• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دراصل ملک خصوصاً کراچی میں مکانوں کی قلت کا آغاز قیام پاکستان ہی سے ہوگیا تھا۔ پاکستان سے پہلے کراچی کی آبادی تین لاکھ سے کم تھی 1941ء میں 387 ہزار رہی۔ لیکن 1951ء میں 1068 ہزار ہوگئی یعنی دس سال میں تین گنا اضافہ کیونکہ نہ صرف مرکزی حکومت کے ملازمین یہاں آئے بلکہ عوام بھی روزگار کی تلاش میں یہاں آتے رہے۔ نہ صرف کراچی بلکہ بڑے شہروں مثلاً لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، حیدرآباد، گوجرانوالہ ان سب کی آبادی 1998ء میں دس لاکھ سے تجاوز کرچکی تھی۔ اس وقت دنیا میں چار کروڑ 70لاکھ ایسے افراد ہیں جن کی دولت (آمدنی نہیں) سات لاکھ 98 ہزار ڈالر یا اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ ایسے محلوں میں رہتے ہیں جن کی مالیت کروڑ ڈالر یا اس سے زائد ہے۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو خود کو امیر نہیں سمجھتے اگر وہ ایک گھر کے مالک ہیں یا گھر کے حصول کے لئے قرضے کا بڑا حصہ ادا کرچکے ہوں۔ ان افراد کے مقابلے میں ایسے افراد کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے جو بے گھر ہیں۔ یہ صورت صرف ترقی پذیر ممالک تک محدود نہیں بلکہ نیویارک، شکاگو، لندن، پیرس جیسے بڑے شہروں میں ٹیکسی ڈرائیور اپنی ٹیکسیوں میں انڈر گرائونڈ اسٹیشنوں کے پلیٹ فارموں پر راتیں گزارتے ہیں۔ ہمارے ہاں بزرگوں کے مزاروں دکانوں کے تھڑوں پر چوکیداروں اور پولیس کی نظریں بچا کر پارکوں میں راتیں گزارتے ہیں پاکستان میں گھروں کی کیا کیفیت ہے اس کا اندازہ خانہ شماری سے ہوتا ہے۔ خانہ شماری اور مردم شماری توام بہنیں ہیں۔ پہلے خانہ شماری ہوتی ہے پھر مردم شماری وقت ہے۔ ہماری آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی۔ مردم شماری ہر دس برس کے بعد ہونا چاہئے۔ مگر یہاں کونسی کل سیدھی ہے جو مردم شماری پر ہو۔ اس وقت آبادی کا انحصار تخمینوں پر ہے۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ ملک کی آبادی 18کروڑ سے زائد ہے۔
اقوام متحدہ کے شعبہ آبادی کا اندازہ 20کروڑ ہے۔ زیادہ گڑ بڑ شہروں کی آبادی میں ہوتی ہے مثلاً کراچی کی آبادی دو کروڑ اور کوئٹہ کی آبادی کو ایک کروڑ بتایا جاتا ہے۔
اسٹیٹ بنک کے سہ ماہی ہاوسنگز مالیاتی ریویو نے 23فروری کو ایک مضمون شائع کیا جس میں کہا گیا کہ 2008ء میں ملک میں 8ملین رہائشی یونٹوں کی قلت تھی جس میں ہر سال 34لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے۔ ایسوسی ایشن آف بلڈرز (آباد) کا تخمینہ ہے کہ ملک میں 80لاکھ یونٹوں کی قلت ہے۔ 2014ء میں 3لاکھ یونٹ تیار ہوئے۔ مجموعی قلت 80لاکھ رہی 2025ء میں ایک کروڑ 35لاکھ یونٹوں کی ضرورت ہوگی۔ کیا اس تعداد پر کسی وقت قابو پایا جاسکے گا؟
بنک نے یونٹوں کی تعداد تو نہیں بتائی مگر یہ کہا کہ جائیداد کو ترقی دینے والی صنعت عوام کے عدم اعتماد کا شکار ہے۔ مالیاتی کمزوریاں اور کاروبار میں شفافیت کی عدم موجودگی اور عمدہ ساکھ کا فقدان تعمیری صنعت میں سرمایہ کاری کا تذبذب پیدا کرکے اس کی ترقی میں رکاوٹ کا باعث ہوتا ہے۔ اگرچہ اراضی کی رجسٹریشن اور منتقلی کے ضابطے موجود ہیں لیکن اول تو یہ ضابطے پیچیدہ ہیں۔ دوسرے ان پر سختی سے عمل نہیں کیا جاتا۔ لینڈ ریکارڈ دستی طور پر رکھا جاتا ہے جس میں ہاتھ کی صفائی کے خاصے مواقع ہیں۔ ضرورت ہے کہ یہ سارا نظام کمپیوٹرائزڈ ہونا چاہئے۔
جائیداد کے تحفظ کا کوئی معقول انتظام نہیں۔ لینڈ مافیا اور اس کے کارکن سادہ لوح افراد بالخصوص بیرون ملک جائیداد ہولڈروں کی جائیداد پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ میری ایک عزیزہ نے 1991ء میں دو سو گز کا پلاٹ سات لاکھ میں خریدا۔ ان کے شوہر امریکہ میں تھے۔ یہ خاتون بھی ملازمت سے سبکدوش ہوکر امریکہ چلی گئیں جب دو سال کے بعد آئیں تو پتہ چلا کہ ان کے پلاٹ پر قبضہ ہوچکا ہے۔
اب انہوں نے 60ہزار میں وکیل کرکے مقدمہ کیا ہے، یہ تو دیوانی کا مقدمہ ہے، پتہ نہیں کب تک چلتا ہے، کسی پیر صاحب کا پتہ چلا ان کو 200روپے کا نذرانہ دے کر وظیفہ لیا ہے اگر وظائف سے پلاٹس مل جائیں تو عدالتوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، یہ ایک انفرادی واقعہ نہیں ہے بلکہ بہت سے سمندر پار پاکستانی اس شکایت کا شمار ہیں۔
مکان امیر و غریب ہر ایک کی ضرورت ہے۔ تعمیراتی بوگس کمپنیاں بھی سادہ لوح لوگوں کو لوٹنے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ آخر میں ایک بات خانہ شماری میں جو رہائشی یونٹس گنے جاتے ہیں۔ ان میں 20 فی صدی جھگیاں ، جھونپڑیاں اور کچی مٹی کے مکانات ہیں ان میں 40 فی صدی میں مکان کے اندر بیت الخلا نہیں ہوتا، 60فی صدی پانی کے نلکے سے محروم رہتے ہیں اور 70 فی صد بجلی کو ترستے ہیں۔ حکومت اور بعض تعمیراتی کمپنیاں اپارٹمنٹس اقساط پر دیتی ہیں۔ خریداروں کی اچھی خاصی تعداد اقساط نہیں دے سکتی اور ان کی جائیدادیں نیلام ہوتی ہیں یوں وہ اپنے سرمائے اور جائداد دونوں سے گئے۔ کیا اس کا کوئی علاج ہوسکتا ہے۔ غریب کی ہر جگہ مصیبت ہے۔
تازہ ترین