹائون کا منصوبہ جس میں مٹھی سے 20میل دور چھاچھرو میں فری کلینکل لیبارٹری کے قیام۔ اس کے تمام اخراجات اور آلات بحریہ ٹائون نے برداشت کئے ہیں یہاں ہیپاٹائٹس سمیت 30طرح کے ٹیسٹ بالکل فری ہوں گے اور یوں لوگوں کو حیدرآباد اور کراچی جانے کی زحمت اور آمدورفت، قیام وطعام اور ڈاکٹروں کی بھاری فیسوں سے نجات مل گئی نیز ایک ناکارہ ایمبولینس بھی مرمت کے بعد کلینک کے سپرد کردی۔ دوسری خوش خبری سولر واٹر پلانٹ کا افتتاح ہے جو بدست آصف زرداری اور بخت آور بھٹو زرداری کے ذریعے عمل میں آیا۔ اس سے 20لاکھ گیلن نمکین پانی میٹھے پانی میں تبدیل ہو کر چند دیہات کو فراہم کیا جائے گا۔
تھر میں دو ڈھائی مہینے میں ڈھائی سو کے قریب نوزائیدہ اور کمسن بچے ’’قلت غذا‘‘ کی بدولت فوت ہوچکے ہیں۔ اگر یہ حادثہ کسی متمدن ملک میں ہوتا تو وزارت یا کم سے کم وزیر خوراک مستعفی ہوجاتا یہاں تو کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
میں 18سال سے جنگ میں کالم لکھ رہا ہوں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہےکہ کراچی کے کالم نویسوں کی تجاویز اور مشوروں پر نہ غور ہوتا ہے اور نہ عمل جبکہ لاہور، پشاور اور کوئٹہ میں وہاں کے کالم نگاروں کی باتیں اکثر سن لی جاتی ہیں۔ پتہ نہیں یہ فرق کب کم ہوگا۔
تازہ ترین