• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
16 دسمبر کے سانحہ کے بعد قومی ایکشن پلان ، مدرسہ اصلاحات ، کالعدم تنظیموں اور دیگر کئی اہم امور پر بہت ساری باتیں ہو رہی ہیں۔لیکن تمام تر حکومتی کوششوں کو دیکھنے کے بعد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت تک کیے جانے والے تمام اقدامات سے وقتی طور پر تو کوئی تبدیلی پیدا ہو جائے لیکن ہمیشہ کے لئے دہشت گردی ، انتہاء پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کے لئے جن اقدامات کا اٹھایا جانا ضروری ہے ان کے بارے میں کوئی واضح سمت نظر نہیں آ رہی ۔ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم پاکستان آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی جس مشترکہ نقطہ پر ملک کو لے کر جانا چاہتے ہیں وہی مسئلہ کا حل ہے اور اس نقطہ کا آغاز بڑا واضح ہے کہ نہ پاکستان کے اندر سے کسی ملک میں مداخلت ہو اور نہ کسی ملک سے پاکستان میں مداخلت ہو لیکن پالیسی کی اس تبدیلی کے جو اثرات مرتب ہوں گے اور جو ماضی کے اثرات موجود ہیں ان کے خاتمے کے لئے ہر لمحہ غور و فکر کی ضرورت ہے ۔ 80 کی دہائی سے شروع ہونے والا فرقہ وارانہ تشدد اس وقت اپنے عروج پر ہے ۔ ایک طرف بم دھماکوں اور خود کش حملوںسے ایک مکتبہ فکر کی امام بارگاہوں اور مساجد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو دوسری طرف ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے دوسرے مکتبہ فکر کی اہم شخصیات نشانہ بن رہی ہیں۔ اس فرقہ وارانہ تشدد کا سبب توہین آمیز لٹریچر اور تکفیر پر مبنی تقریروں کو قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں اب یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جب پاکستان کی سڑکوں پر دو عالمی انتہاء پسند تنظیموں کے پرچموں کے ساتھ جلوس نکالے جائیں اور دو ملکوں کے لئے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگیں تو اس سے معاملہ کی تلخی اور گہرائی سمجھ میں آجانی چاہئے۔ قومی ایکشن پلان میں جہاں لائوڈ اسپیکر کے ناجائز استعمال پر پابندی لگائی گئی ہے وہاں پر توہین آمیز لٹریچر پر بھی پابندی لگائی گئی ہے لیکن افسوس کہ جن ذمہ داروں نے اس پابندی پر عمل کروانا ہے ان کو خود معلوم نہیں ہے کہ کون سا لٹریچر قابل گرفت ہے اور کون سا لٹریچر قابل گرفت نہیں ہے ۔ اسی طرح لائوڈ اسپیکر کا بھی معاملہ ہے کہ بہت سے مقامات پر صرف افسران بالا کی خوشنودی اور تعداد میں اضافے کے لئے ناجائز پرچے بھی کیے جا رہے ہیں اور بے گناہ لوگ بھی گرفتار ہو رہے ہیں ۔ 16دسمبر کے بعد وزیر اعظم پاکستان ، وزیر اعلیٰ پنجاب ، وفاقی وزیر داخلہ نے یہ یقین دہانی تو کروائی تھی کہ کسی کو ناجائز تنگ نہیں کیا جائے گا لیکن افسوس کہ بعض افسران جو کہ مخصوص متعصبانہ ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں ان کے رویوں کی وجہ سے یہ سارا عمل صاف اور شفاف نہ رہ سکا۔ مدارس میں اصلاحات کے معاملے میںوفاقی وزارت داخلہ نے وفاقی سیکرٹری مذہبی امور کی سر براہی میں ایک کمیٹی قائم کی ہے لیکن اس کمیٹی سے جو کام لیا جانا ہے فی الحال وہ نظر نہیں آ رہا ۔ مدارس کی مختلف تنظیمیں اس صورتحال میں تذبذب کا شکار ہیں۔ بالخصوص وہ تنظیمیں جو حکومت کے ساتھ معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہیں ان کو بہت ساری شکایات پیدا ہو رہی ہیں اور اس کا ازالہ ممکن نظر نہیں آتا۔ اسی طرح سن 2000 ء کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والی نظریاتی اور فکری سوچ میں تبدیلی کے لئے بھی کوئی اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ وفاقی سیکرٹری مذہبی امور کی سربراہی میں بنائی جانے والی کمیٹی کو اگرچہ اس کی ہدایات دی گئی ہیں لیکن عملی طور پر اقدامات ابھی نظر نہیں آ رہے اور اس کی وجہ تمام فریقوں اور ماہرین کا ایک جگہ جمع ہونا اور اتفاق رائے کرنا ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ پاکستان کے اندرگزشتہ بیس سے پچیس سالوں میں فرقہ وارانہ تشدد ، انتہاء پسندی اور دہشت گردی نے اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں اور اس کے اثرات بھی معاشرے میں موجود ہیں۔ اس عرصہ کے دوران ریاست کس مصلحت کے تحت خاموش رہی اور بعض معاملات میں ریاست نے ایسے گروہوں اور جماعتوں کی سرپرستی کیوں کی ، ممکن ہے آج اس پر بحث کرنے سے مزید وقت ضائع ہو اور اگر مزید وقت ضائع کیا گیا تو خدانخواستہ ہم کسی بڑے سانحہ سے دوچار نہ ہو جائیں ، اس لئے ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے حال اور مستقبل کی اصلاح کی طرف توجہ دی جانی چاہئے۔ جن میں اہم مسئلہ مدارس عربیہ بتایا جا رہا ہے حالانکہ انتہاء پسندی ، دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تشدد کالجز اور یونیورسٹیوں میں بھی اسی طرح تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے جس طرح مدارس کے بارے میں کہا جاتا ہے ۔ جہاں تک مدارس کی بات ہے تو اس میں بنیادی غلطی ہمیشہ حکومتوں سے یہ ہوئی ہے کہ انہوں نے مدارس کے حوالے سے کسی بھی پالیسی کے بنانے سے قبل مدارس پر الزام تراشی کا سلسلہ اس انتہاء پر پہنچا دیا کہ جس سے مثبت معاملات بھی حل ہونے کی بجائے تاخیر کا شکار ہو گئے ۔ ماضی میں کئی مرتبہ حکومت اور مدارس کی بعض تنظیموں کے درمیان معاہدے طے پائے لیکن ان معاہدوں کی تکمیل بھی نہ ہو سکی۔ مدرسہ ریفارمز اور مدرسوں میں جدید نظام تعلیم لانے کی گفتگو تو بہت ہی اچھی لگتی ہے لیکن جب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مدرسے میں کیا تبدیلی حکومت کو درکار ہے تو اس پر کوئی تسلی بخش جواب سامنے نہیں آتا۔ جب کہ حقیقت یہ نہیں ہے کہ بات نصاب کی نہیں ہے بات سوچ اور فکر کی تبدیلی کی ہے ۔ اگر حکومت علماء ، مفکرین اور دانشور نصاب تبدیل بھی کروا لیں اور ذہنی ، فکری اور نظریاتی تبدیلی کے لئے کوئی جدوجہد نہ کریں تو اس سے کیا فائدہ حاصل ہو گا؟ اسی طرح اگر ذہنی ، فکری اور نظریاتی تبدیلی آ بھی جائے اور داخلہ اور خارجہ پالیسی تبدیل نہ ہو اور جن وجوہات کی بنیاد پر متشددانہ رویے جنم لیتے ہیں ان کو ختم نہ کیا جائے تو پھر بھی معاملات حل نہیں ہو سکتے ۔ ممکن ہے تمام صوبوں کے ذمہ داران وزیر اعظم کو یہی بتلاتے ہوں کہ وہ 16 دسمبر کے بعد بننے والے قومی ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوئے بہت بڑا انقلاب لے آئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ غلط ہو گا بعض مقامات پر لائوڈ اسپیکر کے حوالے سے بہتر تبدیلی آئی ہے لیکن باقی معاملات جوں کے توں ہیں۔ حتیٰ کہ بے گناہ اور ناجائز طور پر گرفتار کیے گئے افراد کی رسائی کے لئے بھی کوئی دروازہ ایسا میسر نہیں آ رہا جہاں پر انصاف مل سکے اور غیر جانبدارانہ تحقیق ہو سکے ۔ یہی وہ رویہ ہے جس نے ماضی میں بھی فرقہ وارانہ تشدد ، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کو تقویت دی ہے اور آج بھی اس سے مثبت اثرات کی بجائے منفی اثرات پیدا ہو رہے ہیں ۔ خود حکمرانوں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے اور وزیر اعظم اور آرمی چیف کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ 16 دسمبر کے بعد پوری قوم دہشت گردی ، انتہاء پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف یکجا تھی ، کوئی ایک آواز بھی ایسی نہیں تھی جو قومی ایکشن پلان کے خلاف سنائی دے رہی ہو ۔ لیکن آج بہت سارے طبقات حتیٰ کہ حکومت کی حلیف جماعتیں اور مذہبی قوتیں بھی اس پر بہت سارے اعتراضات اٹھا رہی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ اس پر غور کیا جانا ضروری ہے۔ آخر میں یہ بات مسلمہ ہے کہ حکومتی رٹ اور قانون کی خلاف ورزی پر ایکشن ہونا چاہئے اور اس میں کسی کے ساتھ رعایت نہیں ہونی چاہئے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ اگر قانون کا ناجائز استعمال کیا جائےتو اس سے مثبت نہیں منفی اثرات پیدا ہوتے ہیں۔
تازہ ترین