• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ان سے یہ میری پہلی ملاقات تھی وہ دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والی ایک فورس کے اہم ترین افسرہیں اور پشاور میں آرمی پبلک اسکول پرحملے کے بعد بننے والے نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمد کے اہم مشن سے وابستہ ہیں تاہم وہ دہشت گردی سے متاثرہ بلکہ دہشت زدہ صوبہ خیبرپختونخوا کے تیسرے افسرتھے جن سے میری گزشتہ چند روز کے دوران ملاقات ہورہی تھی جو تھے تو ایک اہم سویلین فورس کے افسرلیکن حیرانگی کا مقام تھا کہ وہ عقیدت رکھتے تھے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے، کہ ان کا ذکر وہ جس اندازمیں کررہے تھے مجھ سے بھی ہضم نہ ہو پایا تو آخرکارمیں نے وضاحت مانگ ہی لی کہ کیا وہ حقیقت میں بھی ایسا ہی سوچتے ہیں جیسا کہہ رہے ہیں اوران کی اس تعریف کے پیچھے کوئی اوربات تونہیںکیونکہ آج سے چند ہی سال پہلے تو یہ حالت تھی کہ ان کے اپنے ہی محکمے کے افسر دبے الفاظ میں یہی کہتے سنے جاتے تھے کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا جارہا۔ان کاکہنا تھا کہ جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی ہے اس کے بعد سے ان کی اوران کے بہت سارے دوست افسروں کی سوچ یقینا کسی حد تک ایسی ہی تھی لیکن اب گزشتہ کچھ عرصے سے وہ نہ صرف پرسکون ہیں بلکہ ملک کے مستقبل کے لئے جان کی بازی لگانے کے لئے پرعزم ہیں کہ انہیں اب کوئی خوف نہیں کہ دہشت گردجواب میں ان کا کیاحشرکردینگے ۔اپنے پر سکون ہونے کی و جوہات کی تفصیل بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ سکون آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ذات کی وجہ سے ہے جن کی ذات کا عکس اورسوچ فوج میں اوپرسے لے کرسپاہی تک پوری طرح سرایت کرچکی ہے کہ سویلین اداروں کو نہ صرف کام کرنے دیا جائے بلکہ ان کی پوری مدد کرکے استعداد بھی بڑھائی جائے اوریہی وہ سوچ ہے جس نے پوری فوج کوسویلین اداروں کے لئے ہمدرداورمشفق ادارہ بنانے میں بڑا کرداراداکیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب سویلین اداروں کے اہلکاروں کا اعتماد بحال ہونے لگا ہے اوریہی وہ پیغام ہے جودہشت گردوں کو بھی مل چکا ہے کہ فوج اورتمام سویلین ادارے مل کران کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیواربن چکے ہیں اورانہیں گروہ درگروہ شہروں پرحملے کرنے کی نہ آزادی ہے اورنہ ہی وہ اس قابل رہے ہیں کہ وہ ایسا کرسکیں ہاں اکا دکا انفرادی حیثیت میں واقعات ایک الگ بات ہے۔ وہ کہتے رہے اورہم سنتے رہے حقیقت میں حیرت ہورہی تھی کہ اس سے پہلے ان جیسے سویلین افسرسے جب بھی ملے وہ اپنا کچھ نہ کرنے کا رونا روتے ہوئے یہ ضرورکہتے کہ ان پراعتماد نہیں کیا جارہا اوران کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ان صاحب کے اعتماد میں اضافے کی دیگروجوہات میں ایک شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب اور خیبرایجنسی میں آپریشنز بھی شامل ہیں جنہوں نے حالات کوبہترکرنے میں جوکردارادا کیا ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک جب بھی پولیس ہو محکمہ داخلہ ہویا ضلعی انتظامیہ کے افسرسب یہی کہتے تھے کہ جب تک قبائلی علاقوں میں مربوط آپریشنز نہ ہوں تب تک حالات میں بہتری ممکن نہیں اوراب ان جاری آپریشنزنے ان کے حوصلے بڑھانے میں اہم کردارادا کیا ہے ، وہ کہہ رہے تھے کہ وہ ایسے لوگوں کومعاف بھی کردیتے ہیں جن کے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کی وجہ سے وہ دہشت گردی کے اس گرداب میں آپھنسے ہوںتومیں نے ان سے کہا کہ پہلے توکوئی اس نظریئے کو مانتا ہی نہیں تھا خصوصا وہ قوتیں جوکہتی ہیں کہ ان معاملات میں صرف انہی کی سوچ اوررائے ہی ٹھیک ہے توان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اب تک جتنے دہشت گردوں کوپکڑا یا کیفرکردارتک پہنچایا کسی نے بھی ان کا راستہ نہیں روکا کسی نے اس دہشت گرد کو اپنا اسٹریٹجک اثاثہ قرارنہیں دیا۔ میں نے کہا کہ ہمارے اتحادی ممالک خصوصا امریکہ اورمغرب تواب بھی ہم پرشک کرتے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کو پالتے ہیں اورانہیں کچھ نہیں کہتے جس پران کا جواب بڑا واضح تھا کہ اگرایسا کبھی ہوا بھی ہے تواب ایسا نہیں ہوتا۔ وہ کہہ رہے تھے اورمیں سوال پرسوال کئے جارہا تھا کیونکہ مجھے بھی پتہ تھا کہ شاید مجھے ان سے دوبارہ ملنے کا جلد موقع نہ مل سکے۔ وہ جتنے "شگوفے" چھوڑرہے تھے میری حیرت میںاضافہ ہورہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک ان کے ہتھے چڑھنے والے دہشت گردوں میں سے نوے فی صد سے زیادہ کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں اوروہ مذہب سے اتنے ہی بے بہرہ ہیں جتنا کوئی بھی دین سے بیزارشخص ہوسکتا ہے تاہم ایک فرق ہے کہ جن پکڑے جانے والوں کا تعلق مہذب شہروں سے ہے وہ مذہب کا علم رکھتے ہیں البتہ یہ عنصرقبائلی علاقوں کے پکڑے جانے والوں میں نہ ہونے کے برابر ہے جن میں سے ایسے بھی ہیں جنہیں کہا توقاری صاحب اورمولوی صاحب جاتا ہے لیکن انہیں توقرآن پڑھنا بھی نہیں آتا۔ قبائلی علاقوں کے دہشت گردوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی وقتی یا سنجیدہ نوعیت کے انتقامی جذبے، پیسے اوربعض دیگروجوہات کی بنا پردہشت گرد بنے۔ وہ تفتیش سے لے کرسزاؤں تک کے معاملات پرتمام اداروں کو ایک ہی پیج پردیکھ رہے تھے اورکہتے تھے کہ اب دہشت گرد کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ اس مربوط نظام میں کہیں پائی جانے والی کمزوری سے فائدہ اٹھاسکے۔ ہاں ان کی بات میں ایک شکوہ جوبھتے جیسے جرم کے ختم ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے وہ یہ تھا کہ متاثرین دباؤمیں آکربھتے کے دھندے میں ملوث لوگوں سے راضی نامہ کرلیتے ہیںا ورعدالتوں میں جھوٹ بول کرانہیں ہی پہچاننے سے انکاری ہوجاتے ہیں جنہوں نے ان کی زندگی اجیرن کررکھی ہوتی ہے۔ کیادہشت گردوں میں کوئی معصوم بھی نکلا ہے کہ میرے سوال کے جواب میں ان کا جواب کافی دلچسپ تھا کہ ایک عام دہشت گرد نہیں بلکہ ایک سخت گیر کمانڈرجب پکڑا گیا اوراس سے تفتیش کی گئی تودہشت گردی کی راہ پراس کے آنے کی وجہ ایسی تھی کہ جس پریقینا وہ معافی کے قابل ہے تاہم اس قسم کے لوگ ہزاروں میں کہیں ایک آدھ ہی ملتے ہیں۔ بات پھرصورتحال میں مجموعی بہتری کی جانب آئی توانہوں نے جنرل راحیل شریف کا ذکرکردیااوریوں ان کے سامنے بیٹھے بیٹھے مجھے میاں نوازشریف سمیت بعض دیگرسیاستدانوں یہاں تک کہ عمران خان کے وہ بیانات یاد آئے جس میں وہ بھی حالات میں بہتری کا کریڈٹ اسی جنرل کی سوچ کودے رہے تھے فیس بک اورسوشل میڈیا کے دیگرذرائع پروہ نعرے میری آنکھوں کے سامنے آنے لگے جس میں لوگ ازخود ہی جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع کے مطالبے کررہے تھے اورتب مجھے سمجھ آئی کہ یہ سب کچھ یوں ہی نہیں کہا جارہا۔میں اب ان ملاقاتوں کے بعد یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جوکچھ یہ سرکاری افسر، حکمراں، سیاستدان اورسوشل میڈیا پرلوگ کہہ رہے ہیں اگریہ سب سچ ہے تویہ یقینا وہی صبح ہے جس کا پوری قوم کو شدت سے انتظارتھا کہ اہم ترین عہدوں پرموجود ایک شخص کا مثبت رویہ اورپروفیشنلزم پورے معاشرے کا مورال بلند کرنے میں کیا کردارادا کرسکتاہے اوراگراس کام کا صرف آغازہی ہوگیاہے تویہی ایک بڑی عظیم منزل کی نوید ہے اوراگرہمیں جنرل راحیل شریف جیسے ایک دواورآرمی چیف تواترسے ملتے گئے اوران کی سوچ بھی یہی رہی توبس پھرکوئی بھی طاقت باہرسے آکرہمیں کسی بھی نعرے پرتقسیم نہیں کرسکتی۔
تازہ ترین