• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ستمبر 1965میں عسکری محاذ پر عظیم الشان کارناموں کے علاوہ سیاسی اُفق پر بھی وہ ایک قابلِ رشک منظر تھا۔ یہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر قومی اتحاد و یک جہتی کے اہتمام کا وقت تھا۔ سیاسی قیادت اس آزمائش میں پوری اُتری اور قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند مسلح افواج کی پشت پر کھڑی ہوگئی۔ اتحاد ویک جہتی کی اس فضا نے عساکرِ پاکستان کے جذبوں اور ولولوں کو دوچند کردیا تھا۔
32۔نکلسن روڈ لاہور کی محافل میں کبھی ماضی کا ذکر بھی چھڑ جاتا۔ عمر کے اس حصے میں بھی، جب قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں، نوابزادہ صاحب کا حافظہ قابلِ رشک تھا اور پھر ان کا اندازِ بیاں ، وہ کہے اور سنا کرے کوئی ۔ مزے مزے کی وہ حکایتیں ، نواب زادہ صاحب کی زبانی سننے کا اپنا ہی لطف تھا۔ ایسی ہی ایک شام نواب زادہ صاحب کہہ رہے تھے، قومی سلامتی یا ملکی مفاد کا کوئی معاملہ ہو، حزبِ اختلاف نے اپنے قومی فریضے کی ادائیگی میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ ستمبر 1965میں بھی ایسا ہی ایک چیلنج درپیش تھااور سیاسی قیادت اس میں بھی سرخرو ہوئی تھی۔
صدر جنرل ایوب خاں کی حکومت کے ہاتھوں حزب اختلاف کولگے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے تھے۔ مادرِ ملت اور ایوب خاں کے مابین صدارتی انتخاب کی تلخ یادیں تازہ تھیں۔ صدارتی انتخاب کے لئے 2جنوری 1965 کی تاریخ طے پائی تھی۔ ایوب خاں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ حزبِ اختلاف کی 5جماعتیں، مادرِ ملت کو اس کے مقابل لاکھڑا کریںگی۔ ایوب خاں کے سیکرٹری اطلاعات (اور اپنے دور کے بہت تگڑے بیوروکریٹ) الطاف گوہر کے بقول، وہ ایک ناتواں اور ضعیف خاتون تھیں، جنہیں اردو یا بنگلہ کسی میں بھی اظہار کا ملکہ حاصل نہ تھا، لیکن ان کی شخصیت کا جادو سرچڑھ کر بول رہا تھا۔ عوام ان کے جلسوں میں جوق در جوق چلے آتے۔ ادھر حکمران جماعت پر مایوسی کا عالم تھااور اس کی صفوں میں بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ مغربی پاکستان میں طوفان اُٹھانے کے بعد، قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ نے مشرقی پاکستان کارُخ کیا، تو وہاں جذبوں کی روانی اور فراوانی ملک کے مغربی حصے سے بھی بڑھ کرتھی۔
سیاسی عمل ملک کے دونوں حصوں کے درمیان پُل بن گیا اور ہزارمیل کا فاصلہ بے معنی ہوکر رہ گیا تھا۔ اور پھر الیکشن کا دِن آگیا، عوام کے فیصلے کا دِن ۔ سب سے پہلے نتائج ڈھاکہ سے آئے ، اس کے بعد کراچی سے اور ملک کے دونوں بڑے شہروں کا فیصلہ مادرِ ملت کے حق میں تھا۔ خلقِ خدا فتح کا جشن منانے سڑکوں پر نکل آئی تھی اور پھر دوسرے شہروں سے موصولہ نتائج سے پانسہ پلٹنے لگا۔ ایک اخبار کی شہ سرخی کتنی معنی خیز تھی، ’’الیکشن کمیشن نے ایوب خاں کی فتح کااعلان کردیا‘‘۔الطاف گوہر کے بقول، ایوب خاں نے جو ابھی تک اپنے اوسان جمع نہیں کر پائے تھے ۔ لکھی ہوئی تقریر انہوں نے کسی جذبے کے بغیر ریڈیو پاکستان کے مائیکروفون کے سامنے پڑھ کر سنادی۔ ان کے چہرے پر حیرت کے آثار نمایاں تھے، جس چیز نے انہیں ہلا کر رکھ دیا تھا، وہ یہ تھی کہ وہ شکست سے بال بال بچے تھے۔ (دھاندلی کے باوجود) مادرِ ملت کی شکست آبرو مندانہ تھی ، کہ 80 ہزار ووٹرز (بی ڈی ممبروں) میں سے ایوب خاں نے 49951 اور مادرِ ملت نے 38691 ووٹ حاصل کر لئے تھے۔ مشرقی پاکستان میں فرق اور بھی کم تھا، صرف 2578ووٹوں کا فرق، جہاں ایوب خاں نے 21012 اور مادرِ ملت نے18434ووٹ حاصل کئے تھے۔ کراچی میں شکست ایوب خاں کے لئے خاص طور پر باعثِ تشویش تھی جس کا انتقام گوہرایوب کی زیرقیادت ایک جلوس نے کراچی والوں پر گولیاں برساکرلیا۔
آغا شورش یاد آئے۔ کچھ عرصے بعد ہندوستان میں اندرا گاندھی الیکشن جیت کر وزیراعظم بن گئیں، آغا صاحب نے لکھا: ’’نہروکی بیٹی تھی، ہندوستان میں الیکشن لڑا جیت گئی، قائداعظم کی بہن تھیں: پاکستان سے الیکشن لڑا، ہارگئیں‘‘۔ دھاندلی زدہ الیکشن کے نتائج حزب اختلاف کے لئے مایوسی سے زیادہ غصے کا باعث تھے۔ مادرِ ملت نے تو ان نتائج کو مسترد کر کے، متوازی حکومت بنانے کی تجویز بھی دے دی تھی(لیکن حزبِ اختلاف اس انتہائی اقدام پر آمادہ نہ ہوئی)۔ سیاسی کشیدگی کے اس بدترین ماحول میں،نواب زادہ صاحب کے بقول ، جہاں ایوب خاں اور اپوزیشن قیادت ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں تھے، ستمبر آگیا۔ اب سیاسی اختلافات سے بالاتر ہونے، اور اپنے زخموں کو بھول جانے کا وقت تھا۔ چار گنا بڑی طاقت کے حامل دُشمن سے نمٹنے کے لئے قومی اتحاد و یکجہتی کی ضرورت کے احساس نے انگڑائی لی اور ایوب خاں نے حزبِ اختلاف سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ ڈھاکہ سے فضائی رابطہ کٹ چکا تھا، چنانچہ مشرقی پاکستان سے کسی لیڈر کی راولپنڈی آمد ممکن نہ تھی۔
یہ 7ستمبر تھا، جنگ کا دوسرا روز، جب ایوب خاں کی دعوت پر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ، نواب زادہ نصراللہ ، چوہدری محمد علی، چوہدری غلام عباس، سردار شوکت حیات اور خواجہ صفدر، ایوانِ صدر پہنچے۔ الطاف گوہر کے بقول، ملاقات کے کمرے کی طرف جاتے ہوئے، ایوب خاں نے ان سے کہا، ’’آپ نے میرے تمام دُشمنوں کو اکٹھا کرلیاہے‘‘ لیکن وہ کمرے میں پہنچے تو وہاں دشمنوں کی بجائے پُرجوش دوستوں نے اُن کا اسقبال کیا۔ وہ سب کے سب انہیں اپنی حمایت کا یقین دِلا رہے تھے۔
حملہ لاہور پر ہواتھا اور ہزار میل دُور مشرقی پاکستان میں جذبوں کا یہ عالم تھا جیسے یہ حملہ ڈھاکہ پر ہُوا ہو۔ مشرقی پاکستان کے طول وعرض میں ہندوستان کے خلاف جلوس نکل رہے تھے، آغا نے نظم لکھی ، ’’مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلا م‘‘۔ صدر ایوب کواپنی قوم اور اپنی فوج کے مذہبی جذبوں کا بخوبی احساس تھا، اُسے معلوم تھا، مذہبی جذبہ کس طرح ممولے کو شہباز سے لڑجانے اور اس پر غالب آجانے کا باعث بنتا ہے۔ جذبوں کوجنوں میں ڈھالنے کے لئے 6ستمبر کی دوپہر قوم کے نام اس کے خطاب میں کلمۂ طیبہ شامل تھا۔ ادھر’’اے مردِ مجاہد جاگ ذرا ، اب وقتِ شہادت ہے آیا‘‘ جیسے ترانے لہو کو گرمانے لگے۔مولانا مودودی ریڈیوپاکستان پر ’’جہادی تقاریر‘‘ کر رہے تھے۔6ستمبر کی شام لاہور کے جم خانے میں محفل ناؤنوش سجانے کا ، بھارتی عسکری قیادت کا خیال ، ایک بھیانک خواب میں بدل گیا تھا۔۔۔اور پھر صرف 6سال بعد ڈھاکہ کے ریس کورس میں سرنڈر کا المیہ۔ اس کے اسباب و علل کی تفصیل میں جانے کا یہ محل نہیں، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں عبرت کا خاصا سامان موجود ہے۔
آج پھر دُشمن کی طرف سے سنگین چیلنج درپیش ہے، ایک طرف ملک کے اندر جنگ ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ، فاٹا میں اس کی نوعیت اور ہے، بلوچستان اور کراچی میں کچھ اور۔ یہ ایسی جنگ ہے جس کا محاذ پورے ملک پر محیط ہے۔ اس میں دُشمن محاذ ِ جنگ پر نہیں،ہمارے گلی ، کوچوںمیں، بازاروں اور مارکیٹوں میں، مساجد اور امام بارگاہوں میں، ہماری تنصیبات کے آس پاس کہیں بھی موجود ہوسکتا ہے۔ معصوم بچوں کو نشانہ بناتے ہوئے بھی اس کا دِل نہیں پسیجتا۔ اس جنگ کا بڑا حصہ جیتا جاچکا، لیکن ابھی یہ جنگ جاری ہے۔ ادھر سرحد کے اُس پار دُشمن کے جارحانہ عزائم ڈھکے چھپے نہیں۔’’ محدوداور مختصر جنگ‘‘کی بات تو ابھی دو، تین روز قبل اس نے سرعام کہہ دی ہے۔ ایسے میں قومی اتحاد ویکجہتی کے انہی جذبوں کی ضرورت ہے، جس کا مظاہرہ ستمبر 1965 میں ہوا۔ سیاسی وعسکری قیادت ایک ہی صفحے پر ہیں اور اپنے اپنے محاذ پر سرگرم ہیں۔
تازہ ترین