• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ کے سابق وزیراعظم مسٹرولسن اور ٹونی بلیئرعام سیاسی کارکن کی حیثیت سے جاپانی وزیراعظم اور سابق بھارتی وزیراعظم آنجہانی لال بہادر شاستری اور موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی بنگلہ دیش کے سابق وزیراعظم شیخ مجیب الرحمٰن اور دیگر بہت سے جمہوری ملکوں میں حکمران عام سیاسی کارکنوں سے وزیراعظم بننے تک اعلیٰ قیادت پرفائز ہوئے مگر شاید ہمارے ملک میں سیاسی قیادت کیلئے اس قسم کا رواج نہیں ہے کیونکہ سیاسی کارکنوں کی تربیت اس انداز پرنہیں کی جاتی کہ وہ کل ملک کی اعلیٰ قیادت سنبھالیں مدوجزر اور بین الاقوامی حالات سے باخبرہوں۔ جب بھی اقتدار کی بلندیوں کے لئے کوئی نام سامنے آتا ہے تووہ ’’نامور‘‘ خاندانوں کے اہم افراد کاہی ہوتا ہے۔بے چارے سیاسی کارکن قائدین کےلئے بحرانی دورمیں کوئی مضبوط کردار اداکرنےکےلئےتربیتی طور پر تیار نہیں ہوتے انہیں صرف زندہ باد کے نعرے لگانے کےلئے استعمال کیاجاتا ہے بلکہ اب تو خاندانی قیادت کا رواج چل پڑاہے۔ چند مشہور خاندان ہی قیادت کے اہل ٹھہرتے ہیں۔ اس وجہ سے دہشت گردی، اقربا پروری، شہریوں کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں اور ہمارا معاشرہ لائق ترین سیاسی کارکنوں سے محروم رہتا ہے جن کے اعلیٰ ذہنوں سے اور کام کرنے کی خواہشوں سے محروم رہتےہیں کیونکہ باصلاحیت ہونے کے باوجود ان سے کام نہیں لیاجاتا۔ سیاسی کارکنوں میں یہ خیال زور پکڑ رہاہے کہ ہماری پارٹیوں میں ہمیں صرف اسٹریٹ پاور(Street Power)کے طور پر رکھاجاتاہے۔ اسی لئے ہمارے معاشرے میں شہریوں کے مسائل حل طلب رہتے ہیں۔ بلدیاتی سطح پر پچھلے سالوں میں سیاسی کارکنوں کی اکثریت سے کوئی فائدہ نہ اٹھایاجاسکا۔ غیرسیاسی حکمرانوں نے جو نظام بھی شہری سطح پر وضع کئے وہ ان کے جاتے ہی اپنی موت آپ مر گئے اور سول سوسائٹی کے مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ یہاں تک کہ کارکنوں سے اپنی جماعت کی قومی پالیسیوں پرکوئی مشورہ نہیں کیاجاتا۔ اگر ان سے مشورہ لیاجاتا تو دہشت گردی اتنی نہ پھیلتی۔
پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں صرف رہنمائوں کی ہیں جن کا کوئی ضلعی اور شہری ادارہ بھی نہیں ہے بلکہ رہنما اپنی ذات میں ہی انجمن ہوتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں ابتری اور بار بارمارشل لاء لگنے کی وجوہات سیاسی فیصلوں میں کارکنوں کی عدم شرکت ہے۔ ہمارے اکثر سیاسی رہنما اپنے کارکنوں کو قومی اور بین الاقوامی مسائل پراعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اسی لئےہمارا ملک مسائل کی آماجگاہ بنتاجارہاہے اور تحریکیں صحیح رخ اختیار نہیں کرتیں کیونکہ ان کے فیصلوں میں عام آدمی شرکت نہیں کرتے۔ صرف رہنمائوں کی خواہشوں کو سامنے رکھاجاتاہے۔ اسی لئے پاکستان آگے بڑھنے کی بجائے شہری مسائل پرافریقی ملک کانقشہ پیش کرتاہے اور عوام بار بار مارشل لا کی دعائیں مانگنے لگتے ہیں۔ میں خود ایک سیاسی کارکن رہاہوں جو جماعت کے اعلیٰ عہدوں تک بھی پہنچ گیا۔ مگر میری باتیں عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں کوئی پذیرائی حاصل نہ کرسکیں۔ میں نے سیاسی رہنمائوں کے درمیان ایسے معاہدے بھی دیکھے ہیں جن میں پنجاب، سرحد اور سندھ، بلوچستان کے لئے مختلف پروگرام ہوتے تھے۔ اگر سیاسی کارکن باشعور ہونے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہ کرسکیں تو ڈپریشن(Depression)میں مبتلا ہوجاتے ہیں اوران کی قوت کارکردگی بھی متاثر ہوجاتی ہے۔جس کا فائدہ نہ ملک کو پہنچتا ہے نہ قوم کو اور نہ ہی قومی بحرانوں کا مقابلہ کرنے کی ان میں طاقت رہتی ہے۔ اسی لئے پاکستان مسائل کی آماجگاہ ہے۔ کاغذوں پربہت کچھ بیانات دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے جیسے کہ پاکستان میں دہشت گردی کوپھیلنے کا موقع ملا۔ اگر سیاسی جماعتوں کی نرسری مضبوط ہوتی اور کارکنوں کو اہم موقع دیئے جاتے تو آج دہشت گردی، تخریب کاری اور سول سوسائٹی میں عدم تحفظ کااحساس پیدا نہ ہوتا۔ اگر پاکستان کو ترقی کرتاہوا اور سول سوسائٹی کو جرائم کا مقابلہ کرتے ہوئے دیکھناچاہتے ہیں تو اپنی جماعت کے کارکنوں کو اہم مقام دیں اور ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ وڈیروں ،جاگیرداروں، سرمایہ داروں کو صرف اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کراخباری بیانات کے ذریعے مسئلے حل نہیں کرنے چاہئیں۔ میں پیدل پھرنے والا شخص ہوں میرادل خون کے آنسو روتا ہے جب میں گندی گلیوں، جراثیم زدہ پانی، اسپتالوں میں دوائوں کی عدم دستیابی اور پاکستان کی طاقت جو غریب عوام ہیں ان کے مسائل سنتاہوں تو محسوس کرتاہوں کہ ہم کہاں کھڑےہیں اور انجام گلستان کیاہوگا؟
پاکستان کی سیاست میں مسائل کو حل کرنے کا شعور جب آئے گا اور یہ ملک ایٹمی طاقت بننے کے باوجود بین الاقوامی طور پر جب کھڑا ہوگا جب یہاں سیاسی کارکنوں کو ان کا مقام دیاجائے گا اور ان کی اعلیٰ صلاحیتوں سے بھرپورفائدہ اٹھایاجائے گا۔ برصغیر کی آزادی اور تحریک پاکستان میں جو جدوجہد ہوئی تھی جس کی بنیاد پر اس قوم نے پاکستان حاصل کیاوہ کارکنوں کی جدوجہد اور قربانیوں کانتیجہ تھا۔ اکثررہنمائوں نے نچلی سطحوں پر سیاست کا آغاز کیا جس کی وجہ سے برطانوی حکومت قیام پاکستان پر راضی ہوئی۔ میں دیانت داری سے اپنے رہنمائوں کو یہ مشورہ دیتاہوں کہ وہ اپنے کارکنوں کو’’چارے‘‘ کے طور پراستعمال نہ کریں بلکہ انہیں اہم مقام دے کر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ ورنہ بقول صدر ایوب خان کے بھائی سردار بہادر خان نےیہ کہہ کراستعفیٰ دے دیاتھا کہ ’’ہرشاخ پہ الو بیٹھاہےانجام گلستاں کیاہوگا‘‘۔ اپنے کارکنوں کو جائز مقام دیجئے تاکہ جمہوریت پروان چڑھے اور ملک ترقی کرے۔
تازہ ترین