دہشت گردی کا اب وہ زور تو نہیں کہ بقول الطاف حسین حالیؔ ’’زندگی کشف وکرامات دکھائی دیتی ہے۔‘‘ تاہم اٹک میں وزیرداخلہ کرنل(ر) شجاع خانزادہ کی اپنے ڈیرے پر خودکش حملے کے نتیجے میں شہادت نے پورے ملک میں اضطراب اور پریشانی پیدا کردی ہے۔ ان سے قبل خیبرپختونخوا کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور بھی دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ایک طرف آپریشن ضرب عضب ’’ذمہ دارانہ طریقے‘‘ سے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ آپریشن خیبر ٹو بھی منسلک کردیا گیا ہے۔ بیس تیس دہشت گردوں کی ہلاکت کی خبریں آئے دن کا معمول ہیں۔ پیر کو شمالی وزیرستان خیبر ایجنسی میں بمباری سے65 دہشت گرد ہلاک ہوئے اور اسلحہ ڈپو تباہ ہوگیا۔ فوجی عدالتوں سے پھانسیوں کی سزائیں بھی دی جارہی ہیں اور پولیس مقابلے بھی جاری ہیں۔ کرنل ریٹائرڈ شجاع خانزادہ کی شہادت کو ملک اسحاق کی پولیس کسٹڈی میں مقابلے میں ہلاکت کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق کرنل (ر) شجاع خانزادہ پر ایسا حملہ متوقع تھا۔ خود وزیر بھی ان دھمکیوں سے آگاہ تھے لیکن اس کے باوجود ان کی سیکورٹی کی طرف سے غفلت برتی گئی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خارجہ امور حکومت فوج کے سپرد کرچکی ہے۔ وزیراعظم اور متعلقہ وزراء کا کام ان امور میں محض نمائشی میٹنگ اور صرف بیانات دینا رہ گیا ہے۔ وزیراطلاعات پرویز رشید نے حملے کو بزدلانہ کارروائی قراردیا ہے اور وزیراعظم نے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن ضرب عضب جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیاہے۔
کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی شہادت وفاقی اور پنجاب کی صوبائی حکومت کے لئے براہ راست چیلنج ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں ماضی میں اے این پی، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنما ہلاک ہوئے۔ انٹیلی جنس اطلاعات کے مطابق اب پنجاب خصوصاً مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو ہدف بنایا جائے گا۔ معتبرسیکورٹی ذرائع کرنل (ر) شجاع خانزادہ پر حملے میں تحریک طالبان پاکستان ملوث ہونے کا امکان ظاہر کررہے ہیں۔ جسے کالعدم لشکر اسلام کی معاونت حاصل تھی۔ تاہم اس حملے کے پیچھے کالعدم لشکر جھنگوی کے ملوث ہونے کے امکانات زبان زد عام ہیں۔ اس کے سربراہ کی ہلاکت سے اس تنظیم کو پنجاب میں بڑا دھچکا لگا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے لئے تمام زور نیشنل ایکشن پلان پر ہے جو دہشت گردوں کو فنڈز مہیا کرنے سے لے کر فرقہ ورانہ شدت پسندی تک دہشت گردی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ ضرب عضب آپریشن میں شدت آنے کے بعد بہت سی دہشت گرد تنظیمیں اور دہشت گرد روپوش ہوگئے یا کچھ عرصے کے لئے منظر سے اوجھل ہیں۔
نائن الیون کے بعد امریکہ کا دشمن امریکہ سے باہر تھا اس لئے اس نے فائرپاور پر انحصار کیا اور اسے بطور حکمت عملی اپنایا۔ ہمارا حقیقی دشمن امریکہ اور بھارت بھی ملک سے باہر ہے۔ تاہم انہوں نے اپنی خفیہ انٹیلی جنس، پاکستان میں پیدا کردہ اپنے ایجنٹوں اور تنظیموں کی مدد سے جو جنگ برپا کررکھی ہے وہ ملک کے اندر ہے۔ ہمارا ایک دشمن باہر اور دوسرا ملک کے اندر ہمارے درمیان میں موجود ہے۔ حملے کرکے وہ زیرزمین چلاجاتا ہے اور موقع پاتے ہی وہ اپنے مشن اور مرضی کے مطابق ٹارگٹ کا تعین کرتا ہے اور باہر آکر اس پر حملے کردیتا ہے۔ اگر وہ حملہ نہیں کرتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے اپنے نظریات سے رجوع کرلیا ہے جو تنظیمیں فرقہ واریت میں ملوث ہیں ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ پابندی لگانے کے باوجود ان تنظیموں کے خلاف کوئی خاص کامیابی دیکھنے میں نہیں آرہی۔
برصغیر میں فرقہ واریت برطانیہ کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ ہے۔ پاکستان میں 80 اور 90 کی دہائی میں مختلف النوع علاقائی طاقتیں بھی اس میں ملوث ہوگئیں جن کا میدان جنگ پاکستان تھا۔ پھر ہمارے اندر موجود چھوٹے چھوٹے ابہام اور اختلافات اس خوبی سے ابھارے گئے، نظریات جنم دیئے گئے، افراد اور تنظیمیں تشکیل پائیں ۔ تحریک طالبان پاکستان ان تنظیموں کی عسکری مددگار بن گئی۔کرنل (ر) شجاع خانزادہ کی شہادت کے لئے خودکش حملہ آور تحریک طالبان اور لشکر اسلام کے کمانڈر کی معاونت سے فراہم کئے گئے ہیں۔ ان کی شہادت ثابت کرتی ہے کہ دہشت گردی کا عفریت اندازوں سے کہیں زیادہ بڑا اور طاقتور ہے۔ ریاست کی ادنی سی کمزوری سے جو پھر قابو سے باہر ہوسکتا ہے۔ دہشت گردوں کے نظریات پر ضرب لگائے بغیر اس جنگ کو جیتنا مشکل ہے۔