• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس وقت وائرس کی طرح سبک رفتاری سے پھیل جانے والا عمومی بیانیہ ’’ہماری عالمی تنہائی‘‘ ہے۔ہم خطے میں تنہا ، ہمارے امریکہ سے تعلقات انتہائی نچلی سطح پر ہیں۔ اس تنہائی کا ذمہ دار کون ہے؟ یقینا اس کی ذمہ داری ہمارے جہاد کے گہرے شغف اور دنیا ئے جہاد کے سرخیل حافظ سعید، مولانا مسعود اظہر، حقانی وغیرہ کے لئے نرم گوشے پرعائد ہوتی ہے۔یہ تباہ کن راستہ کس نے اپنا رکھا تھا ؟ اس کا ذمہ دار عسکری ادارہ، اور چونکہ اس کی قیادت جنرل راحیل شریف کے پا س تو دبے لفظوں میں یہ پیغام دیا جارہاہے کہ اس کا الزام حتمی طور پر اُن پر ہی آتا ہے ۔ کیا واقعی ایسا ہے؟زیادہ تر پاکستانی جنرل صاحب کو ایک ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں، جنہوں نے ایک پرعزم کمانڈر کی طرح فوج کی قیادت کی اور فاٹاسے انتہا پسندی کی لہر کا رخ پھیر ااور کراچی کا امن بحال کردیا۔ تاہم حکمران جماعت کے قریبی حلقے اُنہیں نہایت چالاکی سے ’’پاکستان کی تنہائی کی وجہ ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔بھارت نے اُڑی حملے کے بعد سرحد پار دہشت گردی کا راگ الاپنا شروع کردیا ۔ یوں تو یہ راگ تمام دنیا کو سنانے کے لئے تھا لیکن اس کا زیادہ اثر پاکستان میں دیکھنے میں آیا ۔ یہاں یکا یک مختلف کونوں سے ’’پاکستان کی عالمی تنہائی ‘‘ کا ماتم شروع ہوگیا۔
اس تنہائی کی حقیقت کا کھوج لگانے کی زحمت کوئی نہیں کرے گا۔ کیا اس سے مراد خطے میں ہمارے بھارت سے تعلقات ہیں؟ یہ تو ہے ہی ایک مضحکہ خیز بات۔ تو کیا افغانستان سے ؟ ہم اس ابدی میدان جنگ نما ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کب رکھتے تھے ؟ اور پھر جس کے مسائل امریکہ حل نہ کرسکا، پاکستان کیا تیر مار لیتا؟ ہم اپنے تمام ایف سولہ طیارے اور ٹینک افغانستان بھیج سکتے ہیں لیکن وہاں امن قائم کرنا ہمارے ، یا کسی اور کے ، بس میں نہیں ۔ افغانستان کو ’’سلطنتوں کا قبرستان ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ بالکل درست، تو پاکستان ایسے قبرستانوں کا مجاور نہیں بن سکتا۔ امریکہ ہم سے بھارت یا اُڑی حملے کی وجہ سے ناراض نہیں، بلکہ اس کی وجہ افغانستان میں اس کے ارادوں کو ہونے والی شکست ہے کہ وہ وہاں پوری عسکری توانائی جھونکنے کے باوجود اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکا ۔ تو کیا امریکی ناکامی کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے ؟اگر واقعی ایسا ہوتا تو ہمارے لئے خوشی کی بات تھی،لیکن یہ درست نہیں ۔ یقینا حقانی شمالی وزیر ستان میں موجود تھے ،اور ہو سکتا کہ بہت سے لوگ اس بات پریقین نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ضرب ِعضب کے بعد اُن کی وہاں موجودگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ افغانستان کا مسئلہ صرف حقانیوں تک ہی محدود نہیں۔
مانا کہ انڈیا اُڑی حملے پر مشتعل ہے ، اگر ہمارے اٹھارہ فوجی اس طرح جاں بحق ہوجاتے تو ہم بھی مشتعل ہوتے، لیکن یہ بات بھی غلط نہیں کہ انڈیا کا اصل مسئلہ اس طرح کا کوئی اکا دکا واقعہ نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر کی ہنگامہ خیز صورت ِحال ہے ۔ کشمیری اب بھارتی تسلط سے تنگ آچکے ہیں تو پاکستان انڈیا کا یہ مسئلہ کس طرح حل کرسکتا ہے ؟ہم حافظ سعید یا مسعود اظہر کو کالے پانی بھی بھیج دیں لیکن کیا بھارتی ظلم و جبر کے ستائے مشتعل کشمیری آرام سے گھر بیٹھ جائیںگے ؟تو بہتر ہے کہ ہم ’’تنہائی ‘‘ کے راگ کا آہنگ ذرا دھیما رکھیں۔ ہم ایران کے ساتھ اپنے تعلقات یقینا بہتر بناسکتے ہیں،لیکن انڈیا اورافغانستان کے ساتھ امن بحال کرنا اور بات ہے ۔ اس مرحلے پر پاکستان اپنے امریکی دوستوں کو خوش کرنے کے لئے کچھ نہیں کرسکتا۔ اُنہیں اپنی افغان مہم کی ناکامی کے لئے کسی قربانی کے بکرے کی ضرورت ہے، اور اس کے لئے انہیں پاکستان سے بہتر کوئی نہیں۔ چنانچہ امریکی غصے یا جھنجھلاہٹ کا کوئی علاج نہیں ۔ پاکستان کو واشنگٹن میں پسند نہیں کیا جاتا ، اور ہمیں یہ حقیقت سمجھ میں آجانی چاہئے تھی۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کے محاذ پرخرابی یا اس کی تنہائی کی دہائی کون دے رہا ہے ؟یہ حکومتی عناصر ہیں۔ اور چونکہ ان ناکامیوں کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر عائد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس لئے اس جتھے نے بیک زبان ہوکراسٹیبلشمنٹ پر چڑھائی کردی۔ اس کے پیچھے کارفرما محرک ناقابل ِفہم نہیں۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران حکومت کو جنرل راحیل کی عوامی مقبولیت نے زچ کیے رکھا۔ تاہم اس حملے کا ایک عملی پہلو بھی ہے ۔ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کا وقت قریب ، اور ان کے جانشین کی نامزدگی کا مرحلہ درپیش ہے ۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ پر پاکستان کی تنہائی کا الزام عائد کرتے ہوئے حکومت اگلے آرمی چیف کے لئے اپنی مرضی کا چیف لگانے کی کوشش میں ہے ۔ دراصل حکمرانوں کی رات کی نیند حرام کرنے کے لئے ایک اسٹیبلشمنٹ ہی کافی تھی ، اب وہ کسی اور کے متحمل نہیں ہوسکتے،خاص طور اس وقت جب اُنہیں عمران خان کی طرف سے سنگین چیلنجز درپیش ہیں اور پھر 2018ء انتخابات کا سال بھی ہے ۔
حکمرانوں نے اب تک زیادہ ترمعرکوں میں کامیابی حاصل کی ۔ کبھی پی پی پی سے ان کی سخت رقابت تھی،لیکن موجودہ پی پی پی ان کے لئے بڑا سیاسی خطرہ نہیں ۔ انھوں نے 1998 ء میں سپریم کورٹ پر ’’کامیاب حملہ ‘‘ کیا اوربچ نکلے ۔ راستے میں مسائل پیدا کرنے والے دو صدر آئے ، غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری، لیکن اُنہیں چلتا کردیا گیا۔ بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کا فن ان سے بہتر شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ تاہم یہ ابھی تک دو مسائل کا حل تلاش نہیں کرپائے ہیں، ایک عمران خان اور دوسری ا سٹیبلشمنٹ۔ عمران خان کی مقبولیت ان کے راستے کا ایک کانٹا تھی، اب تو وہ ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ اس ماہ کی تیس تاریخ کو اسلام آباد مارچ کوئی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے ۔ میڈیا میں موجود حکومت کے دوست پریشان، خاص طور پر رائے ونڈ جلسے میں شرکا کی تعداد اور جوش و جذبے نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ اس جلسے کے بعد حکومت کے سدابہار نقیب خاموش ہوکر بیٹھ گئے ہیں۔ یہ سوچ کرکہ اگر اسلام آباد کی طرف بھی اتناہی ہجوم، اسی جذبے کے ساتھ آگیا تو کیا ہوگا؟ نامعلوم خوف سے فضا گہری ہوتی جارہی ہے ۔
فی الحال حکمرانوں کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنا حامی آرمی چیف نہیں لگا سکے ۔ اب ان کے پاس یہ آخری موقع ہے ، اور وہ اس مرتبہ کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتے ۔ جنرل شریف کے خلاف دبے لفظوں میں ایک مہم سی شروع ہوچکی ، اور وزیر ِاعظم آفس نے بھی حوصلہ دکھاتے ہوئے ’’پاکستان کی تنہائی کا باعث بننے والی پاکستان کی خفیہ ایجنسی کی جہادی پالیسیوں ‘‘ پر بات کی ۔ میٹنگ کی تفصیل سے اس بات کی غمازی ہوتی ہے جیسے اسٹیبلشمنٹ کٹہرے میں کھڑی ہواور تفتیش اور انصاف کا ترازو وزیر ِاعلیٰ پنجاب کے ہاتھ میں ہو (وزیراعلیٰ پنجاب اس خبر کی تردید کرچکے ہیں)۔ چنانچہ خارجہ پالیسی پر بحث محض ایک اسموک اسکرین ہے۔ اس پردے کے پیچھے حکومت کا اصل کھیل جی ایچ کیو میں اپنا ایسا آدمی لگانا مقصود ہے جو جنرل راحیل شریف جیسا نہ ہو۔ جب ایک مرتبہ شریف برادران اس صورت ِحال سے اپنی تسلی کے مطابق نمٹ لیں گے تو پھر وہ عمران خان کے چیلنج کا زیادہ اعتمادسے سامنا کرلیں گے ۔ اُن کا اعتما د بحال ہوجائے گااور پاناما پیپرز میں پاکستان کے حکمران خاندان کی سمندر پار دولت اور جائیداد کے بارے میں ہونے والے انکشافات پہلے سے موجودہ رازوں کے گہرے سمندر میں اتر جائیں گے۔



.
تازہ ترین