• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت اور پاکستان کے درمیان بھارتی رویے کی وجہ سے جو تنائو کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، جنوبی ایشیا کا امن ایک بڑی اور ہولناک جنگ میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے، بھارت میں جب بھی کوئی الیکشن خواہ وہ نچلی سطح کے ہوں یا پارلیمنٹ کے پاکستان ان میں اولین موضوع ہوتا ہے، چاہے وہ فرقہ پرست پارٹیاں ہوں یا نام نہاد سیکولر، سب ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر پاکستان کو تختہ مشق بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہاں کے عوام کو پاکستان کا ہوادکھا کر پاکستان کی دفاعی قوت کو بڑھاچڑھا کر طاقتور دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہرسیاسی جماعت کا رہنما اسٹیج پر آکر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پاکستان سےمیں ہی نمٹ سکتا ہوں۔ اسی بنیاد پر اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم بنے، اسی بنیاد پر چندرشیکھر وزیراعظم بنے، جواہرلعل نہرو کے شاگرد خاص لال بہادر شاستری نے بھی بالآخر اپنے عوام کو بہادری دکھانے کے لئے 1965میں پاکستان پر حملہ کردیا اور پاکستان کی مسلح افواج کی زبردست مزاحمت کے دوران انہیں لینے کے دینے پڑگئے۔ سرحدی شہرامرتسر، پٹھان کوٹ، مونابائو اور جے پور وغیرہ خالی ہوگئے۔ ہماری دفاعی قوت اور عوام کے بھرپور اتحاد نے مزاحمت کی شاندار روایت قائم کی۔ ہمارے بہادر نوجوان ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور بالآخر بھارت کو ہمیشہ کی طرح اقوام متحدہ سے جنگ بندی کی اپیل کرنا پڑی۔ اگر یہ جنگ چنددن اور جاری رہ جاتی تو بھارت کو اپنے سرحدی شہر چھوڑنے پڑتے۔ آج بھی میوزیم ایوب پارک میں وہ سامان دیکھا جا سکتا ہے جو پاکستان کی مسلح افواج نے قبضہ کرکے وہاں سے حاصل کیا تھا۔ پوری قوم افواج پاکستان کی پشت پر موجود تھی۔ اب ایک مرتبہ پھر ہندوستان اپنے عوام کو سبزباغ دکھا کر ہماری سرحدوں پر پرامن عوام کو نشانہ بنا رہا ہے اور سرحد کے معصوم عوام کو خون میں نہلا رہا ہے۔ بھارت اپنے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے اور خاص طور پر مسئلہ کشمیر کو پس منظر میں دھکیلنے کے لئے یہ حرکات کرتا رہتا ہے کیونکہ ہندوستان میں علیحدگی کی بہت سی تحریکیں چل رہی ہیں۔ کشمیر میں پاکستانی پرچم شدت سے لہرائے جارہے ہیں اور پرامن ہندوستانی اپنی لیڈر شپ کی ان حرکات کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ وہ کھلے عام کہتے ہیںکہ کشمیر کی وجہ سے ہمارے ملک میں یہ اتفراتفری مہنگائی کا طوفان اور غربت کے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔
انسانی تہذیب میں دولفظ اپنی اہمیت اور افادیت کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ امن ایک خوبصورت لفظ ہے اس سے شائستگی، زندگی اور خوشحالی ٹپکتی ہے جبکہ جنگ ہولناکی، آگ، خون اور بھوک و افلاس کا تصور پیدا کرتی ہے۔ ’’راون‘‘ کے پجاری بار بار اس خطے کو ہولناک جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس دفعہ بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ اگرخدانخواستہ یہ جنگ پھیل گئی تو یقیناً اس خطے کے دوارب عوام متاثر ہوں گے اور یہ جنگ ایٹمی جنگ بھی بن سکتی ہے۔میں نے یہ بات ہندوستان ٹی وی چینل پر ایک انٹرویو میں بھی کہی تھی جو مجھ سے اسلام آباد میں سارک کانفرنس کے دوران انڈین ٹی وی نے لیا تھا۔ وہ لوگ ابھی زندہ ہیں جنہوں نے پہلی جنگ عظیم دیکھی اور دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر ایٹمی حملہ ہوتے ہوئے دیکھا۔ یہ تمام صورت حال ہماری پہلی نسل نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ہمارے رہنمائوں نے اسی لئے پاکستان کا مطالبہ منظور کرایا تھا کہ پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتے تھے۔ یہی وہ وقت ہے جب امن کے لئے مربوط اقدامات کرکے دونوں ملک ترقی اور تہذیب کی راہوں پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ بھارت جو جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہے اس کی سیاست اور جمہوریت کو ’’را‘‘ جیسی فاشسٹ قوت کنٹرول کرتی ہے۔ میں ایمانداری سے یہ بات کہتا ہوں کہ ہندوستانی سیاست، اقتصادیات اور فوجی قوت کو ’’را‘‘ کی پالیسیاں کنٹرول کرتی ہیں اور اینٹی پاکستان موومنٹ بھی انہی کی وجہ سے چلتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کی کمزور لیڈرشپ کی وجہ سے انہیں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا موقع مل گیا اور اب وہ مغربی پاکستان کو ہرلحاظ سے تباہ کرنے کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔ ہمارا ملک ترقی کررہا ہے بین الاقوامی طور پر اپنے وجود کو منواکر پالیسیاں ترتیب دے رہا ہے اس سے وہ سخت خوفزدہ ہیں۔ چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی ان کی نظر میں کھٹک رہے ہیں۔ انہیں شاید یہ معلوم نہیں کہ جب مایوس اقوام آخری حدوں پر چلی جاتی ہیں تو پھر ویتنام، کوریا، الجزائر، فلسطین اور کشمیر میں بسنے والی اقوام دنیا کی طاقتور جنگی مشینری کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔
ہم مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے کیونکہ بہت سے متنازع امور امن کی فاختہ اور شاخِ زیتون کے ذریعے ہی حل کئے جا سکتے ہیں۔ ہم نے اس اعصابی جنگ میں اپنے حریف کو مفلوج کردیا ہے۔ ہندوستان کی بے قابو جمہوریت جو ’’را‘‘ کے ذریعے کنٹرول ہورہی ہے ہماری پرامن پالیسی کا مقابلہ نہیں کرسکتی،ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں ’’میکاولی‘‘ طرزِسیاست کا سامنا ہے۔ تمام فیصلے ہندوستان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوسکتے۔ اگر حقائق سے منہ موڑا گیا تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ تیسری جنگ عظیم ہوکررہے گی۔ اس سے دنیا کی طاقت بے حد پریشان ہے ورنہ پھر کوئی آنے والا ادیب یا مفکر واراینڈپیس لکھے گا مگر اسے پڑھنے والے کہاں ہوں گے۔
تازہ ترین