• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات ایک مرتبہ پھر ملتوی ہوگئے ہیںاور ہمیشہ کی طرح ہندوستانی ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز ہمارے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان کھڑا کر رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے دو ارب انسان خوف سے سانس روکے ہوئے ہیں کہ اگر ان دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو اس سے پورے ایشیا کا امن خطرے میں پڑجائے گا کیونکہ ہندوستان میں وہی لوگ برسراقتدار ہیں جو اسے ایشیا کا سردار بنانا چاہتے ہیں۔ اس سرداری کی راہ میں اگر کوئی قوم حائل ہے تو وہ پاکستانی ہے۔ ایک بات طے شدہ ہے کہ پاکستانی قوم کسی طرح بھی ہندوستان کی باجگذار بننے کو تیار نہیں ہے جبکہ ہندوستان ہم سے دس گناہ زیادہ فوج اور اسلحہ کے ڈھیر لگا چکا ہے مگر اس کے رہنماؤں پر پاکستان کا خوف اس درجے سوار ہے جس کا اندازہ ان کی حرکتوں سے ہوتا ہے۔ اس سے پیشتر وہ اپنی دفاعی قوت کا مظاہرہ دو مرتبہ کر چکے ہیں اور پاکستانی دفاعی قوت کبھی سرنگوں نہیں ہوئی۔ اس کا کوئی علاج ہمارے پاس نہیں ہے ہم اس لئے امن چاہتے ہیں کہ جنگ کی نوبت ہماری وجہ سے نہ آئے۔ ان کی خوف زدہ قیادت ہمارے رہنماؤں کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھنے کو تیار نہیں ہے کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے دنیا کا میڈیا اس پر روشنی ڈال رہا ہے۔ ہمارا میڈیا بھی اس سے کچھ زیادہ نہیں دکھاتا۔ تمام تر جدوجہد کے بعد ہمارے رہنماؤں کو بھارت کسی محاذ پر بھی جھکانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ مجھے ایسا لگتا ہے دونوں ملکوں کے درمیان شدید معرکہ آرائی ہونے والی ہے۔ جس کی ذمہ دار ہندوستان کی لیڈر شپ ہوگی۔ پتہ نہیں ہندوستان کے عوام اپنی لیڈر شپ کو دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کا مشورہ کیوں نہیں دیتی جبکہ ہندوستان کے عوام کو اس کی جنگجویانہ پالیسی پر اتفاق نہیں ہے بلکہ ان کی مصیبتوں اور مشکلات کی وجہ ان کی لیڈر شپ ہے جو کشمیر کو بین الاقوامی فورم کے ذریعے حل نہیں کرنا چاہتی مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر گراہم کو رائے شماری کے لئے اقوام متحدہ نے اپنا نمائندہ مقرر کر دیا تھا۔ ان کے سابقہ رہنماؤں نے بھی کشمیریوں سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی مرضی کے مطابق انہیں جینے کا حق دیا جائے گا مگر ہر روز آگ اور خون کی ہولی ان کا مقدر بنا دی گئی ہے ۔ میری ملاقات اکثر ہندوستانی کشمیریوں سے راولپنڈی میں ہوتی رہتی ہے جو ہندوستان کے عوام سے ہمدردی رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کشمیر کے مسئلے پر ہٹ دھرمی کی وجہ سے بھارتی عوام مشکلات کا شکار ہیں۔ ضروریات زندگی بہت مشکل مرحلے میں ہیں اور کشمیری عوام کو زیادہ دیر تک ان کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ان سچائیوں کی وجہ سے ہندوستانی لیڈر شپ مختلف حیلے بہانوں سے مذاکرات سے انکار کر دیتی ہے جبکہ ہندوستانی عوام کی ایک وسیع تعداد اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں اپنی قیادت کو ذمہ دار قرار دیتی ہے ان کے ذمہ دار لیڈر انصاف پسند سیاسی قوتیں اور انصاف پسند میڈیا بھی اس ناسور سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔ کشمیری عوام دنیا کے ان انصاف اور آزادی چاہنے والے حلقوں سے طاقت حاصل کرتے ہیں ان کا مطالبہ ایک ہی ہے مگر استصواب رائے جس کا وعدہ ان کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اور دیگر لیڈر شپ نے بین الاقوامی فورم پر کیا ہوا ہے اور یہ معاملہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر بھی سلگتا ہوا موجود ہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کے دوست شیخ محمد عبداللہ اپنی کتاب ’’آتش چنار‘‘ میں تفصیل سے ان تمام واقعات کا ذکر کرتے ہیں جس میں انہیں کشمیر کی وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر کوڈی کینال ’’جیل میں دس سال رکھا گیا اور ان کے ساتھ ان کے عظیم ترین دوست بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اپنے ساتھ بخشی غلام محمد کو ملا کر وہ ظلم توڑے جس کا اس کتاب میں ذکر ہے اور ایک سازش کے تحت ڈاکٹر شاماپرشاد مکر جی کو کشمیر جیل میں مار کر الزام شیخ عبداللہ پر لگادیا گیا۔ شیخ عبداللہ نے آئین کے دفعہ 370کو ختم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بہت سے حقائق ایسے موجود ہیں جن کی بنیاد پر بخشی غلام محمد کو سازشوں کے ذریعے کشمیر کا وزیراعظم بنا دیا گیا۔ اس کتاب میں بے شمار حقائق جن کا ذکر اس مضمون میں نہیں کیا جاسکتا اس بات کی دلیل ہیں کہ شیخ عبداللہ نے کشمیریوں اور اپنے ساتھ ظلم و زیادتی کا بھارتی رہنماؤں کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اس وقت ہندوستان کے وزیرداخلہ لال بہادر شاستری نے کشمیری عوام پر بے پناہ ظلم و تشدد کیا۔ مگر تحریک آزادی کشمیر دب نہ سکی اور پاکستان کے حق میں چلتی رہی اور بالآخر 1965ء میں پاکستان پر حملہ کر دیا گیا۔ اس کا پاکستان کی دفاعی قوتوں نے بھرپور جواب دیا اور ہندوستان کو اقوام متحدہ سے اپیل کرنی پڑی۔ جس کے حکم پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی ہوئی اور اور تاشقند روس میں ایوب خان اور لال بہادر شاستری کے درمیان معاہدہ جنگ بندی ہوگیا۔ جسے معاہدہ تاشقند بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تمام واقعات تفصیل سے شیخ عبداللہ کی کتاب’’آتش چنار میں پڑھے جاسکتے ہیں۔ ہندوستانی لیڈر شپ کے انصاف پسند رہنماؤں نے اپنی کتابوں میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ ہندوستانی لیڈر شپ کا بار بار مذاکرات سے انکار کر دینا ان تمام معاہدوں کی نفی ہے جو مذاکرات کی میز پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کا قیام جب عمل میں آیا اس وقت بھی الزام لگا کہ مسلم لیگ کی لیڈر شپ ’’میں نہ مانوں‘‘ کا مظاہرہ کر رہی تھی مگر بعد میں ہندوستان میں جو کتابیں لکھی گئیں ان میں وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی کتاب مولانا آزاد کی کتاب ’’آزادی ہند‘‘ اور دیگر انصاف پسند رہنماؤں کی کتابوں میں یہ سب کچھ لکھا ہوا ہے بدقسمتی یہ ہے کہ ہندوستانی لیڈر شپ خوف میں مبتلا ہے کہ جب بھی کشمیری عوام کو موقع ملا وہ اپنا فیصلہ پاکستان کے حق میں کردیں گے یہ خوف انہیں سونے نہیں دیتا اور نہ ہی مذاکرات کی میز پر وہ پاکستان کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں نوجوان لیڈر شپ دنیا کی آزادی پسند قوتوں کی جدوجہد سے طاقت حاصل کر رہی ہے اب ہندوستان کی آٹھ لاکھ فوج اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
تازہ ترین