• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی ایما پرایک بار پھر بھارت مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے جنگی خود کشی کرنے پر مائل دکھائی دے رہا ہے۔بھارت کی طرف سے پانی بند کردینےاور اضافی پانی چھوڑ کر پاکستان کو ڈبونے کی کوششیں نئی نہیں ہیں۔اسی کوشش پر لیاقت علی خان نے بھارت کو مخاطب کرتے ہوئےببانگ دہل اعلان کیاتھا ’’ہم پانی کے ایک ایک قطرے کی خاطر اپنے خون کا ایک ایک قطرہ دے دیں گے‘‘ اس موثراعلان کے بعدہی عالمی دبائو پر پاک بھارت پانی مذاکرات شروع ہوئےتھے۔ آخر کار ورلڈ بینک نے ہی بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو صدر جنرل ایوب خان کے ساتھ کراچی میںایک میز پر بٹھا دیا اور 9 ستمبر 1960ء کو پاکستان اور بھارت کےمابین پانی کی تقسیم کا معاہدہ سندھ طاس طے پاگیاجسکے مطابق سندھ، جہلم اور چناب کے دریا پاکستان جبکہ راوی ستلج اور بیاس کے پانی پر بھارت کو حق حاصل تھا۔ بھارت کو یقین کامل تھاکہ10سالوں میں پاکستان 3 ڈیم‘5 بیراج اور7 رابطہ نہریں نہیں بنا سکے گا اور پاکستان کے حصے کا پانی اسے ملتا رہے گا لیکن واپڈا نے یہ حیران کن ٹاسک مقررہ وقت میں مکمل کرتے ہوئےدنیا کا دوسرا بڑا آبی نظام بنا ڈالاجس میں منگلا ڈیم، تربیلا ڈیم اور سات رابطہ نہریں شامل تھیں۔اب بھارت کے شیطانی اذہان نےنیا خوفناک منصوبہ ترتیب دیا کہ پیسے کی چمک سےپاکستان میں کوئی نیا ڈیم نہ بننے دیا جائے۔بھارتی سازش کامیاب رہی وہ قوم جس نے 10سال میں دنیا کا دوسرا بڑا آبی نظام بنایا تھاوہ چار دہائیوں سے زائد عرصہ میں کوئی ایک بھی بڑا ڈیم بھی نہیںبناسکی۔ جونہی کوئی منصوبہ شروع ہوتا بھارتی لابی راستے میں پہاڑ کھڑے کروا دیتی۔ بھارت گزشتہ 40سالوں سے سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی کر رہا ہے۔1999ء میں جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب پر 450 میگاواٹ کا بگلیہار ڈیم بنانےلگا تو پاکستان کے شدید احتجاج کے باوجود ڈیم کا پہلا فیز 2004 جبکہ دوسرا فیز 2008ء میں مکمل کرلیا گیا۔اس ڈیم کی وجہ سے پاکستان میں 13لاکھ ایکڑ زرعی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔ بھارت نے 2007ء میں دریائے جہلم پر کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ شروع کیاجسکی وجہ سے پاکستان میں نیلم جہلم پروجیکٹ کا پانی 16 فیصد کم ہو گیا ہے۔بھارت اسکے ذریعے دریائے جہلم کا پانی 24 کلو میٹر لمبی سرنگ میں پھینک کراسے بھارتی علاقوں کی طرف موڑ لے گا۔اس سے نیلم جہلم کی بجلی کی پیداوار دس فیصد کم ہو گی۔جون 2013ء میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میںکشن گنگا اور بگلیہار سے بھی تین گنا بڑا ہائیڈرو الیکٹرک پاور پروجیکٹ بھی شروع کیا تھا جو 2018ء تک مکمل ہو گا جس کے بعد دریائے چناب کے ہیڈ مرالہ پر پانی کا بہاؤ 40فیصد کم ہو جائے گا یوں پنجاب اور سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمینیں بنجر ہو جائیں گی۔ 2022ء پلان کے مطابق بھارت پاکستان کے پانیوں سےنہ صرف 32 ہزار میگاواٹ بجلی بنائے گابلکہ پانیوں کا رخ بھی بھارت کی طرف موڑ کر پاکستان کوبوند بوند کے لیے ترسا دے گا۔بھارت جنگ کی آڑ میں نہ صرف سندھ طاس معاہدہ کویکطرفہ طور پر ختم کرنے پر سنجیدگی سے غور کررہا ہے بلکہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے لیکن بلوچستان کی بالعموم اور سندھ، کے پی کی سیاسی قیادت بالخصوص کالاباغ ڈیم بنانے کی شدید مخالف ہے۔ بشمول عالمی اور مقامی تمام ماہرین اس امر حقیقی پر ہم خیال ہیں کہ کالا باغ ڈیم بننے سےپاکستان ہر لحاظ سے خود کفیل ہوجائیگا اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائیگا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہم بھارتی لابی کے دباؤکے تحت ہی کالا باغ ڈیم نہیں بنا سکے۔ امر واقعہ تو یہ ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدہ منسوخ نہیں کر سکتااسکی دو وجوہات ہیں اول یہ کہ اس کا ضامن عالمی بینک ہے دوم یہ کہ چین نے دریائے برہم پترکا پانی عملی طور پر بند کرکے بھارت کو کوئی نیا آپشن سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ بھارت اور افغانستان امریکہ کے ایما پر سی پیک منصوبے کو متنازع بناکر منسوخ کرنےکیلئےخطرناک چالیں چل رہے ہیں۔ برصغیر پاک وہند کے نقشے میں تبدیلیاں سوچنے والوں کی سرگرمیاں عروج پر جاپہنچی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تین دہائیوں سے برصغیر پاک وہند کےآسمان پر منڈلاتا خطرہ پانی کی جنگ کی شکل میں ظہور پذیر ہوگا۔ دنیا پھردوبڑے بلاکوں میں تقسیم ہوجائیگی ایک میں بھارت،افغانستان،امریکہ اور اتحادی ہوں گے جبکہ دوسرے بلاک میں پاکستان، چین، روس اور اتحادی مد مقابل ہوں گے۔ماہرین کا ماننا ہے پٹھان کوٹ حملہ جھوٹے ڈرامہ کا پہلا ایکٹ جبکہ سرجیکل اسٹرائیک دوسرا ایکٹ تھا۔ بھارت کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اس بار بھارت میںبھارت کے ہی وزیر اعظم مودی کی جارحانہ پالیسی کے خلاف آواز بلند ہوگی سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت مانگے جائیں گے۔ بھارتی ثقافتی، صحافتی، تجارتی اور شہری حلقوں میںجنگ کے خلاف کھلم کھلم بحث شروع ہو جائیگی۔ بھارت کی جارحانہ پالیسی کے خلاف پاکستان میں کھڑا کیا گیا سیاسی محاذ حکومت مخالف کم اور پاکستان مخالف کہیں زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ طاہر القادری نے عمران خان کے 30 ستمبر کے جلسےمیں شرکت سے انکار کردیا ہے۔نعیم الحق کے بقول اب انھیں طاہر القادری سمیت کسی کی بھی ضرورت نہیں اگر طاہر القادری اتنے ہی غیر اہم تھے تو شیخ رشید لندن جاکرکیوں انکے ترلے کرتےرہے؟پاناما لیکس کے خلاف سپریم کورٹ،سینیٹ اور الیکشن کمیشن میں ریفرنس زیر سماعت ہیں لیکن عمران خان خود ہی الزام کنندہ،خود ہی گواہ،خود ہی ثبوت اور خود ہی منصف بن کر اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔وہ حکومت کو تہ تیغ کرنےاور سی پیک منصوبے کو متنازع بنانےکی کوششوں میں سرگرم ہیں۔چینی سفیر کی وضاحتوں کے باوجود پرویزخٹک کی سی پیک منصوبے کو خیبر پختونخواسے نہ گزرنے دینے کی دھمکی سےتاثر ملتا ہے کہ وہ بھارتی ایجنڈا پورا کرنےکی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔اگر 30اکتوبرکو معاملات بگڑ گئے تو کون ذمہ دار ہوگا؟اگر چین نے سی پیک منصوبہ رول بیک کر دیا کیا قوم عمران خان کو کبھی معاف کرے گی؟عمران خان کیلئےپریشان کن سوچ تو یہ ہےکہ ایٹمی دھماکے کرنے سے لیکر بیشتربڑے عوامی ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کا اعزازمسلم لیگ کو ہی حاصل ہےاگر اپنی ٹرم مکمل کرتے ہوئےموجودہ حکومت نے عظیم الشان سی پیک منصوبہ بھی مکمل کر لیا تو 2018میںمسلم لیگ ن کو ہرانا تحریک انصاف کیلئےخواب اور حکومت کا حصول سراب بن جائے گا۔


.
تازہ ترین