• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چونکہ ہمارے ہاں طاقت کے ایک سے زیادہ مراکز ہیں، اس لئے ہماراالجھاہوا ر دِعمل صورت ِحال کو پیچیدہ اور گنجلک بنا دیتا ہے ۔ پتوار پر کسی ایک ملاح کا ہی ہاتھ ہونا چاہئے ۔ نواز شریف صاحب کو کپتان بن کر پتوار کو کنٹرول کرنا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے وہ لاچار اور فہم سے عاری ، اور یہ تحریر آپ اُن کے چہرے پر پڑھ سکتے ہیں، کوئی ڈھکی چھپی بات تو ہے ہی نہیں۔خارجہ پالیسی اور سیکورٹی کے امور پر اُن کے سامنے کچھ نابغہ ٔ روزگار ہیں جن کی فعالیت ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے ‘‘کے مصداق۔ ان میں سے ایک نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ہیں، جوایک ریٹائرڈ جنرل ہیں جن کی بلوچستان میں کارکردگی تو اچھی تھی لیکن اسلام آباد کا ماحول شاید اُنہیں راس نہیں آیا۔ اس کے بعد محترم، لیکن معمر سرتاج عزیز ہیں، جن کا قوم پر بہت احسان ہوگا اگر وہ درس و تدریس کا پیشہ اپنا لیں۔ پھر میرے دوست طارق فاطمی ہیں جنہیں سنجیدگی سے سوچنا پڑیگا کہ وہ کس کام کے ماہرہیں، اور آج کل کیا کررہے ہیں؟یہ ہر فن مولا فالسٹف بھاری مینڈیٹ لیکن چہرے پر پریشانی طاری کیے رکھنے والے صاحب کو کون سے دائو پیچ سمجھاتے ہیں؟
یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حقیقی زمام ِ اختیار کس کے ہاتھ ہے ، لیکن افسوس ہماری اعلیٰ کمان نے اچھی کارکردگی نہیں دکھائی۔ اس نے پیش رفت کا موقع بھارت کو دے دیا، حالانکہ یہ انڈیا تھا جس نے کشمیر میں حالات خراب کیے تھے، اسی پر دبائو آرہا تھا ۔ تو پھر آج ہم ایک کونے میں کیوں گھرے دکھائی دیتے ہیں جبکہ دنیا انڈیا کی بات سن رہی ہے ۔ ہمیں خود سے کچھ بنیادی سوالات پوچھنے ہیں۔ کیا ہم انڈیا کے ساتھ کشمیر پر جنگ کرنا چاہتے ہیں؟اس کا جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر میں بے چینی ہے ، اور یہ بھی ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ وادی میں انڈیا کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے ۔ لیکن خدا کے لئے اپنے دلوں میں جھانک کر، حالات کا جائزہ لے کر، التباسات کی من پسنددنیا سے باہر کر سوچیں کہ کیا مقبوضہ کشمیر میں ویت کانگ کی آزادی جیسی کوئی تحریک چل رہی ہے ، اور کیا ہم شمالی ویت نام ہیں جس کی قیادت ہوشی من کے ہاتھ ہے ، اور ہماری فورسز کی قیادت جنرل جائپ(Giap) کررہے ہیں اور کیا ہم کشمیر کی آزادی کے لئے زندگی موت کی بازی لگانے کا عزم کرچکے ہیں؟
اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے توکیا بہتر نہیں کہ ہم اپنے جذبات کے گھوڑوں کو ذرا لگام دیں، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس صورت ِحال میں ہمارا رد ِعمل جچا تلا ہو۔ ہمارا عزم بیانات سے نہیں، ہمارے ایکشن سے ظاہر ہو ۔ فاٹا اور کراچی آپریشن، ضرب ِ عضب ، ہمارے عزم اور قوت ِ برداشت کا ثبوت ہیں۔ جب دنیاہماری صلاحیتوں کو جانتی ہے تو پھر موقع بلاموقع گھر کی چھت پر چڑھ کر اپنی عسکری طاقت کے ناقابل ِ تسخیر ہونے کے دعوئوں کی کیا ضرورت ہے ۔اسرائیل ایک مہیب جنگی مشین رکھتا ہے لیکن اس نے کبھی اپنی فوجی طاقت کا دعویٰ نہیں کیا۔وہ الفاظ سے زیادہ ایکشن پر یقین رکھتاہے ۔ عرب دنیا کی سب سے موثر لڑاکا طاقت ، حزب اﷲ کے قائد، حسن نصراﷲ کبھی بیان بازی نہیں کرتے ۔ حزب اﷲ نے 2006 ء میں اسرائیل کے خلاف لبنان جنگ لڑی تھی جس میں اسرائیل اُنہیں پوری کوشش کے باوجود شکست نہیں دے سکا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حزب اﷲ کی عسکری سکت کیسی ہے۔ اسرائیل کوجیسے ہی کوئی حزب اﷲ کا مجاہد دکھائی دے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اُسے شوٹ کردیتے ہیں۔ اسی طرح حز ب اﷲ بھی انتقام لیتے ہوئے کسی شش و پنج میں مبتلا نہیں ہوتی۔ وہ پلاننگ کرتے ہوئے پیش قدمی کا موقع اپنا پاس رکھتی ہے ۔ اس دوران بیان بازی نہیں کی جاتی۔ دوسری طرف انڈیا اور پاکستان چیخنے چلانے کے ماہر ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ’’صوتی فعالیت ‘‘ بر ِ صغیر کا خاصا ہے ۔ ہم کھوکھلی بیان بازی ، مبالغہ آرائی، شاعرانہ تصورات کی آئینہ سازی کے ہمیشہ سے ماہر چلے آرہے ہیں۔ ہمارے جنرل اسٹاف کوسات نومبر 1941کو اسٹالن کی ریڈ اسکوائر میں کی جانے والی تقریر سننی چاہئے ۔ اُس وقت جرمن ڈویژنز ماسکو کے گیٹ پر دستک دے رہی تھیں، روسی دارالحکومت سے صرف سولہ سے اٹھارہ میل کی دوری پر ۔ جب روسی انقلا ب کی یاد میں ہونے والی تقریب میں ٹینک اور فوجی دستے اسکوائر میں آئے تو اسٹالن نے لینن کی یادگار کے قریب کھڑے ہو کر صرف سات منٹ تک تقریر کی۔ اس تقریر میں اُنھوں نے ماضی کے روسی ہیروزکا ذکر کیا، لینن کا نام دہراتے ہوئے کہا کہ وہ جرمن جارحیت کو شکست دے دیں گے ۔ اُن کالہجہ ہموار اور قطعی تھا، کوئی بیان بازی، بے کار بڑھکیں ، یا کف فشاری نہ تھی۔ ادھر اسٹالن نے تقریر ختم کی، اُدھرفوجی دستے گیٹ سے گزرتے ہوئے محاذ کی طرف روانہ ہوگئے ۔
جرمن دستوں نے لینن گراڈ کا 900 دنوں تک محاصرہ کیے رکھا۔ خوراک کی کمی کے باعث شہری کتے اور بلیاں تک کھا گئے ۔ آدم خوری کے بھی کچھ واقعات سننے میں آئے ۔ بھوک سے بے حال شہری دکھائی دینے والی ہر چیز کو کھانے کی کوشش کرتے ۔ تاہم اُن دنوں، جب شہر پر بھوک اور موت کا راج تھا، تو بھی شہریوں نے یقینی بنایاکہ ایک تو Leningrad Symphony Orchestra باقاعدگی سے بجایا جائے گا ، اور دوسرے بچوں کے امتحانات باقاعدگی سے لئے جائیںگے ۔ یہاں ہم ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیز کے جنون کے آگے فل اسٹاپ لگانے سے قاصر ہیں۔ یکے بعد دیگرے سوسائٹیز پر سوسائٹیز بنتی چلی جارہی ہیں، اس کے باوجود ہم کشمیر کی آزادی کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے۔ بیان بازی سے پہلے کچھ منافقت کے لبادے تو چاک کرلیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اسٹالن ایک آمر تھا، اوراُسے بلامبالغہ تاریخ کا ظالم ترین حکمران بھی کہا جاسکتا ہے ، لیکن اُس نے اپنے ملک کو عظمت بخشی، روس کو ایک عالمی طاقت بنا کردکھایا۔ مائو بھی ایک ظالم رہنما تھا، لیکن اُس نے بھی اپنے ملک کو عظمت کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ انقلاب اور مائو کے بغیر آج چین ایسی عالمی قوت نہ ہوتا۔
تسلیم کہ فوج نے فاٹا میں اور رینجرز نے کراچی میں بہترین کارکردگی دکھائی ہے ، لیکن ضرب ِ عضب سے حاصل ہونے والی کامیابی بھارت کے ساتھ تنائو بڑھنے کی وجہ سے ضائع ہوسکتی ہے ۔ ہماری فوج اور فضائیہ مغربی سرحد پر بہت مصروف ہے ، ہم بیک وقت دومحاذوں پر کشمکش کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ ہٹلر کی اسٹالن سے کوئی دوستی نہ تھی،اور ہم جانتے ہیںکہ جب وہ پولینڈ پر حملے کی تیاری کررہا تھا تو اُس نے اسٹالن کے ساتھ امن کا معاہدہ کرلیا۔ اس کے وزیر ِ خارجہ ، ربن ٹروپ نے کریملن میں گلاس اٹھایا تو اُس کے لبوں پر جھوٹی دوستی کی میٹھی مسکراہٹ تھی۔ اُس وقت اسٹالن کو امن سے رکھنا ہٹلر کی اولین ضرورت تھی ۔
ہمیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم وجبر پر آواز اٹھانی چاہئے، اور ہم یہی کرسکتے ہیں۔ تاہم ہمیں اپنے ساتھ انصاف سے بات کرنی چاہئے کہ بیانات اور پٹھان کوٹ اور اُڑی جیسے واقعات میں بہت فرق ہے ۔ جب انڈیا بے گناہ کشمیری شہریوں پر ظلم ڈھار ہاتھا تو پیش رفت ہمارے پاس تھی ، ہم بات کرنے کی پوزیشن میں تھے، لیکن اُڑی واقعہ نے ہمیں ایک کونے میں دھکیل دیا ہے ۔ ہماری یواین میں مستقل نمائندہ، محترمہ ملیحہ لودھی ، جن کی قابلیت پر شک نہیں، نے کہا کہ اُڑی حملہ’’ کسی مقصد کیلئے بنایا گیا ایک طے شدہ منصوبہ‘‘ دکھائی دیتا ہے ۔ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو، لیکن کیا اقوام ِ متحدہ کی کسی ایک رکن ریاست نے بھی ہماری بات پریقین کیا ؟ہم اپنے آپ سے باہر ہورہے ہیں، اور جنگ اور محبت میں یہ ایک گناہ ہے ۔ ہم اپنی سلامتی کی جنگ مغربی محاذ پر لڑرہے ہیں۔ وہاں ہمارا سامنا ہندو انتہا پسندوں سے نہیں ، اسلامی شدت پسندوں سے ہے ، اور جو ہمارے ہم عقیدہ ہیں۔
یہ بھی غلط نہیں کہ نریندر مودی پاکستان کے دشمن ہیں۔وہ ہندوتوا نظریات کے پیروکار ہیں،لیکن پلیز اس بات کو سمجھیں کہ چاہے مودی کے دامن پر ایک درجن گجرات فسادات جیسے واقعات کے داغ کیوں نہ ہوں، وہ پاکستان کا نمبر ون مسئلہ نہیں ہیں۔ ہمارا اولین مسئلہ تحریک ِطالبان پاکستان کے دہشت گرداور کراچی کے گینگز ہیں۔ چنانچہ ہمیں پہلے اپنا گھر درست کرنا ہے، نریندر مودی انتظار کرسکتے ہیں۔


.
تازہ ترین