کوئی دن، یا چلیں عشرے، جاتے ہیں جب نوا ز شریف پاکستان اور د نیاکی دیگر ایجنسیوں کے چہیتے تھے اور اُنہیں پی پی پی سے دودوہاتھ کرنے کے لئے ، تھپکی دے کر میدان میں اتارا جارہا تھا تو سیکورٹی برہان کا بیانیہ تھا کہ پی پی پی ایک سیکورٹی رسک ہے ۔ نوا ز شریف و ہمنوا بلاتکان راگ آلاپتے کہ پی پی پی اور پاکستان اکٹھے چل نہیں سکتے ۔ اگر ڈان کے صفحہ اول پر شائع ہونے والے انکشافات کا تعلق کہیں پی پی پی سے ہوتا تو اس پر جہنم کے دروازے کھل جاتے، نواز شریف کالا کوٹ زیب تن کرکے، جیسا کہ وہ میمو گیٹ کے موقع پر دکھائی دئیے، سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوکر ’’غداری‘‘ پر سخت ترین کارروائی کا مطالبہ کرتے ۔
تاہم پی ایم ایل (ن) کا پنجاب کی پارٹی ہونا ایک ایسا شافی تعویذتھا جو دفع بلیات و قاطع آفات و جملہ مشکلات ثابت ہوتا رہا ۔ ہمارا قومی سلامتی کا معیار ہر جگہ یکساں نہیں۔ سندھ اور بلوچستان میں اس کی پیمائش کاپیمانہ مختلف، پنجاب میں اس کے خدوخال کی پرکھ کا معیار اور۔ تاہم آج یہ معروضات تبدیل ہوتے دکھائی دیتے ہیں، بلکہ کہنے دیجیے کہ ان میں نمایاں تبدیلی واقع ہوچکی ۔ کئی ایک عوامل پنجاب کے پرسکون افق کو برہم کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ رائے ونڈ کے نواب، یا کہنے دیجیے کہ پاناما کے نواب، کے چہروں پر پریشانی کے آثار ہویدا ہیں۔
اس کی تین وجوہ ہیں۔۔۔ پاناما، فوج کے ساتھ تعلقات اوروہ مسئلہ جس کا ان نوابوں کے پاس کوئی حل نہیں، عمران خاں۔ پاناما کی تلوار سر پر ،اسٹیبلشمنٹ ناراض، اور ڈان لیک اس تاثر کو مزید تقویت دیتے ہوئے کہ ان کے فوج اور خفیہ اداروں سے تعلقات میں مزید بگاڑ آچکا ، اور عمران خان اسلام آباد کی طرف کوچ کرنے کے لئے کمر بستہ۔ ان میں سے کوئی ایک مسئلہ کسی بھی دلاور کولرزہ براندام کرنے کے لئے کافی تھی، تینوں کی آمیزیش سے وجود میں آنے والی کاک ٹیل خطرناک۔ اہم بات یہ ہے کہ ان مسائل کا تدارک کرنے کے لئے شریف برادران کے پاس کوئی پلان نہیں، صرف کسی معجزے کا انتظار کہ وقت گزر جائے ، سیاہ بادل چھٹ جائیں اور روپہلی دھوپ خوف کے تاریک ہیولوں کو مٹا دے ۔ پی ایم ایل (ن) میں ذہین ترین دماغ رکھنے والے رہنما، چوہدری نثار ہیں۔ اُنھوں نے ڈان لیک پر فوج کی سائیڈ لی ہے ۔ اُن کے ذہن میں کیا ہے ؟ کیا وہ سیلاب کی صورت میںاپنے لئے کوئی محفوظ کنارہ تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں ؟تبدیل ہوتے ہوئے ماحول میں سازش کی تھیوریاںپر پرزے نکالتی ہیں۔
شریف برادران کے لئے یہ نیک شگون نہیں ہے کہ اسی ہفتے سپریم کورٹ بھی پاناما اسکینڈل کی سماعت کرنے جارہی ہے ۔ انہیں مے فیئر فلیٹس اور سمندر پار اکائونٹس کیس، جس میں ان کے دو بیٹوں اور ایک صاحبزادی کے نام ہیں، کو الجھاوا دینے کے لئے بہت ہی شاطر وکلا کی ضرورت ہوگی ۔ کئی عشروں سے شریف برادران نے ان اکائونٹس اور جائیداد کو عوام کی نظروںسے چھپایا ہوا تھا،ان کے ٹیکس کے گوشواروں اور الیکشن پیپرز میں ان کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ پاکستانی قوانین ان جرائم کی پاداش میں کسی کوعوامی عہدہ رکھنے سے نااہل قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اس کیس کی سماعت بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ پہلے سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے پاناما اسکینڈل کی دی جانے والی درخواستوں کو ’’بے بنیاد‘‘قرار دے کر رد کردیا تھا لیکن فاضل چیف جسٹس صاحب نے رجسٹرار کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے انہیں قابل ِ سماعت قرار دیا۔ پی ٹی آئی نے پاناما پر درخواستوںکی فوری سماعت کی بھی استدعا کی جو منظور ہوگئی۔
ہر چیز ایک سلوموشن میں ہورہی ہے ۔ اس میں جسٹس چوہدری کی عدالت کا دھمکی آمیز لہجہ نہیں ہے ۔ جسٹس چوہدری صاحب کے دھماکہ خیز بیانات بریکنگ نیوز بن کر برستے رہتے، لیکن موجودہ عدالت بہتر ین کارکردگی کے باوجود میڈیا سے باوقار گریز کی پالیسی رکھتی ہے ۔ جب وزیر ِاعظم نے پاناما اسکینڈ ل پر ایک بے ضررجوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست کی تومحترم چیف صاحب نے انکار کردیا۔ گویا حکومت اس ڈرامے بازی کو چھوڑ کر کوئی بامقصد اقدام اٹھائے ۔ جب جوڈیشل تاریخ رقم ہوگی تو یہ عدالت اپنے بصیرت اور جاندار فیصلوں کی وجہ سے یاد رکھی جائے گی۔ اب اس کے سامنے یہ یادگار کیس پیش ہونے جارہا ہے ، اور اس پر اسٹیک بہت گہرے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ پی ایم ایل (ن)کو بہت ہوشیار وکلا کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ خدشہ ہے کہ شریف فیملی کے ذاتی معاملات کی نگرانی کرنے والے مبتدی وکلا کام نہیں دیں گے ۔
اس ماحول میں ایک تاثر گہرا ہوتا جارہا ہے ، اور آپ اس بات کو لکھ رکھیں، ہم ایک فیصلہ کن مرحلے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک دور ختم ، اور دوسرا شروع ہوا چاہتا ہے ۔ تاہم اس تبدیلی میں خامشی کا پہلو نمایاں ہے ، نعروں اور نقاروں کے بغیر، اور یہ بھٹو یا ایوب خان کے خلا ف چلنے والی تحریکیوں جیسے مرحلہ نہیں۔ بہت مدہم سروں میں ، کوئی شور و غوغا نہیں۔ اس پرشاعرانہ محاورہ ہے ۔۔۔’’خدا کی لاٹھی بے آوازہوتی ہے ۔‘‘ہم اس بے آواز لاٹھی کی ’’خاموش ضربیں ‘‘ دیکھنے جارہے ہیں۔ اس کاری ’’ ضربت ِ خفیفہ‘‘ جلی اظہار شریف برادران کئی میڈیا ٹیم کے واویلے سے ہوتا ہے ۔ اس ٹیم کے تین سرخیل شمشیر زن محبی پرویز رشید، طلال چوہدری اور دانیال عزیز ہیں، لیکن حیرت انگیز طور پر وہ سکوت کی چادر تانے ’’منتظر ِ فردا ‘‘ ہیں۔اور پھر میرے دوست رانا ثنا اﷲکو کیا ہوا؟اب تو لسانی معرکے میں قیام کا وقت آیا تھا، وہ سجود میں تو نہیں گر گئے؟
ان مسائل کے ہوتے ہوئے خدا جانتا ہے کہ شریف برادران کو کیا سوجھی جو اسٹیبلشمنٹ سے تنائوبڑھالیا۔ سیکرٹری خارجہ نے پہلے تو پاکستان کی بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی پر روشنی ڈالی، اور جب آئی ایس آئی کے چیف نے پوچھا تو صوبائی حکومتیں دہشت گرد عناصر کو گرفتار کیوں نہیں کرتیں تو کہا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اس کا جواب یہ دیا کہ جب وہ جہادی عناصر کو گرفتار کرتے ہیں تو ایجنسیاں اُن کی راہ میں حائل ہوجاتی ہیں۔ اُس وقت کمرے میں سکتہ سا طاری ہوگیا، اور پھر وزیر اعظم نے صورت ِحال کو سنبھالنے کی کوشش میں کہا کہ یہ آئی ایس آئی کا قصور نہیں ہے ۔ یہ ریاست کی پالیسی ہے اور وہ اس کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ کیا بات ہے ! پہلے تنقید اور پھر حمایت ۔ پھر بھی جو ہوا ٹھیک ہوا، لیکن یہ گفتگو ڈان کو کس نے بتائی ؟اب ڈان جو مرضی کہے، اُ س نے یہ کہانی درختوں کے پتوںسے نقل نہیں کی ہے ، یہ کمرے میں ہونے والی میٹنگ تھی۔ یہاں معلومات اور اظہار کی آزادی کے معروضات بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پہلے تو حکومت نے آئی ایس آئی چیف پر تنقید کی، پھر حمایت کی اورپھر تمام معلومات عوام تک پہنچا دیں۔ خیر اس ڈرامے کا مقصد اور انجام کیا ہوگا؟لگتا ہے کہ اُنھوں نے بہت چالاک بننے کی کوشش کی تھی۔
.